آئینی ترامیم اور نسلِ نو

گزشتہ کئی دنوں سے حکومت کا مجوزہ آئینی ترمیم کا پیکیج پرسراریت کا شکار رہ کر آخر دم توڑ گیا۔ حکومت نے قوم، میڈیا اور پارلیمنٹ سب کو تین چار روز تک یر غمال بنائے رکھا۔ اس ملک کی تقدیر کا فیصلہ ہونے جا رہا تھا اور اس کو لانے والوں نے پڑھا ہی نہیں تھا۔ وزیرِ قانون کا کہنا تھا کہ مجھے تو مسودہ ملا ہی نہیں، اسحاق ڈار صاحب فرما رہے تھے میں نے پڑھا ہی نہیں طوطا چشمی کی انتہا دیکھئے حکومت کے وہ اتحادی جو اس کو رائج کرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے بل کی ناکامی کے بعد کہنے لگے کہ بل کی کئی شقوں پر انہیں بھی اعتراض تھا۔ سیاسی جماعتیں بالکل غیر مٔوثر نظر آئیں اور نمائشی بیانات سے آگے بڑھ کر کوئی قدم اٹھا نہ سکیں سوائے ایک مولانا فضل الرحمان کے جنہوں نے سٹینڈ لیا اور قوم کو گومگو کی کیفیت سے باہر نکالا۔ مجھے اس جمہوریت پر ترس آتا ہے جس کے رکھوالے صرف اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں خلقِ خدا کی داد رسی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ حکومت کے اس لایعنی طرزِ عمل سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ اس آئینی معاملے میں حکومتی طریقۂ کار اس معاملے کی حساسیت اور قومی اہمیت سے مطابقت نہیں رکھتا۔
حکومت نے جس طرح سے اس سارے معاملے کو آگے بڑھایا اس چیز نے اداروں کی ساکھ کو بھی مبہم بنا دیا ہے۔ اربابِ اختیار سے درخواست ہے کہ طاقت حاصل کرنے کے حیلے چھوڑ کر بیچارے پسے ہوئے عوام کا سوچیں اور آپ تقریباً تین سال سے برسرِ اقتدار ہیں، 16 ستمبر 2024ء کے بعدجو بات سب سے اہم ہے وہ یہی ہے کہ آپ اپنے گزرے ہوئے تین سال کے ایک ایک دن کا از سرِ نو جائزہ لیں کہ آپ سے کہاں کہاں غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ وہ کون سے ملکی مسائل تھے جن پر کام ترجیحی نوعیت سے ہونا چاہئے تھا۔ عوام کے مسائل کی ایسی فہرست بہت ضروری ہے، جس میں وہ بھوک اور افلاس سے دم توڑ رہے ہیں اور ان بھوک اورا فلاس سے مرتے ہوئے لوگوں کو آپ کس شاہراہ عظیم پر سفر کرانا چاہتے ہیں۔ حالات تو آپ کے بہتر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی تمام نعمتوں سے نوازا ہے۔ لیکن باقی لوگ کہاں جائیں جن کے ووٹ لے کر آپ کو صرف حکومت ہی نہیں عزت بھی ملی ہے۔
گزشتہ چند برسوں کی ہنگامہ خیز سیاست نے پاکستان کے سیاسی نظام میں در آنے والے فساد کی حقیقت آشکارکردی ہے۔ ہر ادارے کے بارے میں یہ تصور پختہ ہو گیا ہے کہ سب نے مفادات اور مصلحتوں کی چادر اوڑھ رکھی ہے، حالات کو بہتر بنانے کے لئے کسی بھی جانب سے کوئی ٹھوس اقدام یا پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔ ہر ایک کی زبان پر یہ بات ضرور ہے کہ امورِ مملکت کے حوالے سے آئین کے سوا کسی بھی ادارے، گروہ یا منصب کو بالادستی حاصل نہیں ہے۔لیکن شروع سے ہی پاکستان کے حکمرانوں نے چاہے وہ سیاسی ہوں یا مسلح اور غیر مسلح افسر شاہی سے تعلق رکھتے ہوں ، آئین کو پسِ پشت ڈال رکھا ہے۔ طاقت کے ذریعے حاصل ہونے والی حکومت ہی فیصلہ کن اختیار رکھتی ہے۔ اب تو یہ صاف کہا جاتا ہے کہ فیصلہ کن اختیار حاصل ہے۔ افسر شاہی سے تعلق رکھنے والے تمام ادارے منتخب حکومت کے احکامات کے پابند ہیں، وہ قوم کے آقا نہیں ملازم ہیں لیکن عملاً آئین کو بالا دستی حاصل نہیں رہی، اس لئے فیصلہ سازی کا منصب ان لوگوں نے حاصل کر لیا جو اس کا اختیار نہیں رکھتے۔ آئین کی بالادستی نہ ہونے سے قانون کی حکمرانی بھی قائم نہیں ہو سکی۔ اس طرزِ حکمرانی نے مافیاؤں کو قومی زندگی پر تسلط حاصل کرنے کے لئے مدد اور سہولت کاری بھی کی ہے۔ جس طرح کی صورتحال کچھ دنوں سے اعلیٰ ایوانوں کی زینت بنی رہی اس نے ایک بار پھر نوجوان نسل کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ہمارے سیاست دانوں نے مشکل سے مشکل صورتحال میں بھی کچھ نہیں سیکھا اور مسلم لیگ (ن) اپنے غلط فیصلوں سے نوجوان نسل اور اپنی آنے والی نسل کے درمیان دوریاں بڑھا رہی ہے۔ نوجوان نسل اس وقت بہت مضطرب حالت میں ہیں اور جس کو موقع ملتا ہے ملک چھوڑ کر جا رہا ہے، اور تو اور یقین مانیں ہر نوجوان حتیٰ کہ متمول خاندان سے تعلق رکھنے والے بھی بہت نالاں ہیں اور کہتے ہیں یہاں کیا رکھا۔ خدا را یہ صورتحال بہت خطرناک ہے ترقی یافتہ ممالک تو نوجوانوں کے متلاشی ہیں۔
ہمارے سیاست دان ہر وقت جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں، سمجھ سے بالاتر ہے کہ اتنے سارے اراکینِ اسمبلی کو کس بات کا خوف ہے کہ وہ زبان بھی نہیں کھول سکتے، انہیں سوچنے سمجھنے کی اجازت ہی نہیں ہے کہ وہ پوچھ سکیں جو آئین سازی کی جا رہی ہے اس میں کیا کوئی عوامی مفاد بھی مضمر ہے؟۔ بس ایک خوف طاری ہے جو انہیں بولنے نہیں دیتا۔ انسان کی فطرت ہے کہ ہر صحیح و غلط بات کو بے چوں چرا تسلیم کر لیتا ہے۔ اسی ڈر اور خوف کی حقیقت سے واقفیت رکھنے والے فی زمانہ ظالم افراد، گروہ اور نظریات کے حاملین فائدہ اٹھاتے ہیں۔ برخلاف اس کے ڈر و خوف سے نجات پا چکے افراد ظالمین کے لئے سب سے بڑا چیلنج رہے ہیں۔ تاریخ کے مشاہدے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ظالمین نے اختلاف رکھنے والوں پر کس کس دور میں کون کون سے طریقے اختیار کئے اور کس طرح ظلم و بربریت روا رکھا۔ آج ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں وہ ایک جدید انسانی حقوق سے مزین دور ہے لیکن اس میں بھی اپنی مرضی منشا کے لئے ظلم و ستم جاری ہے۔ انسانی معاشرہ جب جھوٹ کا عادی ہو جاتا ہے تو اس میں بے شمار مسائل جنم لیتے ہیں۔ جھوٹ پر مبنی معاشرہ کے ہر فرد سے سب سے پہلے شجاعت و جرأت ختم ہو جاتی ہے ۔ آج اگر ہم اپنے معاشرے کو دیکھیں بالکل اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔