فضائوں میں اڑتی آدم خور گدھیں للچائی نظروں سے ارضِ پاک پر چلتی پھرتی مخلوق کو دیکھ رہی ہیں کہ کب اُن کے معاون و مددگار اس خطے کی حقیقی محافظ قوتوں کو شکست و ریخت سے دوچار کر کے اُن کو سالہا سال کا رزق فراہم کرتے ہیں ۔ پاکستان کسی بحران کا شکار نہیں البتہ پاکستان ایک مہا بحران (Ulter-Crises)کا شکار ضرور ہے جس میں بہت سے بحران مل کر پہلے اپنی اپنی جگہ پر اپنے اپنے مضبوط بیانیے بنا کر اپنے لوگوں کو پھانس لیتے ہیں اور پھر سب مل کر ایک شکل میں ریاست پر چڑھائی کر دیتے ہیں ۔افغانستان کی جنگ میں کس کس کی غلطی تھی اب دنیا اس سے بہت آگے نکل آئی ہے کیونکہ افغان وار کے سب سٹیک ہولڈرز اپنا اپنا نفع کما کر رفو چکر ہو چکے ہیں اور ہمارے حصہ میں آئی ہے ایک چو مکھی لڑائی۔جو سب کی سب 1996ء کے بعد کی پیدا وار ہے۔ تحریک طالبان افغانستان سب سے پہلے منظر عام پر آئی اور ہم نے اس کی افغان حکومت کو تسلیم بھی کر لیا یقینا اُس وقت عالمی سوداگر بھی یہی چاہتے ہوں گے ورنہ اُن کی مرضی و منشاء کے بغیر ایسا کسی صورت ممکن نہیں تھا لیکن جب نائن الیون کے بعد امریکہ افغانستان پر چڑھ دوڑا تو تحریک طالبان افغانستان کا دائرہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے پھیلتا ہوا پاکستان کے گلی کوچوں تک پہنچ گیا اور پاکستانی قوم پہلی بار خود کش حملوں سے آشنا ہوئی ۔ کیا یہ بھی اتفاق سمجھ لیا جائے کہ اسی سال 1996 ء میں پاکستان میں ایک سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی شکل میں معرض وجود میں آئی جس کا ابتدائی مطالبہ پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ ٗ عام آدمی کی اقتدار میں شمولیت اور سستا انصاف سب کیلئے تھا لیکن نائن الیون کے بعد جب پرویز مشرف نے بانی پی ٹی آئی کو وزیر اعظم بنانے سے انکار کیا تو عمران نیازی کے اندر سے ایک نیا عمران خان برآمد ہوا جسے اجمل نیازی عمر بھر ’’ طالبان خان ‘‘ لکھتے رہے ۔ یعنی طالبان کو پاکستان میں اپنا سیاسی چہرہ یا حمایتی میسر آگیا ۔ ابتدا میں عمران نیازی صرف پرویز مشرف کے خلاف تھا لیکن اُس کے جانے کے بعد افواج پاکستان کے دروازے پر بیٹھ کر اُس نے صدائیں لگانا شروع کردیں ’’ جو دے اُس کی بھی خیر اور جو نہ دے اُس کی بھی خیر ‘‘ اور پھر اقتدار عمران نیازی کی جھولی میں آ گرا ۔ یہ سب کیسے ہوا ؟ کب ہوا ؟ کیوں ہوا ؟یہ ایک الگ داستان ہے لیکن اقتدار سے نکلتے ہی عمران نیازی کا لب و لہجہ وہی ہو گیا جو طالبان کا تھا ۔2013ء سے تادم ِ تحریر خیبر پختوخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے ۔یعنی پاکستان کا حساس علاقہ گزشتہ 11 سال سے عمران نیازی کے دائر ئہ قدرت میں ہے ۔جہاں طالبان کی واپسی ہو چکی ہے اور عمران نیازی اور طالبان کا افواج پاکستان بارے ایک ہی بیانیہ ہے ۔ عمران نیازی طالبان کی سیاسی شکل تھا لیکن اُس نے دفاعی اداروں پر حملہ کرکے اپنے آپ کو نیم عسکری تنظیم بھی بنا لیا اور اب وہ سکون سے جیل میں بیٹھا اپنے کارڈز استعمال کر رہا ہے ۔یہ سب ہرگز اتفاق نہیں ہو سکتا کسی انتہائی شاطر ذہن کا پھیلایا ہوا جال ہے جس میں ہم بُر ی طرح پھنستے جا رہے ہیں۔ ماہ رنگ بلوچ 1993ء میںبلوچستان لبریشن آرمی کے ایک ’’جنگجو‘‘ عبد الغفار لانگو کے گھر پیدا ہوئیں جو اپنی ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے مبینہ طور پر اٹھا لیا گیا اور اُس کی تشدد زدہ لاش بعد ازاں ورثہ کو مل گئی۔ ماہ رنگ نے 16 سال کی عمر میں بطور طالبعلم احتجاج شروع کیا اور جلد ہی مقبول ہو گئیں ۔ازاں بعد 2017 ء میں اُس کا بھائی بھی بلوچستان لبریشن آرمی کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے گرفتار ہوا تو ماہ رنگ ایک بار پھر میدان میں نکل آئیں ۔ گو کہ ماہ رنگ بلوچ اس بات سے انکاری ہیں کہ اُن کے بھائی اور باپ کا بلوچستان لبریشن آرمی سے تعلق تھا لیکن اس کی تصدیق یا تردید تو ماہ رنگ کا باپ یا بھائی ہی کرسکتا تھا لیکن ماہ رنگ آہستہ آہستہ مسنگ پرسن ٗ ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بڑھتی ہوئی بلوچستان کے وسائل اور میڈیکل کے کوٹہ بار ے احتجاجات میں شامل ہونا شروع ہوئی اور بعد ازاں وائی ۔ سی ۔ اے سے تعلق رکھنے والی ماہ رنگ بلوچ نے بلوچ لانگ مارچ کی قیادت کی جو تربت سے اسلام آباد پہنچا لیکن ماہ رنگ بلوچ نے اس احتجاج کے اختتام پر بھی آئی ایس آئی پر الزامات کی بوچھاڑ کردی ۔یعنی پاکستان کا حساس ترین علاقے بلوچستان میں بھی ایک گروہ مسلسل ریاستی اداروں کے خلاف بولنے کیلئے پیدا کرلیا گیا ۔
محسود قبیلے میں پیدا ہونے والے منظور پشتین نے بچپن میں بار بار نقل مکانی کا زخم سہا اور اُسے جنوبی وزیرستان سے ڈیرہ اسماعیل خان آنا پڑا اور اِس دوران ’’ محسود تحفظ تحریک ‘‘ کی بنیاد بھی رکھی گئی اور مارچ 2024 ء تک وہ اُس پشتون جرگے کا حصہ رہا جو افغانستان اور پاکستان میں پختونوں کو درپیش مسائل پر تبادلہ خیال کرنے کیلئے بنوں میں منعقد کیا گیا ۔ بات آگے بڑھی تو اُس نے آل پشتون نیشنل جرگہ بنا لیا اور اب وہ پی ٹی ایم کی قیادت کررہا ہے ۔ افواج پاکستان کا کہنا ہے کہ منظور پشتین کو افغانستان اور بھارتی ایجنسیوں کی طرف سے انارکی پھیلانے کیلئے فنڈنگ کی جاتی ہے ۔ اب اگر غور سے دیکھیں تو یہ سارا کھیل اور اِس کے کردار ایک ایک کرکے 1996ء کے بعد منظر عام پر آئے ہیں ۔ آپ تحریک طالبان ٗ پی ٹی آئی ٗ پی ٹی ایم اور بی وائی سی کے بیانیے کو الگ الگ پڑھیں او ر ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر سمجھیں تو اُن سب کا بیانیہ افواج پاکستان کے خلاف ایک ہی ہے ۔ جس میں پختونوں اوربلوچوں کوورغلایا جا رہا ہے۔ اِن چاروں کی بنیادیں افغانستان میں ہیں اور اس وقت افغان طالبان کس کی زبان بول رہے ہیں یہ سمجھنے کیلئے بھی زیادہ عقل کی ضرورت نہیں کہ افغانستان میں بھارت کا کیا کردار ہے۔ اگر عقل کو حیران کردینے والا واقعہ ایک بار ہو تو اُسے معجزہ یا کرامت کہا جاتا ہے لیکن اگر بار بار ہو تو یہ سائنس بن جا تا ہے۔ پاکستان کو سائنسی بنیادوں پر چاروں طرف سے گھیرا جا رہا ہے اور اس وقت پاکستانیوں اور اِن کے دشمنوں کے درمیان اگرکوئی دیوارکھڑی ہے تو وہ صرف افواج پاکستان ہے جسے دشمن گرانے کیلئے نت نئے منصوبے بنا رہے ہیں ۔ ٹی ٹی پی ٗ پی ٹی آئی ٗپی ٹی ایم اور بی وائی سی میں اہم ترین قدر مشترکہ یہ ہے کہ یہ نوجوانوں کی تحریکیں بنائی گئی ہیںاوریہ چاروں تیر ایک ہی کمان سے نکلے ہوئے ہیں اِن کا نشانہ صرف ایک ہے اور وہ ہے پاکستان… سو ہمیں ابھی سوچ لیناچاہیے ورنہ اس مہا بحران کی منتظر آدم خور گدھیں ہمارے آسمانوں میں اڑ رہی ہیں ۔