بلاوجہ کا غل غپاڑہ، مسودہ دیکھا نہیں، اعتراض کس پر

پہلی دفعہ ہے کہ سیاسی کھیل کے ماہر موجودہ صدر آصف علی ذرداری جنکے لئے مشہور ہے وہ اپنی بات منوانے کیلئے ایک دفعہ کسی سے مل لیں تو وہ بندہ پھر کہیں نہیں جاتا ، ماضی میں انکے سیاسی کرشمے سینٹ کے انتخابات کے علاوہ کئی مرتبہ آزمائے گئے ہیں ایک مشورہ انہوںنے سابقہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو بھی دیاجس وقت قیدی 804کی حکومت جو اسوقت ملک میں عوام میں اپنا سحر کھو رہی تھی میاں نواز شریف کا مشورہ تھا کہ فوری انتخابات کے علاوہ کسی بات پر توجہ نہ دی جائے آصف علی زرداری فوری لندن گئے اور اپنے سیاسی کرشمے سے میاںنواز شریف کو راضی کرلیا کہ اور میاں شہباز شریف کو بڑے بھائی نے مشورہ دیا کہ ’’حکومت پکڑ لو ‘‘ عالمی حالات اور ملکی حالات کچھ اسطرح تھے کہ ایک طرف ملک میںعوام مہنگائی سے پریشان تھے ،تحریک انصاف کے عوام سے کئے گئے وعدے ایک کروڑ نوکریاں، گھر ، اور دوران انتخابات مراد سعید کی تقریر ’’کپتان آئے گا، کروڑوں ڈالر لائے گا، آئی ایم ایف کے منہ پہ مارے گا ‘‘ ایک مذاق بن چکا تھا، کپتا ن حکومت آئی ایم ایف سے کئے گئے وعدے پورے نہ کرسکی صرف قرض پکڑتی رہی اور اس ساڑھے تین سال میں جو قرض حاصل کیا وہ پاکستان کا تاریخی ریکارڈ بن گیا آئی ایم ایف سے کئے گئے وعدے پورے نہ کئے گئے بلکہ یہ کہاجائے تو بہتر ہوگا کہ آئی ایم ایف کو دھوکہ دیاگیا جس وجہ سے آئی ایم ایف ناراض ہوگیا ۔ بڑے میاںصاحب کے حکم پر میاں شہباز شریف نے حکومت پکڑ لی ملک کو مالی مشکلات سے نکالنے کیلئے میاں شہباز حکومت نے آئی ایم ایف کا رخ کیا پھرا نتخابات کے انعقاد کیلئے نگراںحکومت کا قیام ہوا ، نگرانوںکی کابینہ نے اپنی وزارتوں میں خوب من مانیاں کیں، انتخابات ہوئے مسلم لیگ ن میدان میں آئی میاں نواز شریف نے انتخابی مہم چلائی مگر انہیں سیاسی موسم کا اندازہ ہوچلا تھا انتخابی تقاریر میں انکا پیغام یہ ہی تھا کہ اکثریت دوگے تو ملک ترقی کرے گا ، مگر ایسا نہ ہوسکا ، میاں نواز شریف کا مشورہ اور خواہش تھی کہ اکثریت ہو تو حکومت سنبھالی جائے ، چونکہ وہ اپنے دور اقتدار میں دیکھ چکے ہیں کہ یہ چند نشستوں والے کس طرح حکومت کے کاموں میں رکاوٹ بنتے ہیں، یہ نمبر گیم کا کھیل ملک کیلئے نہایت نقصان دہ ہے ماضی میں حکومتیںکسی معاملے پر حمایت کیلئے نائن زیرو کے چکر لگاتی تھیںاب مولانا فضل الرحمان کا ڈیرہ آباد ہے کبھی کوئی کبھی کوئی ، یہاں تک کہ تحریک انصاف کا وکلاء گروپ مولانا کی امامت میںنماز بھی پڑھ رہا اللہ قبول کرے ۔ ۔ گزشتہ دو چار دنوں میںجتنا ٹی وی سکرینوں پر وہ نظر آئے ہیں اتنے اشتہا ر بھی نظر نہیں آئے حکومت کی جلد بازی اور کمزور مشیروںنے حکومت کو مشکل کا شکار کردیا، آج کے الیکٹرانک دور میں سب اپنی اپنی ہانک رہے ہیں ایک طرف یہ کہاجارہا ہے ہمیں آئینی ترامیم کا مسودہ نہیں ملا دوسری جانب ہر شخص اس پر تنقید کررہا ہے جب مسودہ ہی نہیںدیکھا تو شورو غل کس بات کا شام کو بڑی اجرتیں لینے والے بقلم خود قسم کے تجزیہ کار کہتے ہیں جو مسودہ مجھے ملا وہ کچھ ایسا تھا ۔اپنے معاملات میںدوست ممالک پر الزام تراشی کسی بھی طرح فائدہ مند نہیں ایک تجزیہ کار فرما رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کو ایک دوست ملک سے فون کرایا گیا انہیں راضی کرنے کو ، پاکستان میں کوئی بھی قانون ہو کسی بھی دوست یا دشمن ملک کو اس سے کیا غرض ؟؟ ایک اندازے کے مطابق اسمبلی کے ایک اجلاس میں قومی خزانے سے 6 کروڑ روپیہ خرچ ہوتا ہے جس میں عوامی مسائل پر بات کم جھگڑہ فساد شوور غل زیادہ ، معصوم عوام جنہوں نے انہیں اسمبلیوںمیں بھیجا ہے وہ انتظار کرتے ہیں کہ ہمیں درپیش مسائل، پانی ، بجلی ، مہنگائی ، بے روزگاری پر یہ کب بات کرینگے ۔ چند دنوںسے یہ بات مزید ثابت ہوگئی ہے کہ ہمارے ہاں قوت برداشت اور جمہوری رویوں کی کتنی کمی ہے۔ بات قانون اور جمہوریت سے نکل کر حب الوطنی اور غداری کی حدود چھونے لگتی ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے بیانیے کے حق میں زمین و آسمان کے قلابے ملا کر عوام کو اپنا ہم نوا بنانا چاہتا ہے۔ عوام بے چارے پہلے ہی بھیڑ بکریوں کا ایسا ریوڑ بنے ہوئے ہیں جسے کوئی بھی گڈریا شور مچا کر ادھر ادھر دوڑنے پر مجبور کر دیتا ہے ورنہ قانونی اور آئینی موشگافیوں سے عام آدمی کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، اسے کیا معلوم کہ کیا ہو رہا ہے۔ کالا باغ کا مسئلہ ایک مثال ہے پنجاب کے لوگ کالا باغ کے قیام کی حمائت کرتے ہیں انہیں نہیں پتہ کہ وہ ہے کیا؟۔ یہی صورتحال دیگر صوبوںکے عوام کی ہے وہ مخالفت کرتے ہیں بغیر فوائد جانے چونکہ انکالیڈر مخالفت کرتا ہے پیشہ ور لیڈران اپنی سوچ کو جمہوریت قرار دیتے ہیں انہیں اصل جمہورسے کوئی مطلب نہیں اب یہی صورتحال سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں نظر آرہی ہے۔ سب اپنے اپنے خیالی گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔ عوام یہ ریس دیکھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے اور کیا کرنا ہیـــ؟ باقی آئینی اور قانونی معامالات میں زیادہ سوجھ بوجھ تو انھیں ہے نہیں۔ بس تماشا دیکھ رہے ہیں۔ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد شہباز شریف صاحب کو یہ حقیقت نگاہ میں رکھنا چاہیے تھی کہ ان کی جماعت کے پاس اپنے تئیں قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت میسر نہیں ہے۔ انہیں کسی بھی وقت اقتدار سے محلاتی سازشوں کے ذریعے گھربھیجا جاسکتاہے۔ ایسے عالم میں انہیں قومی اسمبلی کے ہر رکن سے مسلسل مشاورت درکار تھی۔ اتحادی جماعتوں کو ہمہ وقت آن بورڈ رکھنا بھی ان کی ذمہ داری تھی SAME PAGE کے سحر سے نکل کر زمینی حقائق پر توجہ کی ضرورت ہے،ایک SAME PAGEوالا اڈیالہ جیل میں شام کو ورزش میں مصروف رہتا ہے۔ اپنے کمزور مشیران کی وجہ سے اب حکومت کو اپنی ساکھ بچانے کیلئے چند نشستوںوالوں سے ساز باز کرنا ہوتی ساز باز کا دوسرا نام ہے بلیک میل ہونا پڑے گا جس سے ساز باز ہوگی اسکی کچھ خواہشات بھی ہیں کہیں حکومتی امورمیں اسکے چند لوگ کہیں نہ کہیں شامل ہوں معاملے کو طول دینے کیلئے محترم عبدالغفور حیدری کہہ چکے ہیں انہیں مسودہ پڑھنے کو ایک ماہ چاہئے پھر نہ جانے مولانا فضل الرحما ن کن نکات پر کبھی ایک جماعت کبھی دوسری جماعت کے لوگوںکو اپنے در پرحاضری لگوا رہے ہیں ؟؟؟ مزا تو ہے ۔ وزیر اعظم شہباز شریف ایک بہترین منتظم ہیں انکے ہمراہ مشوروںکیلئے انکے تجربہ کار بھائی ہیںکیونکہ حکومت کے پاس حکومت چلانے کیلئے مطلوبہ تعداد نہیں اتحادی پی پی پی میثاق جمہوریت کا حوالہ دیکر اتحادی ہے پی پی پی جدہ میںہونے میثاق جمہوریت کو ضرورت پڑنے پر ٹوکری سے نکال لیتی ہے ، جسے آصف علی ذرداری کہہ چکے ہیںکہ وہ کونسا قرانی صحیفہ ہے اسلئے پی پی پی وقت پڑنے پر پھر میثاق جمہوریت کو بھول سکتی ہے ۔