پاکستان تحریک انصاف کے قیام کو 28برس سے زائد ہو گئے ہیں ، 25اپریل 1996ء کو پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان نے لاہور میں اس جماعت کی بنیاد رکھی ۔جون 1996 ء میں پاکستان تحریک انصاف کی پہلی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی عمران خان کی سربراہی میں تشکیل دی گئی جس میں نعیم الحق، احسن رشید، حفیظ خان، مواحد حسین، محمود اعوان اور نوشیروان برکی شامل تھے۔ اس جماعت کا پہلا امتحان 1997ء میں ہونیوالے عام انتخابات تھا جس میں عمران خان سمیت پارٹی کے تمام امیدوار بری طرح شکست کھا گئے۔حالانکہ یہ وہ دور تھا جب بانی پی ٹی آئی کی کرشماتی شخصیت کے سحر نے نوجوانوں کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا کیونکہ محض پانچ برس قبل1992ء میں ان کی قیادت میں پاکستان نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا تھا جبکہ تین برس قبل 1994ء میں عمران خان نے کینسر کے علاج کیلئے شوکت خانم ہسپتال قائم کیا تھا۔ اس ہسپتال کیلئے انہوںنے ملک بھر سے چندہ اکٹھا کیا جس میں لوگوں نے دل کھول کر عطیات دیئے جبکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی فنڈ ریزنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔یہ دو ایسے کارنامے تھے جن کی بدولت وہ لوگوں کے دلوں میں گھر کر چکے تھے تاہم عمران خان کو اپنی مقبولیت کے عروج پر انتخابی میدان میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان انتخابات میں نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) نے دوتہائی اکثریت حاصل کر کے اپنی حکومت قائم کی۔اکتوبر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تو پاکستان تحریک انصاف نے پرویز مشرف کے اس اقدام کو سراہاجبکہ 2002ء کو پرویز مشرف کے صدارتی ریفرنڈم میں بھی انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ ملک بھر میں اسی برس ہونیوالے عام انتخابات میں تحریک انصاف کو ایک بار پھر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور صرف بانی پی ٹی آئی ہی میانوالی کے حلقہ سے کامیاب ہوسکے۔ 2002ء سے 2007ء تک وہ پی ٹی آئی کے واحد رکن قومی اسمبلی تھے، انہوں نے پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات کی مخالفت بھی کی۔2007 ء میں بے نظیر بھٹو کے قتل اور نواز شریف کے سعودی عرب میں خود ساختہ جلاوطنی سے واپس آنے کے بعد پرویزمشرف پر جمہوری انتخابات کرانے کے لیے دباؤ بڑھ گیا۔ پی ٹی آئی نے کئی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ میں شمولیت اختیار کی جو مزید فوجی حکمرانی کی مخالف تھی۔ 2008ء میں ہونیوالے عام انتخابات کا تحریک انصاف نے بائیکاٹ کیا ۔ یہ وہ دور تھا جب تحریک انصاف کو قائم ہوئے12برس کا عرصہ گزر چکا تھا لیکن ابھی تک انتخابی سیاست میں اس کی اہمیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ 2008ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت قائم کی اور سید یوسف رضا گیلانی ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔
2011ء میں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے ایکدوسرے کیخلاف تندوتیز بیانات دینا شروع کر دیئے تو سیاست نوے کی دہائی میں واپس جاتی دکھائی دے رہی تھی لیکن ایسے میں تحریک انصاف کی مقبولیت میں اچانک اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ سینئر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہی وہ وقت تھا جب تحریک انصاف کو مخصوص طاقتوں کی حمایت ملنا شروع ہوئی ۔ ان موزوں حالات میں تحریک انصاف نے30اکتوبر 2011ء کو مینار پاکستان پر جلسہ کا اعلان کر دیا تو اسے ’’ کامیاب‘‘ بنانے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا گیا، 25دسمبر کو مزار قائد پر جلسہ بھی انتہائی ’’کامیاب‘‘ بنایا گیا۔ یہ جلسے تحریک انصاف کی اٹھان کا باعث بنے اور بعدازاں دوسری جماعتوں کے اہم رہنما رفتہ رفتہ پی ٹی آئی میں شامل ہونے لگے۔ اب یہ وہی تحریک انصاف تھی جو اتنے برسوں کی جدوجہد کے بعد بھی کوئی خاص سیاسی کامیابی حاصل نہیں کر سکی تھی لیکن اب سیاسی مومینٹم پکڑ رہی تھی ۔ اسی دوران 2013ء میں عام انتخابات کا اعلان ہوا تو انتخابی مہم کے دوران عمران خان نے قوم کو ’’ نیا پاکستان ‘‘بنانے کی نوید سنائی،انتخابی نتائج کے مطابق تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں اچھی خاصی سیٹیں حاصل کر لیں لیکن مرکزی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ آ سکی جبکہ خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی ۔اپنے قیام کے 17برس بعد ایک صوبائی حکومت کا قیام اس کی پہلی بڑی کامیابی تھی۔ ان انتخابات میں کامیابی کے بعد میاں نواز شریف تیسری بار ملک کے وزیراعظم بن گئے تاہم عمران خان نے دھاندلی کے الزامات لگا کر حکومت کیخلاف تحریک کا آغاز کر دیا۔ 14اگست 2014ء کولاہور سے آزادی مارچ کا آغاز ہوا، ساتھ ہی ڈاکٹر طاہر القادری نے انقلاب مارچ شروع کر دیا۔ تحریک انصاف کی قیادت نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دیا جو چار ماہ تک جاری رہا۔ عمران خان تقریباً روزانہ تقریر کرتے اور اپنی تقریر میں بارہا ’’ امپائر کی انگلی‘‘ کا ذکر کرتے کہ وہ اٹھنے ہی والی ہے۔امپائر کی انگلی تو نہ اٹھ سکی لیکن 16دسمبر 2014ء کو پشاور میں آرمی پبلک سکول میںایک اندوہناک واقعہ پیش آیا جس کے بعد تحریک انصاف نے اپنا دھرنا ختم کر دیا۔ 2016ء میں پاناما کیس سامنے آیا تو تحریک انصاف نے حکومت کیخلاف احتجاجی تحریک شروع کر دی۔ پاناما کیس کے نتیجہ میں میاں نواز شریف کو نااہلی اور قید کی سزا ہوئی اور انہیں وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے ۔ 2018ء میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا تو اٹھائیس برس بعد پاکستان تحریک انصاف کو سب سے بڑی کامیابی ان انتخابات کے بعد حکومت کی صورت میں ملی اور عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس حکومت کو سلیکٹڈ قرار دیا۔ سیاسی ہنگامہ آ رائی جاری رہی اور اپریل 2022 ء میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی اور انہیں اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ میاں شہباز شریف ملک کے نئے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ بانی چیئرمین 5اگست 2023ء کو بانی پی ٹی آئی کو توشہ خانہ کیس میں سزا سنائی گئی اور انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ اس سال 8فروری کو ملک بھر میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا تو تحریک انصاف کیلئے حالات انتہائی نامساعد تھے ، انتخابی نشان تک چھن گیا تھا ، جلسے جلوسوں کی بھی اجازت نہ تھی ، ایسے میں تحریک انصاف کے حامی امیدواروں نے خاطر خواہ کامیابی حاصل کی اور خیبرپختونخوا میں ایک بار پھر حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔عمران خان کو قید میں تقریباًایک سال کا عرصہ ہو چکا ہے ابھی تک ان کی جماعت اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے لیکن قید کا یہ عرصہ طوالت پکڑ گیا تو اس جماعت کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ جائے گا کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ 28برس بعد بھی یہ جماعت فرد ِواحد ہی ہے۔