’’عوامی عدالت۔۔۔‘‘ ریاست کے اندر ریاست؟

ریاست کے اندر ریاست بنانے کی اجازت کوئی بھی ملک نہیں دیتا ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسے تجربات بھی ہوتے ہیں ۔ منظور پشتین اور ان کے ساتھیوں نے 11 اکتوبر کو ’’عوامی عدالت‘‘ لگانے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس عوامی عدالت کے لیے تمام پختون سردار، ملک اور دیگر اثر رسوخ رکھنے والے افراد سے ان کے نمائندے طلب کیے گئے ہیں۔ یہ کمپین بھی چلائی جا رہی ہے کہ جو شخص اس عوامی عدالت میں شریک نہیں ہو گا وہ پشتون قوم کا غدار ہو گا۔ یہ ایک طرح سے محب وطن پختون سرداروں کو بلیک میل کرنے کی کوشش ہے۔ اس عوامی عدالت کی بنیاد پشتون حقوق اور امن سے متعلق اقدامات پر رکھی گئی لیکن جیسے جیسے دن قریب آ رہے ہیں ویسے ویسے اسے علیحدگی پسند تحریک میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ غیر محسوس انداز میں سوشل میڈیا پر اسے پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ سے آزادی کا اہم سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پختون روایات کے مطابق ’’جرگہ‘‘ اور ’’گرینڈ جرگہ‘‘ کی اصطلاحات موجود ہیں۔ پنجاب اور دیگر صوبوں میں اس کا متبادل ’’پنچائتی نظام‘‘ رائج رہا ہے لیکن اس بار گرینڈ جرگہ کے بجائے عوامی عدالت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ قومی یا صوبائی معاملات پر جرگہ اپنی تجاویز یا اعلامیہ جاری کرتا ہے لیکن پی ٹی ایم کا کہنا ہے کہ یہ عوامی عدالت اعلامیہ یا تجاویز کے بجائے ’’فیصلہ‘‘ سنائے گی۔ سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ، عدلیہ اور اداروں کی موجودگی میں خود ساختہ عدالت لگانے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ منظور پشتین نے اپنی پہچان انسانی حقوق کے کارکن کے طور پر کرائی لیکن اگر غور کریں تو یہ شروع سے اینٹی فوج بیانیہ پر کام کرتے رہے ہیں اور اب ’’عوامی عدالت‘‘ کے نام پر علیحدگی کی ایک تحریک چلانے کی کوشش بھی معنی خیز ہے۔ اس عوامی عدالت کے ایجنڈے پر وسائل پر بڑے صوبوں کے قبضے جیسے موضوعات بھی شامل کیے گئے ہیں کیونکہ اس طرح ہمدردی بٹوری جا سکتی ہے لیکن کیا منظور پشتین یا پی ٹی ایم یہ بھی بتائے گی کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کا پورا نظام پختون قوم کے ہاتھ میں ہے اور وہ مکمل آزادی اور تحفظ کے ساتھ یہ کاروبار کر رہے ہیں۔ اسی طرح لاہور اور پنجاب سمیت پورے ملک میں چائے سے لے کر ریسٹورنٹس تک کا سیٹ اپ پختون مکمل آزادی اور کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ پورے ملک میں ان سے کسی قسم کا تعصب نہیں برتا جاتا بلکہ لوگ ان کے ساتھ گھل مل کر رہتے ہیں۔ کیا منظور پشتین اور ان کے ساتھی ایسے تمام محنتی اور قابل پختونوں کو واپس کے پی کے بلانا چاہتے ہیں؟ اس میں دو رائے نہیں کہ ماضی میں فاٹا سمیت کے پی کے میں طالبان اپنی عدالت لگاتے رہے ہیں جس کے نتائج پورا ملک بھگت چکا ہے۔ طالبان گروپوں نے دہشت گردی کے ساتھ ساتھ پورے علاقوں کو عملاً ریاست سے کاٹ دیا تھا۔ جس پر پاک فوج نے بھرپور آپریشن کیے، متعدد افسران و اہلکاروں نے شہادتیں پیش کیں جس کے بعد امن قائم ہوا اور جنگجوؤں افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے جس کے بعد ریاست پاکستان میں قیام امن اور ان علاقوں کو مکمل طور پر جنگجوں گروپوں سے پاک کرنے کے لیے پاک فوج نے چوکیاں بنائیں اور تلاشی سمیت شناخت طلب کی جانے لگی تاکہ کوئی شرپسند دوبارہ قدم جمانے میں کامیاب نہ ہو۔ منظور پشتین اور ان کے ساتھی اس عمل کے خلاف نکلے اور انہوں نے ان چوکیوں اور شناخت پوچھنے کا عمل بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ بظاہر یہ قیام امن کے لیے متحرک ہیں لیکن قیام امن کی ہر کوشش کی مخالفت بھی انہوں نے پی کی ہے جس کے ساتھ ساتھ اینٹی فوج بیانیہ بھی پھیلایا۔ منظور پشتین نے پارلیمانی سیاست سے انکار کیا لیکن انہی کے ایک ساتھی نے الگ جماعت رجسٹر کرا کے الیکشن لڑا اور دوسرے ساتھی نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا۔ اب یہ سب ’’عوامی عدالت‘‘ کے نام پر سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ قیام امن، وسائل اور حقوق کے نام پر بلائی جانے والی اس نام نہاد عوامی عدالت کا رخ علیحدگی پسند تحریک کی جانب موڑا جا رہا ہے۔ ایک طرف منظور پشتیں کا ہی کہنا ہے کہ عوامی عدالت میں کیا فیصلہ ہو گا اس کا انہیں علم نہیں اور دوسری جانب پی ٹی ایم سے منسلک لوگ ہی ایک مکمل بیانیہ تیار کر کے زمین ہموار کر رہے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی سنجیدہ ملک میں اس کی اجازت نہیں ہوتی۔ کچھ عرصہ قبل امریکا میں ’’بلیک لائف میٹر‘‘ کے نام سے چند شر پسندوں نے بغاوت کی اور لوٹ مار شروع کی جسے فوج بلا کر وہیں ختم کیا گیا۔ پاک فوج اور دیگر اداروں کو بھی بھرپور قدم اٹھانا چاہیے۔ کوئی بھی گروہ جو ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کرے یا انسانی حقوق کے نام پر علیحدگی پسندانہ جذبات کو ہوا دے اس کے خلاف فوری کارروائی ہونی چاہیے۔ یہاں تو یہ صورت حال ہے کہ مسنگ پرسن کی لسٹ جاری کی جاتی ہے اور ان کے نام پر ان کے اہل خانہ کے ساتھ احتجاج کیا جاتا ہے لیکن بعد میں پتا لگتا ہے کہ ان میں سے کوئی گوادر حملہ میں مارا گیا تو کوئی ایران بارڈر پر حملہ میں مارا گیا۔ ایک طرف یہ تنظیمیں اور ان کے اہل خانہ عالمی ہمدردی بٹورنے کے لیے مسنگ پرسن کی تصاویر اٹھائے احتجاج کرتے ہیں تو دوسری طرف وہی صاحب تصویر کسی دہشت گرد تنظیم کے پلیٹ فارم سے فورسز اور اداروں پر حملے کر رہا ہوتا ہے جس کا یقینا اس کے اہل خانہ اور تنظیموں کو بھی علم ہوتا ہے۔ بلوچستان کے بعد عالمی طاقتیں وہی کھیل کے پی کے میں بھی کھیل رہی ہیں۔ اگر ان سے بروقت نہ نمٹا گیا تو ملک بھر میں انتشار اور فساد پھیل سکتا ہے۔