مقبوضہ کشمیر میں انتخابات، مودی سرکار کا نعرہ "نیا کشمیر”،کشمیری عدم تحفظ اور حقیقی تبدیلی کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار

سری نگر:مقبوضہ کشمیر میں دس   برسوں  میں پہلی بار کشمیر میں مقامی اسمبلی کے انتخابات ہو رہے ہیں۔ انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے اور اب دوسرا مرحلہ ہے۔ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کا خطہ کئی دہائیوں سے پرتشدد شورش کا شکار ہے اور دہلی کے ساتھ اس کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ جس پر عوام کی طرف سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے، کچھ بائیکاٹ کرتے ہیں، کچھ کے نزدیک ڈھونگ اور  کچھ نے باقاعدہ ووٹ کاسٹ کیا ہے۔

مبصرین کے نزدیک الیکشن  مہم میں کشمیریوں کی بھرپور شرکت اور گرما گرم سیاسی ریلیوں، جلسوں سے ایک تاثر یہ بھی لیا جا رہا ہے کہ  انتخابی عمل میں کشمیریوں کی بڑی شرکت کی بنیادی وجہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو کشمیر میں اقتدار حاصل کرنے سے روکنے کی اجتماعی خواہش ہے۔

اس حوالے سے  غیر ملکی میڈیا کے نامہ نگاروں نے  مقبوضہ کشمیر کے  الیکشن اور موجودہ صورتحال کے بارے میں باقاعدہ رپورٹ کی ہے۔ اس حوالے سے ایک تازہ رپورٹ میں انجینئر رشید کے بارے میں بتایاگیا ہے کہ وہ اپنی الیکشن مہم چلار ہے ہیں۔ مبینہ ٹیرر فنڈنگ کیس میں انجینئر رشید کو دہلی کی عدالت نے عبوری ضمانت دی ہے۔ انہیں آئندہ جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات کے لیے مہم چلانے کی اجازت دینے کے لیے ضمانت دی گئی ہے۔

انجینئر رشید کافی عرصے سے جموں و کشمیر کی مین سٹریم سیاست کا حصہ ہیں۔ انہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے 2008 میں پہلا الیکشن شمالی کشمیر کے لنگیٹ حلقہ انتخاب سے جیتا ۔ انہوں نے 2015 کے انتخابات میں بھی اس سیٹ پر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ تاہم 2019 میں جب اگست کے مہینے میں مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کی نیم خودمختارانہ حیثیت ختم کی اور ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں منقسم کیا تو دیگر سیاسی رہنماؤں سمیت انہیں بھی حراست میں لیا گیا۔ اگرچہ دوسرے سبھی مین سٹریم سیاستدانوں کو رہا کیا گیا تاہم انجینئر رشید پر دہشت گردی کی معاونت کا الزام عائد کیا گیا۔انجینئر رشید نے پارلیمانی انتخابات 2024 میں جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ و نیشنل کانفرنس کے امیدوار عمر عبداللہ کو تقریباً ایک لاکھ ووٹوں سے شکست دے کر کامیابی حاصل کی تھی۔ لوک سبھا الیکشن میں انجینئر رشید کے حق میں ایک حیرت انگیر لہر چلی جس کے دوران نوجوان طبقے نے ان کے حق میں بھاری تعداد میں ووٹ ڈالے۔ انجینئر رشید نے نہ صرف عمر عبداللہ کو ہرا کر بڑا اپ سیٹ کیا بلکہ پیپلز کانفرنس کے سربراہ اور سابق وزیر سجاد غنی لون بھی اس الیکشن میں بری طرح مات کھا گئے۔

انجینئررشید کا سیاسی ایجنڈا ترقیاتی مسائل، گورننس اور مسئلہ کشمیر کے حل پر توجہ مرکوز کرتا ہے، جو پانچ سال قبل ریاست اور خودمختاری سے محروم ووٹروں کے ساتھ گونجتا ہے۔ انتخابات میں اہم مسائل میں ملازمتوں کی کمی اور بڑھتی ہوئی قیمتیں شامل ہیں لیکن کشمیری شناخت اور خودمختاری کی بحالی مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ پچھلے انتخابات تشدد اور بائیکاٹ سے متاثر ہوئے تھے، امن  کی صورتحال خراب ہوئی تھی ۔
1990 کی دہائی سے، ہندوستانی حکمرانی کے خلاف مسلح شورش نے ہزاروں جانیں لے لی ہیں، جن میں عام شہری اور سکیورٹی فورسز بھی شامل ہیں۔ بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اختلاف رائے کے خلاف کریک ڈاؤن کے الزامات کا سامنا ہے، ناقدین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں اس میں شدت آئی ہے۔ حالیہ عام انتخابات میں ووٹنگ کو ان مسائل کے خلاف مزاحمت کی شکل کے طور پر دیکھا گیا۔وزیر اعظم  مودی   ایک "نئے کشمیر” کو فروغ دیتے ہیں، لیکن مقامی لوگ پرانے  کشمیر کو ترجیح دیتے ہوئے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہیں۔

انتخابات کے باوجود وفاق کے زیر انتظام اس خطے میں حقیقی طاقت مرکزی حکومت کے پاس رہے گی، جس سے بہت سے لوگ حقیقی تبدیلی کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ پہلے مرحلے میں کل 24 نشستوں پر انتخابات ہوئے، جس میں 2.3 ملین سے زائد ووٹرز شامل تھے۔ مجموعی ووٹر ٹرن آؤٹ 61 فیصد رہا اور انتخابی عمل پر امن رہا۔