مرے رہبروں نے لوٹا…

دو جلسے ہو چکے۔ عوام کے لیے یہ اچھی مصروفیت بھی ہے اور ایک مرتبہ پھر سہانے مستقبل کے خوابوں کی نئی کہانی، نیا بیانیہ بھی۔ کتنے سادہ لوح ہیں۔ ہر حکومت کا عنوان بظاہر جو بھی ہو کہانی ایک ہی ہوتی ہے۔ ’دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے!‘ مثلاً یہ عوام کو بجلی کے جھٹکے (بلوں کے ذریعے) دے مارنے والی آئی پی پیز، (بجلی کمپنیاں) باہر کے دشمنوں کی تو نہیں۔ یہ ہمارے ’وی آئی پیز‘ ہی کی تو ہیں۔ جبھی تو ہر حکومت میں یہ چلتی رہیں۔ اور عوام بلبلاتے رہے۔ یہ سو عدد پرائیویٹ کمپنیاں ہمارا خون چوس کر سیاست دانوںاور حکمرانوں کو توانا رکھتی ہیں۔ افسران کے بل چونکہ ہم ٹیکس دے کر ادا کر دیتے ہیں سو وہ بھی زناٹے دار گاڑیوں اور ٹھنڈے ٹھار دفاتر اور گھروں میں چین سے رہتے ہیں۔ حقائق عیاں ہیں لیکن ہمیںاحمقوں کی جنت میں رہنا اچھا لگتا ہے۔
ہمارے دشمن ہمیں مطلع کر تے رہتے ہیں۔ مثلاً اسرائیل کو لیجیے تو سب سے زیادہ منہ پھٹ ہے راز کھولنے میں ۔ 6دسمبر2017کو اسرائیل نے بین الاقوامی معاہدہ توڑتے ہوئے یروشلم؍ بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت بنا کر فلسطین پر اپنا قبضہ مزید مستحکم کیا تھا۔ 7دسمبر کو امریکہ نے اپنا سفارت خانہ یہاں منتقل کیا۔ 15ستمبر2020ء میں متحدہ عرب امارات نے یہ ستم ڈھایا کہ ابراہیمی معاہدے کے نام سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرکے امن معاہدہ کیا۔ اور پھر چل سو چل۔ بحرین، مراکش اور سوڈان بھی یہی معاہدہ کر گزرے۔تاہم جب اسرائیل سعودی عرب سے بھی یہ راہ ہموار کر بیٹھا تو اچانک 7اکتوبر 2023ء کو حماس ؍ القسام بریگیڈ نے سارے خواب چکنا چور کر دیے۔ ’طوفان اقصیٰ‘ نہایت غیر متوقع طور پر اسرائیل کی سٹی گم کرنے کا سبب بنا ۔ 11مہینے تک دنیا کا ہر ہتھیار آزمانے، معصوم شہریوں کے خون سے پورا غزہ سینچنے، ملبے کا ڈھیر بنانے اور سب سے بڑے اجتماعی قبروں والے قبرستانوں کا عالمی ریکارڈ قائم کرنے کے باوجود ناکام و نامراد شکست خوردہ ہی ہے۔ معاملہ افغانستان سے یوں کم نہیں کہ انہی تمام مغربی ممالک کا اسلحہ اور تائید ، امداد اسرائیل کو بھی حاصل ہے جو 20سال افغانستان میں بارود بوتے رہے۔ یہاں عورتوں بچوں کے قتل عام کا ورلڈ ریکارڈ مزید ہے۔ مسلم دنیا کل بھی تماش بین تھی آج بھی ہے۔ اسرائیل جوتے تلے دبا کر رکھے فلسطینیوں سے بے خوف ہو گیا تھا۔ اپنی فوج بھی کم کر دی تھی۔ اسرائیل یہودیوں کے لیے چھٹیاں گزارنے کو نانی کا گھر بن چکا تھا فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ کرکے۔ مگر اب؟ اسرائیلی شہری واپس اپنے ملکوں کو بھاگ گئے۔ (امریکہ، روس، یورپ ۔۔۔) فلسطینیوں کو بے دخل کرکے، مار کر سرزمین
یہودیوں کی میراث قرار دی تھی وہاں یہودی ٹکنے کو تیار نہیں؟ اب اسرائیل، افریقہ اور دیگر پسماندہ علاقوں سے کرائے کے فوجی بھرتی کررہا ہے۔ بھارتی ہندو مزدوری کے لیے آ رہے ہیں۔ اسرائیلی فوجی غزہ پر تمام قیامت برسا کر بھی ناکام و نامرادرہے۔ ان کے چٹانوں کی طرح غیرمتزلزل عزم سے ٹکرا ٹکرا کر یہ نفسیاتی مریض، پاگل، معذور، زخمی ہو گئے یا مر گئے۔ اہل غزہ خوفناک ترین آزمائشوں سے گزر کر بھی پامردی و استقامت میں ضرب المثل ہیں۔ رہا شدہ یرغمالی اسرائیلی کے مطابق، ان کی سرنگیں 80فیصد قابل استعمال ہیں۔ خود اسرائیلی فوجی ترجمان کے مطابق حماس کو مٹا دینا ناقابل حصول ہدف ہے۔ لڑائی سے دست بردار اسرائیلی کے مطابق فلسطینی شجاعت بے پناہ ہے۔ غزہ میں انھوں نے بے شمار فوجی ہلاک سینکڑوں ٹینک اور بلڈوزر تباہ کیے ہیں۔ یہ دنیا بھر سے کٹے ہوئے، پھٹے ہوئے کپڑوں میں ہیں! تازہ ترین رفح میں گھر میں گھسنے والے کئی یہودی فوجی زخمی اور متعدد ہلاک کیے ہیں۔ اسی طرح صرف دو مجاہدین نے ایک پورے اسرائیلی دستے کا صفایا کر دیا۔ استقامت، فوج کا کام کرتی ہے۔
تمام تر کمر توڑ اسرائیلی نقصانات اور شکست کے باوجود گریٹر اسرائیل اور مسلم ممالک سے رشتہ استوار کرنے کا خمار نہیں ٹوٹا۔ وجہ مسلمانوں کی شرمناک کمزوری، خاموشی اور بے حسی کے سوا کچھ نہیں۔ اب ابراہیمی معاہدہ کی ’سالگرہ‘ (غزہ کی بنا پر ’برسی‘ ہے اصلاً) کے موقع پر یروشلم پوسٹ میں مضمون شائع ہوا ہے۔ (ہیری رچر: 15ستمبر) ’مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل سے تعلقات پر تاریخی اقدامات کے بعد اب اسرائیل کی نگاہ انڈونیشیا اور پاکستان پر ہے۔ اس کے مطابق اگرچہ پاکستان سدا سے فلسطین کا حامی رہا ہے مگر حالیہ برسوں میں اسرائیل سے تعلقات بہتر بنانے کے اشارات وہاں سے ملتے رہے ہیں۔ اگرچہ بظاہر عمران خان اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف لگے بندھے سخت بیان جھاڑتا رہا۔ تاہم اس نے یہ اشارہ بھی دیا کہ پاکستان کو خارجہ پالیسی سے راستہ نکالنے کی ضرورت ہے۔ مضمون نگار پاکستان کو معاشی فوائد گنواتا ہے اور امید رکھتا ہے کہ عمران خان ہی وہ شخصیت ہے جو رائے عامہ اور فوج کی پالیسی بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘ ہمیں کان آنکھیں کھلے رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں اعلیٰ سطحی تعیناتیاں حکمران طے کرنا، بیرون ملک ہی سے قرار پاتا ہے! اللہ رحم کرے۔ (آمین)
الحمدللہ کہ پاکستانی ہائی کمشنر نے بنگلہ دیش میں سیکرٹری خارجہ سے بہت سے معاملات پر مفصل بات چیت کی ہے ملاقات کرکے۔ باہمی دلچسپی کے امور، تجارت میں باہمی تعاون مضبوط کرنے پر بھی گفتگو رہی۔ سارک اور روہنگیا کا بھی تذکرہ رہا۔ مضبوط آزاد بنگلہ دیش ، مضبوط آزاد پاکستان، مودی کے لیے خطرہ ہے۔ فی الوقت تو اسے مسلمانوں کے ساتھ جو جی میں آئے کر گزرنے کی کھلی چھٹی ہے مگر دونوں مسلم ممالک کی یک جہتی مظلوم مسلمانوں کی عین ضرورت ہے۔ اس وقت بھارت مسلم وقف املاک چھیننے کی تیاری میں ہے۔ کسمپٹی میں ایک اور مسجد شہید کرنے کا مطالبہ بی جے پی نے کھڑا کر دیا ہے۔ ہمارا مضبوط تعاون خطے کے لیے اور خود ہماری آزادی و خودمختاری کے لیے ہماری ضرورت ہے۔ بنگلہ دیش ریڈیو کی ہندی اور نیپالی زبان میں سروس ہوا کرتی تھی۔ اب وہ اردو سروس کی بحالی چاہ رہے ہیں کہ یہ ہمارا آڈیو سفیر ہو گا۔
نیویارک میں یو این جنرل اسمبلی کا اجلاس بنگلہ دیش کے حالیہ انقلاب کے تناظر میں اس کے لیے بہت اہمیت کا حامل رہا۔ گویا ایک نیا بنگلہ دیش متعارف ہوا۔عالمی لیڈروں کے علاوہ ڈاکٹر یونس بھی نیویارک میں موجود تھے۔ مودی کڑھن کا شکاررہا۔ اس نے بنگلہ دیش کا جو محدود قد کاٹھ اپنے انگوٹھے تلے رکھنا چاہا تھا، وہ آج اس سے نکل کر آزاد، خود مختار، ملک کی حیثیت سے اپنی شناخت کروانے کی پوری تیاری سے گیا۔ اس مرتبہ حسینہ واجد حکومت میں چارٹرڈ کی جگہ کمرشل فلائٹ میں صرف ناگزیر افراد ہی کا انتخاب کیا گیاوفد کے لیے۔ وہاں مودی سے ملاقات نہ ہو یٔ۔ خصوصی تذکرہ ڈاکٹر یونس کی وزیراعظم شہباز شریف، نیدر لینڈ اور نیپال کے وزرائے اعظم سے ملاقات کا رہا۔ صدر یورپی کمیشن،صدربایٔڈن، امریکی سیکرٹری سٹیٹ و دیگر اہم شخصیات سے بھی ڈاکٹر یونس کی ملاقاتیں رہیں۔ روہنگیا کا مسئلہ اٹھانے کے لیے ایک خصوصی پروگرام کا اہتمام بنگلہ دیش کی طرف سے کیا گیا ۔ بھارت کی طرف بنگلہ دیش کا رویہ مضبوط اور حقیقت پسندانہ ہے۔ اہم مسائل جو مابین درپیش ہیں انھیں حل کرنے کی ضرورت کا احساس ہے مگر برابری اور باہمی احترام ملحوظ رکھنے پر زور تھا۔ بنگلہ دیش کی خود مختاری، قومی وقار پر بھارت سے تعلقات کے ضمن میں مشیر خارجہ امور نے زور دے کر متوجہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر چہ بھارت سے ہمارے تعلقات میں ایک درجہ تنائو ہے مگر ہمیں اس سے ہٹ کر باہمی تعلق استوار کرنا ہو گا۔ ہمارا عزم ہے کہ بنگلہ دیش عوام کو ساتھ لے کر چلے گا۔ یہ ان کی فلاح اور ان کے مفادات کا تحفظ ، اپنا محور بنانے والی ریاست ہو گی۔
یاد رہے کہ اٹارنی جنرل بنگلہ دیش کا بیان ہے کہ انقلاب (5اگست)کے بعد سے آج تک کوئی ماورائے عدالت قتل نہیں ہوا۔ جب کہ حسینہ واجد دور میں جولائی 2024ء تک 4ہزار افراد ماورائے عدالت مارے گئے۔ سات سو جبری گمشدگی کا نشانہ بنے۔ 60لاکھ افراد جعلی مقدموں میں نامزد کیے گئے۔ آزادیٔ اظہار پر پابندی کا بدترین دور رہا۔
تھا ذوقِ منزل ہی میری دولت
جسے مرے رہبروں نے لوٹا