علامہ اقبالؒ اور سید مودودیؒ کا ساتھ

علامہ اقبالؒ 1930ء کے بعد سیاست میں کافی حد تک متحرک ہوئے لیکن ایک مفکر کے طور پر انہوں نے تخلیق اور فکر پر زیادہ زور دیا، یہ ان کی تخلیق اور فکر کے حوالے سے اوج کا زمانہ تھا، انہوں نے اپنی تخلیق اور فکر کے تصور کو عملی صورت میں ڈھالنے کے لیے جہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ و دیگر شخصیات کو ابھارا، وہاں مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو بھی لاہور منتقل ہونے کا مشورہ دیا تاکہ وہ اس خطے میں جہاں ان کے خیال کے مطابق اسلامی ریاست بنانا مقصود تھی بیٹھ کر عملی جدوجہد کریں۔ علامہ اقبالؒ مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے یہ اندازہ لگا چکے تھے کہ وہ ’’دو قومی نظریے‘‘ کے زبردست داعی بن سکتے ہیں۔ انہوں نے جس طرح کانگریس اور ان کے ہمنوائوں کا محاسبہ کیا وہ ان کے نزدیک قابل تحسین تھا، اس وقت ایک ایسے مصلح کی ضرورت تھی جو اپنی تحریروں سے قوم کو ہلاکت سے بچائے اور اسلامی ہند کی گزشتہ تاریخ اور موجودہ حالت پر محض ایک صحافی، ادیب، مورخ یا سیاست دان کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرے، اس کے مخاطب صرف وہ لوگ ہوں جو اول بھی مسلمان ہیں اور آخر بھی مسلمان۔
سید مودودیؒ 1903ء بمطابق 1321ھ میںریاست حیدرآباد دکن کے شہر اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اٹھارہ برس کی عمر میں صحافی زندگی کا آغاز کیااور جمعیت علمائے ہندکے روزنامہ "الجمعیت” کے مدیر رہے۔ 1920 میں جب ملعون گستاخ رسول راج پال نے حضورؐ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے ’رنگیلا رسول‘ کتاب لکھی تو تحریک خلافت کے ممتاز رہنماء مولانا محمد علی جوہر نے جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کاش کوئی مسلمان اسلام میں جہاد کی ضرورت اور اہمیت بیان کرے چنانچہ مولانا مودودیؒ نے الجہاد فی السلام لکھی۔ علامہ اقبال ؒ نے اس کتاب کو بہترین قرار دیا اور انہوں نے اسے پڑھ کر فرمایا کہ آج تک اس سے اچھی کتاب تصنیف نہیں ہوئی۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے 1932ء میں حیدرآباد سے ماہنامہ ترجمان القرآن جاری کیا تو علامہ اقبالؒ ، سید نذیرنیازی مرحوم اور میاں محمد شفیع (مدیر ہفت روزہ اقدام لاہور) سے پڑھوا کر سنتے اور بے حد تحسین فرماتے۔ انہیں سید مودودیؒ کی تحریروں میں گویا اسلامی مطلوب مل گیا تھا۔ انہوں نے سید مودودیؒ کو لاہور منتقل ہونے کیلئے کئی خطوط تحریر کئے۔ انہی دنوں میں جمال پور تحصیل پٹھان کوٹ کے مخیر مسلمان چودھری نیاز علی نے خدمت دین کیلئے وسیع رقبہ وقف کر دیا ۔ چودھری نیاز علی کے مشورہ کرنے پر علامہ محمد اقبالؒ نے سید مودودیؒ کا نام لیا کہ وہ اس کام کیلئے انتہائی موزوں شخصیت ہیں۔ انہوں نے سید مودودیؒ سے خط و کتابت کی اور انہیں جمال پور (پٹھان کوٹ )آنے کو کہا۔ سید مودودیؒ 1938 میں جمال پور آئے مگر اپریل 1938 میں علامہ اقبالؒ رحلت فرماگئے۔ سید مودودیؒ کیلئے علامہ اقبالؒ کی رحلت بہت بڑا صدمہ تھا۔
حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کو نوجوانوں کی تن آسانی ہمیشہ رلاتی رہی۔ سید مودودیؒ مرحوم نے اس تن آسانی کو سخت کوشی میں تبدیل کرنے کی تدبیر نکالی اور جس آہ و سحر کو حضرت علامہ اقبالؒ دیکھنے کے آرزو مند تھے ، سید مودودیؒ نے وہ آہ و سحر نوجوانوں میں عملاً پیدا کردی۔ یوں سمجھئے کہ سید مودودیؒ نے اسلامی جمعیت طلبہ کی تنظیم کر کے علامہ اقبالؒ کے خواب کی تعبیر پوری کر دی اور اس کے ساتھ ہی ملت اسلامیہ کو ہولناک تباہی و ہلاکت سے بچا کر احیائے دین کی تحریکوں کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔ سید مودودیؒ نے نوجوانوں کو اسلام کا نہایت سلیس ، عام فہم لٹریچر فراہم کیا۔ جمعیت کا ہر رکن بالعموم اسلامی عقائد اور اخلاق کا مبلغ دکھائی دیتا ہے اور گھر گھر پھر کر دین کی تبلیغ کرنے اور تعلیمی اداروں میں یہ نوجوان اسلام کے اخلاقی اعلیٰ اقدار کے حامل نظر آتے ہیں۔ ان نوجوانوں نے سارے ملک میں بے شمار اسلامی لائبریریاں قائم کیں اور اکثر نوجوانوں کے ہاتھ میں تفہیم القرآن کے نسخے نظر آنے لگے۔ سید مودودیؒ نے ہمارے بزرگوں، نوجوانوں اور عام لوگوں میں اسلامی فکر و نظر، ذوق و عمل اور شوق عبادت پیدا کر کے وطن عزیز میں اسلامی معاشرے کے قیام کی راہ ہموار کی۔
مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور ڈاکٹر محمد اقبالؒ دونوں مفکر تھے اور اپنی اپنی فکر رکھتے تھے لیکن ان کا مشترک نظریہ تھا اوروہ تھا ’’دو قومی نظریہ‘‘ جو نظریہ پاکستان کی بنیادی اساس ہے، یعنی دونوں مفکرین ہندوستان کے مسلمانوں کی بقا اس بات میں سمجھتے تھے کہ وہ ایک الگ خطہ ارضی پر اسلام کی تعلیمات کے مطابق زندی گزار سکیں۔
چونکہ سید مودودیؒ کی شخصیت مختلف حیثیتوں کی حامل اور مرتب شخصیت تھی، اس لیے ہر تحریر ان کے مزاج و میلانات کا آئینہ نظر آتی ہے۔ ایک صاحب طرز ادیب کی کامیابی کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کہ وہ تحریر کی ابتدا ہی سے قاری کے ذہن و دل کو اپنی گرفت میں لے لے۔ مولانا مودودیؒ کے طرز نگارش کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اپنی تحریر کی ابتدا ہی میں قاری کو ندرت استدلال اور لذتِ تاثیر سے اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں اور جس طرف چاہتے ہیں، لے جاتے ہیں۔
سید مودودی ؒ کی تصانیف میں قرآن پاک کی تفسیر تفہیم القرآن، الجہاد فی السلام، تجدید احیائے دین، تعلیمات، تفہیمات، مسئلہ قومیت، مسئلہ جبر و قدر اہم ہیں۔ آپ کی بہت سی تصانیف کا مولانا مسعود علی نے عربی میں بہت عمدہ ترجمہ کیا۔سید مودودیؒ کی عظمت کا احساس ان کی تصانیف کے مطالعہ سے ہو جاتا ہے لیکن ان کی عظمت و جلالت کا منظر راقم السطور نے اپنی آنکھوں سے قذافی سٹیڈیم لاہوروسیع و عریض میدان میں 25 ستمبر کو دیکھا جہاں ان کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے کیلئے ملک بھر سے ہر طبقے کے لوگ ، بوڑھے، بڑے چھوٹے، نوجوان سیلاب کی صورت میں قطار اندر قطار امڈے چلے آرہے تھے۔ بلاشبہ یہ لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا جس میں برصغیر پاک و ہند کے علاوہ بیرون ممالک سے ممتاز شخصیات اور اسلامی رہنماؤں نے شرکت کی۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ مرحوم و مغفور ان مفکرین اسلام میں شمار ہوتے ہیں جن کی رحلت سے پاکستان اور سارا عالم یکساں طورپر رنج و غم میںڈوبا۔ اس وقت فکری اور ذہنی اعتبار سے ملت بڑی بے بسی کی حالت میں خطرناک موڑ پر کھڑی تھی۔ الحاد ، اشتراکیت، قادیانیت زوروں پر تھی۔ مسلمان نوجوانوں کے پاس کوئی لائحہ عمل نہ تھا۔ بے راہ روی بڑی شدت سے پھیل رہی تھی۔ اس نازک مرحلے پر سید مودودیؒامید کی کرن ثابت ہوئے ۔ انہوں نے اپنے دلنشین اور جاذب نظر اندازمیں نوجوانوں کو مخاطب کیا۔ انہوں نے تجدید و احیائے دین اور اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات کے طورپر پیش کیا۔