بچے، جو سکول نہیں جاتے

یہ پروفیسر ڈاکٹر محمد شاہد فاروق کی ادارہ تعلیم و تحقیق جامعہ پنجاب کی طرف سے بڑی کاوشتھی کہ سکولوں سے باہر بچوں پر بات کی جائے۔ انہوں نے ماہرین کے ساتھ ساتھ مجھ جیسے طالب علم کو بھی دعوت دی کیونکہ میں تعلیم، صحت اور ان سے منسلک موضوعات پر ڈھیروں پروگرام کرتا رہتا ہوں۔میں نے دیکھا کہ ہال میں سٹوڈنٹس کی بڑی تعداد موجود تھی مگر اس کے باوجود بہت ساری کرسیاں خالی تھیں۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہاکہ سنجیدہ اور اہم موضوعات پر گفتگو کرنا اور سننا ہمارا مزاج ہی نہیں رہا۔ ہم چسکے باز ہو گئے ہیں۔ میں نے کہا، اس کی جگہ آپ ٹک ٹاک بنانے کے طریقوں پر دو چار ٹک ٹاکرز بلا لیتے تو یہ ہال کھچا کھچ بھرا ہوتا۔ ہم سیاست زدہ ہو چکے یا پھکڑباز۔ ہم ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر کی بات نہیں سنیں گے مگر بھاٹی لوہاری کے مجمع باز کے گرد گھیر ا لگا لیں گے۔
میرے لئے میرے تمام اساتذہ قابل احترام ہیں ، پروفیسرڈاکٹر ممتاز انور چوہدری، ڈین فیکلٹی آف بزنس اکنامکس اینڈ ایڈمنسٹریٹوسائنسز، اس پر پورا تھیسز بیان کر رہے تھے کہ غربت کی وجہ سے ہمارے والدین بچوں کو سکول نہیں بھیجتے۔ وہ بنیادی چار وجوہات میں چائلڈ لیبر، بے روزگاری اور سکولوں کا نامناسب مقامات پر ہونا بھی بیان کر رہے تھے۔بجا فرمایا، بچوں کے سکول سے باہر ہونے کی بڑی وجہ غربت ہے مگر یہ واحد وجہ نہیں کیونکہ میں نے بہت سارے غریب لوگوں کو اپنے بچوں کو بہت ذوق اور شوق کے ساتھ سکول بھجواتیدیکھا ہے۔ مجھے اپنے گھر کام کرنے والی وہ بچیاں یاد آ گئیں جن کا باپ ٹیکسی ڈرائیور تھا اور انہوں نے ہم سے اجازت لے رکھی تھی کہ وہ کام کے لئے سکول ٹائم کے بعد آئیں گی۔ میں آپ کو اپنے دیہات میں ایسے لاکھوں گھرانے دکھا سکتا ہوں جو بہت بہت غریب ہیں مگر ان کے بچے سکول جاتے ہیں کیونکہ وہ تعلیم کی اہمیت جانتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ خاندانوں میں انقلاب دو ہی طرح سے آسکتے ہیں ، ایک یہ کہ ذوق و شوق سے ایسا کام دھندا شروع کر لیا جائے جس سے وافر کمائی ہو یا اپنے بچوں کو ایسی تعلیم دلا دی جائے جو بہترین مستقبل کی بنیاد بن جائے۔ اگرآپ یہ دو کام نہیں کریں گے تو کوئی بھی حکومت آپ کے گھر آ کے آپ کی غربت نہیں ختم کر سکتی چاہے وہ ایک لاکھ بے نظیر انکم سپورٹ اور احساس پروگرام شروع کر لے۔
میں اس پر کنوینس ہوں کہ ہم نے اپنے لوگوں میں تعلیم کی اہمیت کو اجاگر ہی نہیں کیا ورنہ کوئی باپ اپنے بچوں کو سکول سے باہر نہ رکھے۔ میرا کہنا ہے کہ ایک باپ ہی ایسا مرد ہوتا ہے جو ایک دوسرے مرد یعنی اپنے بیٹے کو اپنے سے زیادہ کامیاب اور امیر دیکھنا چاہتا ہے۔ ہمارے بچے سمجھتے ہیں کہ تعلیم سے ڈگری تو ملتی ہے مگر نوکری نہیں ملتی۔ وہ شارٹ کٹس سے کامیابی چاہتے ہیں جیسے کوئی یوٹیوبر کامیاب ہوجائے مگر کوئی ان کو یہ نہیں بتا اور سمجھا سکتا کہ ایک لاکھ یوٹیوبرز میں سے ایک سو کامیاب ہوتے ہیں جبکہ تعلیم کے ذریعے کامیابی والوں میں ایک لاکھ میں ستر اور اسی ہزار سے بھی زائد ہوں گے۔ تعلیم آپ کی گارنٹی کے ساتھ فلاح ہے۔ میرا یہ بھی شکوہ تھا کہ ہماری حکومتیں اور ہمارے اساتذہ ہمارے سکولوں کے ماحول ہمارے گھروں سے زیادہ مزے دار نہیں بناتے۔ کیا وجہ ہے کہ بچے پارکس اور مارکیٹوں میں جانے کے لئے ضد کرتے ہیں مگر سکول جاتے وقت روتے ہیں۔ میرے لئے یہ اعداد وشمار شرمناک ہیں کہ پاکستان ، آوٹ آف سکول بچوں میں بہت اوپر کی جگہ پر موجود ہے چاہے وہ تعداد کے حوالے سے ہو یا آبادی کے فیصد کے حساب سے۔ میں نے کہا کہ ہم اس میں انڈیا سے بھی بہت پیچھے ہیں حالانکہ انڈیا والے بھی ہمارے جیسے ہی کرپٹ اورپسماندہ ہیں مگر انہوں نے تعلیم کی اہمیت کو اپنے عوام میں اجاگر کر دیا ہے، ایک مستقل ایجوکیشن سسٹم بنا لیا ہے جبکہ ہم تجربات میں لگے ہوئے ہیں کہ انگریزی پڑھنی بھی ہے یانہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر ہم نے اپنے بچوں کو سکولوں میں رکھنا ہے تو پہلے اپنے سکولوں کا ماحول بدلنا ہوگا، ہمیں اساتذہ کو بچوں سے پڑھانے سے پہلے شفقت کرنا سکھانا ہو گا۔
مجھے لگتا ہے کہ ہم نے اپنے ہیرو اور ولن صحیح طرح سے ڈیفائن نہیں کئے۔ ایک ایسا شخص جو بڑھک لگاتا ہے ، گالی دیتا ہے، لوگوں سے چیزیں چھینتا ہے اورقانون شکن ہے ہم اسے اپنے بچوں کے سامنے ہیرو بنا کے پیش کرتے ہیں، آہ،ہمارا استاد، انجینئر، ڈاکٹر ہمارا ہیرو نہیں ہوتا ، ایک مہذب اور نرم خو سیاستدان کی بجائے ہیرو بڑی بڑی مونچھوں ، بالوں اور باتوں والا مشٹنڈا ہوتا ہے۔ اگر ہم نے اپنے ہیرو اور ولن کی ڈیفی نیشن درست کر لی اور اپنے بچوں اور اس سے پہلے اپنے بڑوں کے ذہنوں میں بٹھا لی تو بہت کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ میںغربت اور بے روزگاری کے وجہ ہونے سے انکار نہیں کرتا مگر اس کا بھی شکوہ کرتا ہوں کہ دو غریب آپس میں شادی کر لیتے ہیں اور چھ غریب مزید پیدا کر کے معاشرے میں پھینک دیتے ہیں اور وہ چھ غریب مزید چھ غریبوں سے شادی کر کے چھتیس غریب پیدا کر دیتے ہیں۔ میں یہ نہیںکہتا کہ غریبوں کو شادی نہیں کرنی چاہئے بلکہ یہ کہتا ہوں کہ غریبوں کو پڑھنا چاہئے کوئی نہ کوئی سکل سیکھنی چاہئے تاکہ ان سے غربت کی بیماری دور کی جا سکے۔
ہمیں بحیثیت قوم اپنے بچوں کو سکول لانے کی کوشش کرنا ہوگی۔ میں حیران ہوتا ہوںکہ وزیراعظم شہباز شریف نے ایک برس کے اندر کئی مرتبہ تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا مگر وہ اعلان ہونے کے بعد کہاں چلی جاتی ہے کچھ پتا نہیں چلتا۔ ہمارے پاس مساجد اور مدرسوں کی صورت تعلیم و تربیت کا متبادل سسٹم موجود ہے تو ہم اسے پیف اور پیما کی طرز پر کیوں نہیں چلا سکتے۔ میاں عمران مسعود نے بطور وزیرتعلیم بچوں کو سکولوں میں کھانا دینے اور دور دراز کے علاقوں میں بچیوں کو ماہانہ اعزازیہ دینے کا منصوبہ تیار کیا تھا جو زبردست تھا اوراب مریم نوازنے بچوں کو سکول میں پینے کے لئے دودھ فراہمی شروع کی ہے جو کہ اچھا اقدام ہے ۔ بچوں کو سکول کی طرف راغب کرنے کے لئے سکول کو دلچسپ اور تفریحی نوعیت کا بنانا ہو گا۔ ہمیں اپنے پرائمری تعلیم کے طریقہ کار کو بدلنا ہوگا اوراس کے بعد مڈل تعلیم میں اخلاقیات کو خاص اہمیت دینا ہوگا۔ تعلیم کی کوئی بھی پروفیشنل بنیاد ہائی سکول سے رکھی جانی چاہئے۔ ہمارے اصل موضوعات اور مسائل یہی ہیں مگر ہم سیاست میں پھنسے ہوئے ہیں۔ میں سڑکوں کی اہمیت سے انکار نہیں کرتا مگر تعلیم کو اس کے باوجود پہلی ترجیح ہونا چاہئے۔ بہرحال مجھے سراہنا ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر شاہد فاروق کا وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود، ڈاکٹر شازیہ ملک، پروفیسر ڈاکٹر طارق محمود ، پروفیسر ڈاکٹر قیوم چوہدری ، جناب سلمان غنی، جناب نعیم مسعود اور چئیرمین کوہاٹ یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹرنصیر الدین کے ساتھ مل کے ایک شاندار اور جاندار مکالمہ تھا، ایسے مکالمے ہماری رہنمائی کریں گے، ہمیں منزل تک پہنچائیں گے۔