بلیو اکانومی کی ترقی میں نیوی کا کردار

پاکستان معاشی طور پر اس وقت ہی مضبوط ہو سکتا ہے جب وہ اپنے وسائل کے بارے میں حقائق کا ادراک کرتے ہوے ان شعبوں اور اداروں پر توجہ دے جو پاکستانی معیشت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ میں انہی صفحات پر ٹورازم اور فلم انڈسٹری کو معاشی بحالی کے اہم شعبے کے طور پر لکھ چکا ہوں۔ آج بلیو اکانومی پر بات کرنے کو جی چاہ رہا ہے گوکہ اس موضوع پر اس سے پہلے بھی متعدد بار لکھ چکا ہوں لیکن یہ موضوع ایسا ہے جس پر بار بار لکھنا چاہیے کیونکہ پاکستانی معیشت میں بلیو اکانومی یعنی ’’ نیلی معیشت‘‘ کا انتہائی اہم کردار ہے۔ دنیا بھر میں 80 فیصد سیاحت اور تجارت سمندروں پر ہوتی ہے۔ عالمی جی ڈی پی کا 5 فیصد اور ملازمت کے مواقع کا 7 فیصد سمندری سیاحت اور تجارت سے وابستہ ہے۔ دنیا کے 150 ملکوں کی سب سے بڑی آمدنی سمندری سیاحت اور تجارت سے وابستہ ہے۔ بلیو اکانومی سے مراد وہ اقتصادی سرگرمیاں ہیں جن پر ریسرچ کی جانی چاہیے۔
جب سے انسان نے معاشی سرگرمیوں کا آغاز کیا، تب سے پانی کے ذریعے تجارت کا کلیدی کردار رہا۔ آج دنیا کی 90 فیصد تجارت پانی کے ذریعے ہی ہوتی ہے اور اس میں دریا اور سمندر دونوں شامل ہیں۔ صرف سمندر اور دریا کے ذریعے سامان کی تجارت اس میں شامل نہیں بلکہ بلیو اکانومی کا تصور بہت وسیع ہے کہ جس میں ماہی گیری اور اس میں پکڑی جانے والی سمندری پراڈکٹس کی پراسیسنگ اور ان کی تجارت اور برآمدات شامل ہیں۔ اس میں جہاز رانی کا شعبہ اور شپ بریکنگ انڈسٹری بھی شامل ہے۔ بلیو اکانومی مینگرووز کا بھی احاطہ کرتی ہے اسی طرح ساحلی علاقے اور اس کی سیاحت کا شعبہ بھی اس میں شامل ہے۔ اس میں آف شور آئل بلڈنگ تو سمندر کی تہہ سے تیل نکالنا بھی شامل ہے۔ اسی طرح میرین بائیو ٹیکنالوجی بھی اس میں شامل ہے۔ دنیا میں بلیو اکانومی کی جی این پی 2.5 ٹریلین ڈالر یعنی 2500 ارب ڈالر ہے۔اس سلسلے میں سب سے بڑا مسئلہ تو یہی ہے کہ پالیسیوں کا اعلان تو ہوتا ہے لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا لیکن سمندر سے عدم واقفیت بھی اس سلسلے میں بہت بڑی وجہ ہے اس لیے ہمارے ہاں کبھی سمندر کی اہمیت اور اس سے جڑی معیشت کی ضرورت کو سمجھا نہیں گیا۔بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں میری ٹائم پالیسی تو بنی لیکن اس کا رابطہ معیشت کی دوسری پالیسیوں سے ہی نہیں جبکہ دنیا میں مربوط پالیسی ہوتی ہے۔
ساحلی علاقوں پر سکیورٹی کا مسئلہ بڑا نہیں اور یہاں بھی سکیورٹی کے وہی مسائل ہیں جو پاکستان کے کسی دوسرے علاقے میں ہو سکتے ہیں لیکن اس ضمن میں پاکستان نیوی کا بہترین کردار سامنے آیا ہے۔ جب بھی ملک میں بلیو اکانومی اور ساحلی علاقے کی بات ہوتی ہے تو فوری طور پر پاکستان نیوی کا ذکراس لئے ہوتا ہے کہ سمندری حدود کو نیوی سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ۔ پاکستان نیوی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور اس ضمن میں پاکستان نیوی کا کردار اور زیادہ ہونا چاہیے کیونکہ ساحلی علاقے میں وہ اور پاکستان کوسٹ گارڈ سرمایہ کاروں کو تحفظ دے سکتے ہیں۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کو اس بات کا ادراک ہے جس کا اظہار انہوں نے انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن (آئی ایم او) کے ساتھ تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے حکومت پاکستان کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کیا ہے کہ حکومت بلیو اکانومی کو اقتصادی ترقی کی حکمت عملی کے مرکزی ستون کے طور پر ترجیح دے رہی ہے، ہماری کوششوں اور بین الاقوامی شراکت داروں کے تعاون سے دنیا کے سمندری نقشے پر پاکستان کی اہمیت مزید بڑھے گی۔سیکریٹری جنرل آئی ایم او نے وزیر اعظم کی قیادت اور معاشی ترقی کے لیے اپنے بحری وسائل سے فائدہ اٹھانے اور عالمی میری ٹائم کمیونٹی میں اس کے کردار کے لیے پاکستان کے فعال کردار کو سراہا۔انہوں نے بین الاقوامی بحری برادری میں پاکستان کی فعال شرکت کا اعتراف کیا اور پائیدار ترقی کے لیے تعاون کو مزید آگے بڑھانے کے لیے آئی ایم او کی جانب سے حمایت جاری رکھنے کا یقین دلایا۔سربراہ پاک بحریہ ایڈمرل نوید اشرف کی کمانڈر یو ایس پیسیفک فلیٹ، فرسٹ سی لارڈ اور رائل نیوی کے چیف آف نیول سٹاف، کمانڈر انچیف رشین فیڈریشن نیوی سے الگ الگ ملاقاتیں ہوئیں۔
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے بھی ایک اجلاس میں کہا ہے کہ بلیو اکانومی وقت کی ضرورت ہے، ملکی معیشت کی بحالی کیلئے کوششیں جاری ہیں،حکومت ماہی گیری کے شعبے کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے اقدامات کر رہی ہے، سمندری استحکام کے لیے بین الاقوامی تعاون ضروری ہے، تجارت کے لیے میری ٹائم سکیورٹی اہمیت کی حامل ہے۔میری ٹائم افیئرز سے متعلق سب کے مفاد مشترک ہیں، حکومت ماہی گیری کے شعبے کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، ماہی گیری کے لیے بیچ اور خوراک کا درست طریقہ کار کے تحت انتظام ضروری ہے۔پاکستان کی بلیو اکانومی ملکی ترقی کے لیے عالمی سطح پر اہم کردار ادا کرسکتی ہے، بلیو اکانومی کے فروغ کے لیے اقدامات ضروری ہیں۔ نائب وزیراعظم نے کہا ہے کہ سمندری ترقی کیلئے عالمی شراکت داری ضروری ہے، بحری امور میں جدید رجحانات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، ملکی وعالمی سرمایہ کاروں کے لیے آسانیاں پیدا کررہے ہیں، میری ٹائم انڈسٹری میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں گے۔
بلیو اکانومی کو فروغ دینے کے حوالے سے سب سے پہلے بلیو اکانومی کو ترقی و فروغ دینے کے لیے مطلوبہ انفراسٹرکچر قائم کرنا ہوگا۔اس کے لئے پہلے میری ٹائم پالیسی کو دوسری پالیسیوں سے مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔’اسی طرح حکومت کو سب سے پہلے خود آگے بڑھنا ہو گا کیونکہ بلیو اکانومی میں مہنگی سرمایہ کاری کے لیے حکومت خود قدم بڑھائے گی تو اسی صورت میں نجی سرمایہ کاری آئے گی۔
اس وقت حکومتی سطح پر پاکستان نیوی بہترین پوزیشن پر ہے کہ وہ پاکستان کی ساحلی پٹی پرملکی معیشت کی بحالی کی خاطر لوکل کمیونٹی کے ساتھ ملکرعالمی معیار کے منصوبے متعارف کرائے، اگر پاک بحریہ کے توسط سے کراچی، گوادر اور دیگر ساحلوں پر عالمی سیاحوں کی توجہ حاصل کرلی جاتی ہے تو یہ جہاز سازی کی صنعت کو بھی تقویت پہنچائے گی سربراہ پاک بحریہ ایڈمرل نوید اشرف اس ضمن میں بہتر کردار ادا کر رہے ہیں۔