بھارت میں 3 لاکھ مساجد مسمار کرنے کی دھمکی

مودی سرکار کے وزیر گری راج نے دھمکی دی ہے کہ بھارت میں موجود 3 لاکھ سے زائد غیر قانونی مساجد کو اگر گرانا پڑا تو ہم ایسا ضرور کریں گے۔ وزیر ٹیکسٹائل گری راج نے دعویٰ کیا ہے کہ پورے بھارت میں اس وقت 3 لاکھ سے زائد ایسی مساجد ہیں جو غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی ہیں۔ شملہ کی طرح انھیں گرانا پڑا تو دریغ نہیں کریں گے۔
وزیر گری راج سنگھ کے اس جھوٹے اور بے بنیاد دعوے پر وزیراعظم مودی کی خاموشی مسلمانوں پر مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کی کوششوں کو حاصل سرکاری سرپرستی کا ثبوت ہے۔وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے مسلسل تیسرے دورِ اقتدار میں بھی مسلمانوں کو ہر طرح سے کچلنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔ جس کی ابتدا بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کرکے کی گئی تھی اور کئی تاریخی مساجد کے کیسز عدالت میں زیر سماعت ہیں۔یاد رہے کہ مودی سرکار کی ہندوتوا پالیسی کی شکار صرف مسلمان نہیں بلکہ عیسائی سمیت دیگر اقلیتوں کو بھی مذہبی آزادی حاصل نہیں۔ خود ہندوؤں کی نچلی ذات بھی اس سے محفوظ نہیں۔
مودی کی طرف سے اس ریاست کو ہندو شدت پسند بنا دیا گیا ہے اور یہاں اقلیتیں غیر محفوظ ہو کر رہ گئی ہیں۔بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ایسی شدت پسندانہ کارروائیاں اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی طرف سے اپنا کردار ادا نہ کرنے پر ہو رہی ہیں۔بابری مسجد گرا کر رام مندر کی تعمیر کے بعد شدت پسندوں کے حوصلے مزید بڑھے ہیں۔رام مندر کے افتتاح کے بعد نئی دہلی میں مسجد اکھونجی کا انہدام بھارت کی فسطائیت کا مزیدثبوت ہے۔اس کے بعد اب ہریانہ اور اتراکھنڈ کی مساجد کو نذر آتش کرنے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔اتر کھنڈ میں دو روز قبل اسی مسجد سے ملحقہ مدرسہ کو گرانے پر مسلمانوں نے احتجاج کیا تو ان پر پولیس کی طرف سے ریاستی دہشت گردی کرتے ہوئے سیدھی فائرنگ کی گئی جس میں چار افراد موقع پر اور چار ہسپتال جا کر جاں بحق ہو گئے جبکہ 260 زخمی ہوئے۔
بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ایک تاریخی مسجد کو منہدم کرنے کے منصوبے سے شروع ہونے والا تنازع ابھی ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ سرکاری حکام نے شہر کے علاقہ مہرولی میں واقع ایک اور تاریخی مسجد کو مسمار کردیا۔ اخونجی نامی یہ صدیوں پرانی مسجد مہرولی کے قریب سنجے ون نامی علاقے میں واقع تھی جسے 1970 کی دہائی میں دستاویزات میں گرین بیلٹ کے طور پر درج کیا گیا تھا اور 1994 میں اسے ریزرو فوریسٹ کا درجہ دے دیا گیا تھا جہاں کسی بھی قسم کی نئی تعمیر کی اجازت نہیں ہوتی۔لیکن 30 جنوری کی صبح دہلی میں شہری منصوبہ بندی اور ترقی سے وابستہ کے محکمے دہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) کے اہلکاروں کی قیادت میں پولیس اس مقام پر پہنچی اور مسجد، ملحقہ مدرسے اور قبرستان کو منہدم کردیا۔
ایک ایسے ہی معاملے میں گذشتہ برس دسمبر میں دارالحکومت کی میونسپلٹی نے عوام سے اس بارے میں رائے مانگی تھی کہ آیا ٹریفک بہتر کرنے کے لیے سنہری باغ مسجد کو منہدم کرنا چاہیے یا نہیں، جو کہ دہلی کے وسطی حصّے میں واقع تقریباً 150 سال سے زیادہ پرانی تاریخی مسجد ہے۔یہ مسجد نئی دہلی کے ’لوٹیئن ڈیلہی‘ نامی علاقے میں آتی ہے، جسے انگریزوں نے تقریباً ایک صدی قبل تعمیر کیا تھا۔ اس علاقے میںبھارت کی پارلیمنٹ اور اہم وزارتیں بھی موجود ہیں لیکن انگریزوں نے مسجد کو ایک خصوصی محفوظ فہرست میں ڈالا تھا جس کے تحت اسے گرانے کی اجازت نہیں تھی۔
ہندو انتہا پسند جماعت وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور آر ایس ایس بھارت میں حکومتی آشیر باد سے اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملوں میں پیش پیش ہیں۔ مودی سرکار میں حلال جہاد، گئو رکھشا، بلڈوزر پالیسی، شہریت اور حجاب بندی جیسے قوانین کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے جب کہ مذہب تبدیلی سے متعلق قوانین کو ہندوؤں اور بدھ مذہب کی پیروکاروں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔
دسمبر 1992 کو ہندو انتہا پسندوں نے ایودھیا میں صدیوں پرانی تاریخی بابری مسجد کو شہید کیا تھا اور ہزاروں مسلمان ہندو انتہاپسندوں کے حملوں میں شہید ہوئے تھے۔ شاہی عیدگاہ مسجد، شمسی مسجد اور گیان واپی مسجد سمیت درجنوں عبادت گاہوں پر ہندو انتہا پسندوں کے قبضے کے دعوے عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ ہندو انتہا پسندوں نے 2017 میں مشہور زمانہ دنیا کے عجائب میں شامل تاج محل کے بھی شیو مندر ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ بھارتی فوج نے 1984 میں امرتسر میں واقع سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل پرٹینکوں اور توپوں سمیت چڑھائی کردی تھی جس کے بعد سکھوں کے پرہونے والے حملوں میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔
کچھ عرصہ قبل بھارتی ریاست بہار میں شرپسند ہندوؤں نے علاقے کی مسجد پر اپنا بھگوا جھنڈا لہرایا اور مدرسہ ضیاء العلوم میں بھی توڑ پھوڑ کی اور آ گ لگا دی جس سے کشیدگی پیدا ہوگئی۔ علاقے میں انٹر نیٹ سروس معطل اور دفعہ 144نافذ کردی گئی۔متاثرہ شہروں میں پویس کی اضافی نفری تعینات کر دی گئی ہے۔ بہار کے اورنگ آباد، بھاگلپور کے بعد اب سمستی پور ضلع میں کشیدگی کے بعد پولیس کے دستے کثیر تعداد میں تعینات کردیئے گئے۔ سمستی پور میں رسوڑا شہر کے گدری بازار میں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے دوران جھڑپ میں ایس ایس پی سنتوش کمار اور انسپکٹربی این مہتہ سمیت متعدد افراد زخمی ہوگئے۔
دہلی سے 37 کلو میٹر دور واقع فرید آباد میں گاؤں اٹالی میں ایک مسجد کی تعمیر جاری تھی جس کو ہندؤں (جن میں اکثریت جاٹ برادری کی تھی) نے پہلے مسجد کو نذر آتش کیا بعد ازاں مسلمانوں کی رہائشی آباد پر حملہ آور ہوئے۔دی انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق اٹالی میں 5سال قبل مسجد اور مندر ایک ساتھ تعمیر کیے جا رہے تھے، مگر اراضی کے تنازع کے باعث مسجد کا تعمیراتی کام روک دیا گیا تھا رواں ماہ عدالت نے مسجد کی تعمیر کی اجازات دی تھی، یوں 5 سال بعد مسجد کی تعمیر کا کام دوبارہ شروع کیا گیا تھا۔