شاباش شہباز شریف

گزشتہ روز سے تو بس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے وزیراعظم شہبازشریف کے دھواں دار خطاب کے چرچے ہیں۔ بلاشبہ یہ خطاب اتنا مضبوط اور جامع تھا کہ بات بات پر تنقید کا پہلو نکال لینے والی ہماری اپوزیشن جماعتیں بھی اس پر اعتراض کرنے سے قاصر ہیں۔ جمعہ کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (یو این جی اے) کے 79 ویں اجلاس سے شہباز شریف کا خطاب غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں، حل نہ ہونے والے کشمیر تنازعہ، عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران اور عالمی برادری کی انصاف اور انسانی حقوق کی پاسداری میں ناکامی پر مرکوز تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے غزہ پر اسرائیل کی بمباری کی بھرپور انداز میں مذمت کرتے ہوئے اس صورتحال کونسل کشی کی جنگ اور انسانی تباہی قرار دیا۔ انہوں نے فلسطینی شہریوں بالخصوص خواتین اور بچوں کے مصائب کی واضح تصویر کشی کرتے ہوئے تشدد کے فوری خاتمے کا مطالبہ بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ہم ارض مقدس میں رونما ہونے والے سانحے کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہمارا دل خون کے آنسو روتا ہے۔یہ صرف ایک تنازعہ نہیں ہے، یہ معصوم لوگوں کا منظم طریقے سے قتل کرنے کی سازش ہے، غزہ کے بچوں کے خون سے نہ صرف ظالموں کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیںبلکہ وہ لوگ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں جو اس ظالمانہ تنازعے کو طول دینے کا حصہ ہیں۔
شہبازشریف نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ خونریزی کو روکے اور دو ریاستی حل کے ذریعے ایک پائیدار امن کے لیے کام کرے۔ انہوں نے 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ بھی کیا، جس میں مشرقی یروشلم (القدس الشریف) اس کا دارلحکومت ہو۔ وزیراعظم نے فلسطینیوں کی جانوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فلسطین کو اقوام متحدہ کا مکمل رکن تسلیم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
اپنے خطاب میں شہبازشریف نے فلسطینی عوام کی حالت زار اور حق خود ارادیت کے لیے کشمیری عوام کی دہائیوں سے جاری جدوجہد کے درمیان مماثلتیں کھینچیں۔ انہوں نے جموں و کشمیر کے متنازعہ علاقے میں جاری جبر پر بھارت پر تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی قراردادوں کو نظر انداز کر رہا ہے جس میں کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا خود تعین کرنے کی اجازت دینے کے لیے استصواب رائے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے 5 اگست 2019 کے بعد سے بھارت کے اقدامات کی مذمت کی، جب اس نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا، اور نئی دہلی پر الزام لگایا کہ وہ خطے کی آبادیاتی ساخت کو غیر قانونی طور پر تبدیل کر کے ’حتمی حل‘ مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ شہباز شریف نے خطے میں ہندوستان کے تقریباً دس لاکھ فوجیوں کے استعمال کو ایک ’کلاسک نوآبادیاتی منصوبے‘ کے طور پر بیان کیا، جو مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 900,000 بھارتی فوجی آئے دن مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو ظالمانہ اقدامات، طویل کرفیو، ماورائے عدالت قتل اور ہزاروں نوجوان کشمیریوں کے اغوا کے ذریعے دہشت زدہ کر رہے ہیں۔ شہبازشریف نے ہندوستان کو سخت انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے پار کسی بھی قسم کی جارحیت کا ٹھوس جواب دے گا۔
وزیراعظم نے ترقی یافتہ ممالک پر زور دیا کہ وہ موسمیاتی مالیات کی فراہمی کے اپنے وعدوں کو پورا کریں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ 100 بلین ڈالر سے زیادہ کا نیا سالانہ ہدف، موسمیاتی اہداف اور پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) کے حصول میں ترقی پذیر ممالک کی مدد کے لیے ضروری ہے۔ پاکستان کی معاشی بحالی پر روشنی ڈالتے ہوئے، شہباز شریف نے کہا کہ ان کی حکومت نے معیشت کو مستحکم کرنے، مالیاتی خسارے کو کم کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو مضبوط کرنے کے لیے مشکل فیصلے کیے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ افراط زر کو سنگل ہندسوں تک کم کر دیا گیا ہے، جس سے اقتصادی ترقی کے امکانات بحال ہو رہے ہیں۔
شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں پر بھی روشنی ڈالی ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے، شہریوں اور سیکورٹی فورسز سمیت 80,000 افراد کو کھو یا ہے اور 150 بلین ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان برداشت کیا ہے۔ انہوں نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور دیگر انتہا پسند دھڑوں کی طرف سے دہشت گردی کے دوبارہ سر اٹھانے کی مذمت کی اوراعلان کیا کہ ہم اپنی جامع قومی کوششوں کے ذریعے اس خطرے کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
شہبازشریف نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کی پیشرفت کی تعریف کی، ان کا کہنا تھا کہ خاص طور پر اس منصوبے کا دوسرا مرحلہ، جس میں بنیادی ڈھانچے، قابل تجدید توانائی اور ٹیکنالوجی کی سرمایہ کاری پر توجہ دی گئی ہے بہت اہم ہے۔ انہوں نے علاقائی رابطے اور جیو اکنامکس کو فروغ دینے میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) کے کردار پر روشنی ڈالی، جسے انہوں نے خطے کے لیے’جیت کے نتائج‘ حاصل کرنے کی بنیاد قرار دیا۔
وزیر اعظم نے افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا اور افغان عبوری حکومت سے انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کا احترام کرنے اور دہشت گروہوں کے خلاف موثر کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی کیا ۔ شہباز شریف نے قرآن پاک کی حالیہ بے حرمتی، مساجد پر حملوں اور مسلمانوں کی منفی دقیانوسی سوچ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسلامو فوبیا میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے خاص طور پر ہندوستان کے ہندو بالادستی کے ایجنڈے پر تنقید کی، جس کا مقصد 200 ملین مسلمانوں کو محکوم بنانا اور ہندوستان کے اسلامی ورثے کو مٹانا ہے۔ ’اسلام فوبیا ایک عالمی تشویش ہے، اور ہمیں مل کر اس کا مقابلہ کرنا چاہیے،‘ شہبازشریف نے مزید کہا کہ پاکستان اس کے خلاف ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔