(گزشتہ سے پیوستہ)
اللہ کریم کا مقدس ترین گھر خانہ کعبہ ، مسجد الحرام کی وسعتوں، رعنائیوں اور بے پناہ حسن و جمال کے جلو میں اپنی پوری عظمت، جلالت اورتقدس کے ساتھ ہماری نگاہوں کے سامنے موجود تھا۔ اس کا سیاہ سنہری ریشمی غلاف ایسے چمک رہا تھا جیسے آسمان سے زمین تک نور کے ایک ہالے نے اسے اپنی آغوش میں لے رکھا ہو۔ کعبہ مشرفہ پر نظریں پڑنے کے بعد رب کعبہ کے حضور زبان سے حاضری کے اقرار کے ساتھ پورے وجود کے ساتھ حاضری کا مرحلہ شروع ہو چکا تھا۔ اب بارگاہِ ایزدی میں اپنی لغزشوں ، کوتاہیوں، نا فرمانیوں، خطائوں اور گناہوں سے معافی کے لیے التجائوںاور دعائوں کی باری تھی۔ کہا جاتا ہے کہ کعبہ مشرفہ پر پہلی نظر پڑے تو جو بھی دعائیں، التجائیں، تمنائیں دل میں ہوںیا زبان پر آئیں ان کی قبولیت کی گھڑی ہوتی ہے۔ قبولیت کی یہ گھڑی کس کو نصیب ہوتی ہے، دعائوں، التجائوں کی بازیابی کا اذن کس کو ملتا ہے ؟ میں سمجھتا ہوں یہ اتنا بھی آسان نہیں۔ میں اگر اپنی ذات کی حد تک بات کروں تو کہوں گا کہ نامہ ِاعمال کی پوری کتاب، اس کا ایک ایک گوشہ ، اس کا ایک ایک حرف، اس کا ایک ایک لفظ، اس کا ایک ایک صفحہ اور اس کا ایک ایک ورق نگاہوں کے سامنے گھوم رہا تھا۔ جیسے یہ کہا جا رہا ہو، پوچھا جا رہا ہو کیا کرتے رہے ہو، کیوں کرتے رہے ہو، پھر کوئی جواب، کوئی عذر، کوئی دلیل، کوئی منطق قابلِ قبول نہیں ہو رہی تھی، سوائے رحم و کرم کی التجائوں، دعائوں اور درخواستوں کے۔ جب ان التجائوں، دعائوں اور درخواستوں نے آنکھوں سے بہنے والے آنسوئوں کی لڑی کا روپ اختیا ر کر لیا ، آواز بھر گئی، الفاظ نے ساتھ چھوڑ دیا، صرف اتنا ہی کہنے کا یارا رہا کہ تو رحمان ہے، رحیم ہے، کریم ہے، تیرے سوا کون ہے جس کے حضور جھولی پھیلائوں، کس کے سامنے رحم کی درخواست کروں، تو ہی اور صرف تو ہی ہے جو معاف کرنے والا ہے، بخشنے والا ہے اور توبہ قبول کرنے والا ہے تو پھر آنسو ذرا تھمنے لگے، دل کو کچھ ایسا اشارہ ملا کہ رب کعبہ نے التجائوں، درخواستوں اور عرضداشتوں پر نظرِ کرم ڈالی ہے۔ ہلکا سا گونہ سکون محسوس ہوا تو مطاف میں آگے بڑھنے کی سوجھی ۔ میں نے دیکھاکہ میرے اعزہ رُکنِ یمانی کی طرف سے مطاف میں آگے بڑھ چکے ہیں ۔ اب میرے لیے بھی ضروری تھا کہ ان کے ساتھ شامل ہو جائوں۔
عمران اپنی امی کا ہاتھ پکڑ کا چل رہا تھا۔میری اہلیہ محترمہ، میری بھتیجی راضیہ دونوں اکٹھی ہو کر آگے نکل چکی تھیں۔ عمران کے خالہ ذاد بھائی واجد ملک نے اپنی امی کو جس کے لیے جھکی کمر کے ساتھ چلنا آسان نہیں تھا سنبھال رکھا تھا۔ میں آگے بڑھ کر عمران اور اس کی امی کے ساتھ جا کر مل گیا۔ کعبہ کی رُکنِ یمانی والی دیوار کی طرف سے چلتے ہوئے ہم حجرِ اسود کے سامنے پہنچ گئے۔ ہجوم کی وجہ سے حجرِ اسود کو چھونا او ر چومنا ممکن نہیں تھا۔ دُور سے ہی بسم اللہ ، اللہ اکبر کہہ کر دائیں ہاتھ سے حجرِ اسود کی طرف اشارہ کرکے ہاتھ کی ہتھیلی کو چوما اور اس کے ساتھ ہی طواف کے پہلے چکر کے لیے آگے بڑھنا شروع کر دیا۔ طواف کے دوران خانہ کعبہ بائیں ہاتھ کی سمت پر ہوتا ہے۔ حجرِ اسود سے آگے بڑھیں تو بائیں ہاتھ خانہ کعبہ کا سنہری دروازہ ملتزم اپنی پوری آب و تاب کے سا تھ چمک بکھیرتا ہی نظر نہیں آتا ہے بلکہ طواف کرنے والے بہت سارے با ہمت افراد اُس کی چوکھٹ پکڑے دعائوں اور التجائوں میں بھی مصروف نظر آتے ہیں۔ ہمارے لیے ملتز م تک پہنچنا آسان نہیں تھا۔ کچھ آگے دائیں مقام ِ ابراہیم ؑ سے گزرنا ہوتا ہے۔ ایک بڑے پتھر یا پتھر کی سِل کو جس پر ابراہیمؑ کے پائوں کے نشان واضح (پتھر کے اندر ذرا دھنسے ہوئے) نظر آتے ہیں۔ شیشے کے ایک خوبصورت سنہری فریم میں بند کرکے رکھا گیا ہے۔ یہاں ہجوم کچھ زیادہ تھا کہ کئی خواتین ، حضرات یہاں نوافل ادا کرنے میں مصروف تھے۔ یہاں سے آگے بڑھے تو مطاف میں کچھ کشادگی محسوس ہوئی اور بائیں طرف حطیم کے نصف دائرے کی تقریباً کمر تک اونچی دیوار کے ساتھ چلنا آسان ہو گیا۔ حطیم کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ خانہ کعبہ کی عمارت کا ہی ایک حصہ ہے۔ نبی پاک ﷺ کے زمانے میں خانہ کعبہ کی تعمیرِ نو ہوئی تو وسائل نہ ہونے کی بنا پر اِسے خانہ کعبہ کی عمارت کے اِس حصے میں شامل نہ کیا جا سکا جس پر چھت ڈالی جا رہی تھی۔ اس کے بعدسے خانہ کعبہ کے تقریباً مغربی حصے میں نصف دائرے کی شکل میں حطیم کہلانے والے اِس حصے میں نفل یا عبادت کرنے کا اتنا ہی ثواب سمجھا جاتا ہے جتنا خانہ کعبہ کے اندر عبادت کرنے کا ثواب ہے تاہم حطیم کا نصف دائرے کی شکل میںکمر جتنی اونچی دیوارکے اندر کا احاطہ خواتین و حضرات کے لیے مقررہ اوقات میں ہی کھولا جاتا ہے ورنہ اس کے دونوں اطراف کے گیٹ بند رہتے ہیں۔ حطیم کے آخر جنوبی جانب کے آخری سِرے کے ساتھ ہی خانہ کعبہ کی تقریباً جنوب کی سمت دیوار شروع ہو جاتی ہے۔ اس دیوار کے آخری (جنوب مشرقی) سِرے یا کونے کو رُکنِ یمانی کہا جاتا ہے۔ حطیم کے ساتھ جُڑی خانہ کعبہ کی دیوار کو ہم نے اچھی طرح ہاتھ لگائے ، تیسرے کلمے سُبحانَ اللہ وَالحمد للہ ۔۔۔۔کا وِرد جو طواف کے آغاز سے زبان پر جاری تھا کے ساتھ مرحوم والدین کی بخشش ، اولاد ، کنبے ، گھرانے، بھائی بہنوں، عزیز و اقارب اور احباب کے لیے ہدایت، نیکی، سلامتی اور خیر و برکت کی دعائوں کا اچھا موقع مل گیا اور پھر آگے رُکنِ یمانی کی طرف بڑھے۔ رُکنِ یمانی پر پھر لوگوں کا ہجوم تھا۔ مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑا۔ آگے چلے، اب زبان پر رَبَّنَا اَتِنَا فی ِ الدُّنیَا… کے دعائیہ الفاظ جاری تھے اور دل میں ہُوک سے اُٹھ رہی تھی کہ کاش رُکنِ یمانی کو ہاتھ لگانے کا موقع مل سکے۔ طواف کے ساتوں چکر اِسی انداز میں دعائوں، التجائوں اور عرضداشتوں کے ساتھ مکمل کیے۔ میں ، عمران اور اُس کی امی طواف کے دوران اکٹھے رہے ۔ میری اہلیہ محترمہ اور بھتیجی راضیہ دونوں اکٹھی اور واجد اور اُس کی امی جس کے لیے جھکی کمر کے ساتھ چلنا آسان نہیں تھا، بڑی ہمت ، حوصلے اور شوق کے ساتھ طواف کے چکروں کو مکمل کر رہے تھے ۔ دل میں یہ خواہش ضرور تھی کہ حجرِ اسود کو چھو سکوں اور کعبہ مشرفہ کے دروازے (ملتزم) کی چوکھٹ کو پکڑ کر توبہ، معافی اور بخشش کی دعائیں کر سکوں لیکن ایسا ہونا آسان نہیں تھا کہ ان مقامات پر رش کچھ زیادہ تھا۔ پھر مجھے یہ بھی خیال تھا کہ میرے سینے میں دل کے ساتھ پیس میکر لگا ہوا ہے ۔ ہجوم میں دھکے وغیرہ لگنے سے کوئی مسئلہ بن سکتا ہے۔ اس لیے احتیاط ضروری تھی۔
طواف کی تکمیل کے بعد مقامِ ابراہیم ؑ پر دو نفل پڑھنے، آبِ زم زم خوب سیر ہو کر پینے اور پھر صفا اور مروہ کے درمیان سعی ( سات چکر لگانے) کی باری تھی۔ مقامِ ابراہیم ؑ جس کے بارے میں قرآنِ حکیم کی سورۃ البقرہ کی آیت 125 میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ” ـ ـ ابراہیم ؑ جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے ، اُس کو مستقل جائے نماز بنا دو”ـ ، کافی رش تھا۔ لہذا پیچھے ہٹ کر نفل ادا کیے ، کعبہ کو نگاہوں کے سامنے رکھتے ہوئے ربِ کعبہ کے حضور دعائیں اور التجائیں کیں۔ آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑی جاری رہی، دل ذرا ہلکا ہوا تو سیر ہو کر آبِ زم زم پیا اور سعی کے لیے صفا اور مروہ کی نشاندہی کرنے والے راستے پر ہو لیے۔ (جاری ہے)