پیارے جیالو، متوالو اور جنونیو

 

میں یوتھیوں کے لیے لفظ جنونی لکھ رہا ہوں، جیالے جو کہ سیاسی اعتبار سے تاریخ ساز سیاسی ورکر ہیں ان کے مقابلے کے لیے اتحاد بنتے رہے کبھی قومی اتحاد 1977، کبھی آئی جے آئی 1987-88 مگر بات نہ بن سکی، پیپلز پارٹی کا مقابلہ نہ ہو سکا۔ اس سے بڑی جماعت پاکستان میں نہیں ہوئی۔ غلام اسحاق خان جو ایک سیاسی بددیانت انسان تھا مگر اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ تھا، نے 1999 میں میاں نوازشریف اور اتحادیوں کی حکومت ختم کی جس پر میاں نوازشریف نے ایک تقریر کی۔ وہ تقریر ان کو پیپلز پارٹی مخالف عناصر یا لوگوں کا مسلمہ لیڈر بنا گئی۔ یوں میاں نوازشریف پیپلز پارٹی کے بعد مسلمہ طور پر عوام میں دوسرے درجے کی پارٹی کے لیڈر تسلیم ہوئے ان کے فالوورز کے پاس سیاسی اعتبار سے کہنے کو کچھ نہ تھا لہٰذا جیالوں کے مقابلے میں ان کے حصے میں متوالے لفظ آ گیا۔ آگے چل کر سیاست کے لیے، جمہوری آزادیوں اور آئین کی بحالی کی لیے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور ان کی جماعت نے مسلسل اور بے شمار قربانیاں دیں کچھ تاریخ میں بیان ہوں گی کچھ راز رہیں گی۔ میاں نوازشریف جب غلام اسحاق خان کے بغض پر مبنی اقدام کے خلاف میدان میں آئے تو ان کو عوام میں کافی پذیرائی ملی۔ گریٹ بھٹو پی کیپ پہنتے تھے وہ چائنیز سٹائل کی تھی میاں نوازشریف کرکٹ والی پی کیپ پہن کر عوامی رابطے میں نکلے تو مجیب الرحمن شامی نے کالم لکھا ”68 کا بھٹو“ تب میں کالم نگاری تو نہیں کرتا تھا البتہ لکھا ہوا کسی نہ کسی اخبار میں چھپ جاتا تھا۔ اس وقت زبیر رانا کی وساطت سے ایک مضمون لکھا تھا جس میں مجیب الرحمن شامی کے کالم کے جواب میں لکھا تھا کہ ”65 کا بھٹو“ جب 4 اپریل 1979 کا بھٹو بننے لگے گا تو پھر بھٹو صاحب کی پیروی میں نہ کوئی جائے گا اور نہ ہی کوئی کبھی 1979 کا بھٹو لکھ پائے گا۔ پیپلز پارٹی کے ورکرز نے بہت قربانیاں دیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید بھی اپنے محدود اقتدار میں ورکرز کو جو صلہ دے سکیں، انہوں نے وہ دیا۔ ن لیگ کے ورکرز کی جدوجہد اتنی نہیں البتہ قیادت اور دوسرے درجے کی قیادت نے کافی

دشواریاں خصوصاً عمران دور میں دیکھیں بلکہ ظلم اور زیادتیوں کا سامنا کیا۔ عمران کا دور سیاسی انتقام کے حوالے سے ضیا کے بعد بد ترین دور تھا۔ بھلے میاں نوازشریف کبھی حدود کراس کر جاتے رہے ہیں لیکن عمران نیازی نے ان کو مات دے دی۔ پھر بویا کاٹنا ہوتا ہے نرگسیت پسندی، تکبر اور نااہلیت کا پہاڑ اپنے بوجھ سے ہی زمین بوس ہو گیا اور اب اڈیالہ جیل میں ہے۔ ضیا الحق کے بعد اور نہ پہلے فوجی حکمران اس قدر سفاک نہ تھا لیکن جمہوری لبادے میں عمران نیازی سے بڑھ کر سفاک اور ڈکٹیٹر کوئی نہیں تھا۔ اب جیالو، متوالو، جنونیو اور جماعتیو آپ خود یاد کریں کہ پیپلز پارٹی کے علاوہ ورکرز کی قدر دانی کس جماعت نے کی، محترمہ شہید کے بعد تو کسی نے ورکر کو اقتدار کا حصہ نہیں بنایا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو تو اقتدار اب کسی بھی سطح پر نو گو ایریاز کے ساتھ ملتا ہے اور ملا کرے گا۔ عمران نیازی کے لیے تو باجوہ صاحب نے حدیں کراس کر دیں اور جنرل فیض حمید تو خیر آرمی ایکٹ اور آئین کو ہی لتاڑ گئے مگر جو لوگ عمران نیازی کے لیے اتنا ناچے، گھروں میں ڈانس کی مشق کرتے رہے، اتنا ناچے کہ بعض کے ”گھٹنے“ ٹوٹ گئے۔ اقتدار آنے پر کس کو علم تھا کہ پنکی پیرنی، فرح گوگی، عثمان بزدار اور چند ہم نوا کے ساتھ چند کاروباری مافیاز ہیڈ ہوں گے۔ کتنے نوجوانوں کو روزگار ملا؟ جمع تفریق یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں 12 سیٹوں والا منظور وٹو وزیراعلیٰ لگانا پڑتا ہے جبکہ نامعلوم بزدار کو وزیراعلیٰ لگا دیا جاتا ہے، کسی بھی ورکر کے حالات نہیں بدلتے۔ سارا دن آپ لوگ ایک دوسرے کے دشمن بنے رہتے ہیں کیا جن کیلئے لڑتے مرتے اور تعلقات توڑتے ہیں وہ آپ کو جانتے بھی ہیں؟ کیا یقین ہے کہ اگر آپ مر گئے تو آپ کے جنازے پر آئیں گے؟ یہ سیاسی لوگ اقتدار میں شرکت کسی کی بھلائی کیلئے نہیں اپنے لیے کرتے ہیں۔ مکار، عیار، بد کردار چاپلوس اور خوشامدی کچھ مقام حاصل کر لیتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ مخالف پر بھونکیں اور اپنے لیڈر کی ہر ناجائز بات کا دفاع کریں۔ میں نے سیاست شیخ رشید، رانا نذیر 1993 میں گوجرانوالہ وکلا بار میں نوازشریف کی خوشامد کرتے ہوئے دیکھ کر چھوڑی۔ ایسی نفرت ہوئی کہ اللہ معاف کرے۔ جیالو، متوالو، جنونیو پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے جدوجہد کی تھی، عمران نیازی نے سازش اور بغاوت کی ہے۔ محسن کشی تو کرتے رہے جو لوگ شریک سفر تھے وہ اقتدار کے بجائے جیل میں تھے یہی رویہ انہوں نے لانے والوں کے ساتھ اپنانے کی کوشش کی، وہ بھی ایک اہم ترین فوجی افسر کی ملی بھگت سے جس سے ملک کی بنیادیں ہل گئیں۔ کوئی شخص سپہ سالار کو عمران نیازی کے خلاف چغلی نہیں کر سکتا کیونکہ وہ بطور آئی ایس آئی چیف ان کی رپورٹ خود بنا چکے ہیں اور جب یہ وزیراعظم تھے ان کے کہنے پر ہی بنائی تھی۔ وہ بھی سمجھے ہوں گے یہ دیانتدار ہے مگر وہ ملوث نکلا اور ان کا تبادلہ کر دیا۔ عمران نیازی اپنی حکومت کے خاتمے کا خود ذمہ دار ہے اور عدم اعتماد اس لیے کامیاب رہا کہ اس کی اکثریت نہ تھی، پہلے دن سے نہ تھی۔ لوگ اس کے دور میں امیدیں توڑ چکے تھے۔ قومی سفر حتیٰ کہ زندگی کے سفر کو جاری رکھنے کا امکان تک نہ رہنے کی حد تک مایوس ہو چکے تھے۔ معاشرت، معیشت، قوم اور ملک دیوالیہ ہو چکا تھا۔ کسی سیاسی ورکر کو کبھی کوئی جماعت اور اعلیٰ قیادت شریک اقتدار نہیں کرے گی نہ ہی ان کے پاس ایسا پروگرام ہے کہ جس کے نفاذ سے یہ شخص اپنے آپ کو اقتدار کا حصہ سمجھے اور نظام کو محافظ۔ اپنے لوگوں سے ان کی خاطر مت لڑو وقت آنے پر اقتدار کے ساتھی اور ہوتے ہیں اور وقت پڑنے پر جدوجہد میں ورکرز……

جنرل فیض حمید کی گرفتاری فوجی تاریخ میں بہت بڑی گرفتاری ہے اور ثبوت کے ساتھ ہے۔ اس کا فیصلہ قابل غور ہے۔ لہٰذا سوشل میڈیا کچھ کہتا رہے، اب بچنے کی کوئی راہ باقی نہیں۔ رہی بات سوشل میڈیا کی تو مائیک ٹائی سن کہتے ہیں کہ ایکس پر گالی دینے والے کو مکا بھی نہیں مارا جا سکتا۔ وہ بے بس ہیں مگر ادارے بے بس نہیں ہوتے۔ بیرون ملک کین پی کر امریکہ اور انگلینڈ میں پوسٹ تو لگائی جا سکتی ہے مگر حقائق نہیں بدلے جا سکتے۔ جس ملک کے پاسپورٹ کے ساتھ گئے تھے دعا کریں وہ ملک قائم رہے۔