سیاسی میدان میں کیا ہو رہا ہے؟

بلا شبہ کسی بھی جمہوریت میں، آئینی ترمیم کا عمل ایک اہم کام ہے جس کے لیے نہ صرف وسیع پیمانے پر سیاسی حمایت درکار ہوتی ہے بلکہ پیچیدہ منصوبہ بندی اور بہت زیادہ ہم آہنگی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ آئینی ترامیم اکثر کسی ملک کے بنیادی قوانین کو نئی شکل دیتی ہیں، جو بدلتے ہوئے سیاسی، معاشی یا سماجی حالات کی عکاسی کرتی ہیں۔ تاہم، جب کوئی حکومت اس طرح کی ترمیم کے لیے اراکین پارلیمنٹ کی مطلوبہ تعداد جمع کرنے میں ناکام رہتی ہے، تو یہ صورتحال حکمرانی، سیاسی ہم آہنگی، اور جمہوریت کی مضبوطی کے بارے میں کئی سوالات بھی اٹھا دیتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس وقت جو سیاسی بحران درپیش ہے اس کا ذمہ دار بھی انتہائی لاپروا اور غیر دانشمند لوگوں (بشمول حکومت اور اپوزیشن) کو قرار دیا جائے تو زیادہ غلط نہ ہو گا۔
اس وقت ملک کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں ایک آئینی ترمیم کو لے کر کافی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں سب اپنی اپنی بولی بول رہی ہیں ۔ حکومتی اتحاد تمام تر کوششوں کے باوجود آئینی ترمیم کے لیے درکار ووٹ اکٹھا کرنے میں بری طرح ناکام نظر آتا ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں بھی مجوزہ ترمیم کے حوالہ سے کوئی علمی یا مدلل گفتگو کرنے سے قاصر ہیں اور بس مخالفت برائے مخالفت کے اصول پر کاربند ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اس وقت کو تمام تر سیاسی دائو پیچ آزمانے کے لیے بہترین خیال کر رہے ہیں اس کے علاوہ حکومت پارلیمنٹ میں موجود آزاد ارکان کو ساتھ ملانے اور پاکستان تحریک انصاف ایسا نہ ہونے دینے کے لیے سرگرداں ہیں۔ خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کو لے کر ابہام بدستور قائم ہے۔
غرض خطرہ یہ درپیش ہو گیا ہے کہ ایک ایسے وقت پر جب ملک کی اقتصادی صورتحال بہتری کی طرف گامزن تھی، مہنگائی کی شرح کم ہو رہی تھی ، شرح سود میں کمی ہو رہی تھی ایک سیاسی بے یقینی کہیں معاملات میں بگاڑ نہ پیدا کر دے۔
اس ساری صورتحال میں کچھ گروپ کچھ زیادہ ہی پھر تیلے بننے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے تجویز کردہ آئینی ترمیم ابھی پارلیمنٹ میں پیش ہی نہیں ہوئی بلکہ پاکستان تحریک انصاف سمیت کئی پارٹیوں کے راہنما یہ شکوہ بھی کرتے ہوئے بھی پائے گئے ہیںکہ ہیں کہ مجوزہ آئینی ترمیم کا مسودہ انہیں دکھایا تک نہیں گیا۔ حکومت بھی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود آئینی ترمیم کے لیے اپنے نمبر پورے کرنے میں ناکام نظر آتی ہے لیکن اس سب کے باوجود کچھ بے صبرے وکلا حضرات کی جانب سے اس مجوزہ آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کے لیے ایک پٹیشن سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر کر بھی دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے سابق صدر عابد زبیری، سابق وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود، شہاب سرکی، اشتیاق احمد خان، منیر کاکڑ اور دیگر کی جانب سے آئین پاکستان کے آرٹیکل 184(3) کے تحت دائردرخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی ہے کہ عدلیہ کی آزادی، اختیارات اور عدالتی امور کو مقدس قرار دیا جائے، وفاقی حکومت کو آئینی ترمیم سے روکا جائے، مجوزہ آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دیا جائے، پارلیمنٹ عدلیہ کے اختیارات میں ٹمپرنگ نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ آف پاکستان حکومت کی جانب سے مجوزہ آئینی ترمیم کو غیر آئینی قرار دے اور اسے اختیارات کی تقسیم اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف قرار دے۔درخواست میں وفاق، چاروں صوبوں، قومی اسمبلی، سینیٹ و دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست گزاروں نے مزید استدعا کی ہے کہ نا صرف ایک عدالتی حکم کے ذریعے وفاقی حکومت کو مجوزہ بل پیش کرنے سے روکا جائے بلکہ اگر یہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس ہو بھی جائے تب بھی صدر مملکت کو پابند کیا جائے کہ وہ اس پر دستخط نہ کریں۔بات یہاں پر ختم نہیں ہو جاتی۔ مذکورہ درخواست دائر کرنے والوں کی بے چینی اور بے قراری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ روز انہوں نے ایک اور درخواست کے ذریعے مجوزہ آئینی ترامیم کیخلاف دائر کردہ پٹیشن جلد سماعت کیلئے مقرر کرنے کی متفرق درخواست بھی دائر کردی ہے۔اس کے علاوہ معاملہ کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اور سیاسی ہوائوں کا رخ دیکھتے ہوئے خیبرپختونخوا حکومت نے بھی اس مجوزہ آئینی ترمیم کی مخالفت میں سپریم کورٹ جانے کا اعلان کر دیا ہے۔
ادھر خبر یہ ہے کہ مذکورہ آئینی ترمیم پر مصر وفاقی حکومت نے اس مسئلہ پر اتفاق رائے کیلئے پی ٹی آئی سے رابطہ کرلیا ہے اور پاکستان تحریک انصاف سے ڈرافٹ پرغور کرنے کی درخواست کی ہے، اس سلسلے میں وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے تحریک انصاف سے ڈرافٹ کا جائزہ لینے اور پارٹی قائد عمران خان سے مشاورت کی اپیل کی ہے۔ یہ بھی خبر ہے کہ سپیکرقومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے گرفتار پی ٹی آئی اراکین قومی اسمبلی کے اعزاز میں ظہرانہ دیا ہے اور اس ظہرانے میں رانا ثناء اللہ نے پی ٹی آئی اراکین سے ڈرافٹ پر لیگل ٹیم سے مشاورت کی درخواست کی ہے۔
ایک طرف رانا ثنا اللہ مولانا فضل الرحمن سے متعلق کہہ رہے ہیں کہ وہ بعض چیزوں پر متفق ہیں اور بعض پر مشاورت کا دائرہ وسیع کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں تو دوسری طرف مولانا صاحب نے آئینی ترامیم سے متعلق حکومت کے مجوزہ مسودے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول قرار دے دیا ہے۔ ملک کو اس سیاسی بھنور میں چھوڑ کر وزیراعظم شہباز شریف برطانیہ اور اور امریکہ کے دورہ پر روانہ ہو چکے ہیں ۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے آئینی ترمیم کا معاملہ ختم نہیں ہوا بلکہ، بقول ان کے ،شہباز شریف کی وطن واپسی پر اس معاملہ کو بھر طریقہ سے عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ اگرچہ اس طرح کی ناکامیاں ایک اتحادی حکومت کو مزید کمزور کر سکتی ہیں لیکن مثبت بات یہ ہے کہ اس قسم کی صورتحال سیاسی مکالمے، حکمت عملی کی منصوبہ بندی، اور پارلیمنٹیرینز اور عوام میں زیادہ گہرے تعلق کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ غلط نہ ہو گا کہ آئینی ترامیم کا انحصار صرف حکمران اتحاد کی طاقت پر نہیں بلکہ مجموعی طور پر جمہوری اداروں اور عمل کی صحت پر ہو تا ہے۔ہماری سیاسی پارٹیوں کو بھی چاہیے کہ صرف اپنی پارٹی کے سیاسی ایجنڈے یا مخالفت برائے مخالفت کے بجائے ملکی مفاد اور سیاسی عمل کے جدید تقاضوں کو مدنظر رکھ کر سیاسی عمل کو آگے بڑھائیں۔