ماجھی جو ناؤڈْبوئے، اْسے کون بچائے

سسلی (اِٹلی)کے ساحل پر 19اگست 2024ء کو ایک 56میٹر لمبی کشتی جو وہاں لنگر انداز تھی طوفانی لہروں کی زد میں آکر ڈْوب گئی۔ وہ کشتی برطانیہ کے ایک مشہور سوفٹ ویئر بزنس مین مائیکل لنچ کی تھی۔ کشتی میں کل بائیس افراد سوار تھے۔ اْن میں سے سات افراد ڈْوب کر ہلاک ہوگئے۔ اْن میں مائیکل لنچ بھی شامل تھا۔ یہ کشتی جدید آلات سے لیس تھی اَور اْس کے بارے میں کشتی بنانے والوں کی رائے تھی کہ وہ ڈوب ہی نہیں سکتی۔ اْس کے برابر میں ایک اَور کشتی لنگر اَنداز تھی جوبچ گئی۔اْس کچھ بھی نہیں ہوا۔ مائیکل لنچ کی کشتی صرف سولہ منٹ میں غرق ہوگئی۔ مائیکل لنچ برطانیہ کی مشہورسوفٹ ویئر کمپنی Autonomy کا مالک تھا۔اْس نے کیمبرج یونی ورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈِگری لی تھی۔ وہ برطانیہ کا بل گیٹس کہلاتا تھا۔ اْس نے 2011ء میں یہ کمپنی گیارہ ارب ڈالر میں امریکہ کی کمپنی ایچ پی کو فروخت کردی تھی۔ ایچ پی نے بعد میں مائیکل لنچ پر مقدمہ کیا کہ اْ س نے ہمارے ساتھ فراڈ کیا ہے۔ یہ مقدمہ تقریباً دس سال چلتا رہا۔ اِسی سال جون میں سان فرانسسکو کی ایک عدالت نے اْسے فراڈ کے مقدمے میں بری کردِیا اَور کہا کہ مائیکل لنچ نے کوئی فراڈ نہیں کیا تھا۔ چنانچہ مائیکل لنچ نے اِس کشتی میں ایک پارٹی کا اہتمام کیا۔ یہ کشتی اْس کی بیوی کی ملکیت تھی۔ پارٹی میں مائیکل لنچ کے وہ وکیل بھی شامل تھے جنھوں نے اْس کا مقدمہ لڑا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں لنچ کا وکیل اَور اْس کی بیوی، مارگن اسٹینلے انٹرنیشنل بینک کا چیئرمین اَور اْس کی بیوی، لنچ کی اٹھارہ سال کی بیٹی اَور لنچ کا شیف شامل ہیں۔ یہ کشتی 2008ء میں بنی تھی اَور 2020ء میں اِس کو دوبارہ سے تعمیر کیا گیا تھا۔ کشتی کے بادبان کا مستول پچھتر میٹر بلند تھا جو دْنیا کا سب سے بڑا مستول تھا۔ کشتی بنانے والی کمپنی حیران ہے کہ یہ کشتی کیسے ڈوب گئی اَور اِتنی جلدی کیسے ڈْوبی۔ اْس کے نزدِیک یہ ایک انہونی بات ہوئی ہے۔کشتی صبح ہونے سے ذرا پہلے ڈوبی تھی۔
یہ واقعہ بہت کچھ بتاتا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ دْنیا کی کوئی کشتی اَیسی نہیں ہے جو ڈْوب نہ سکتی ہو۔ کسی کشتی یا جہاز کے بارے میں اِس طرح کا دعویٰ کرنا ہی غلط اَور بے وقوفی ہے۔ ٹائی ٹینک کے بارے میں اَیسا ہی دعویٰ کیا گیا تھا۔ اْس کا اَنجام آج تارِیخ کا حصہ ہے۔ قرآنِ حکیم کی سورۃ یاسین کی آیات 41سے 44تک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اِن کے لیے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہم نے اِن کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کردیا۔ اَور پھر اِن کے لیے ویسی ہی کشتیاں اَور پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں۔ ہم چاہیں تو اِن کو غرق کردیں، کوئی اِن کی فریاد سننے والا نہ ہواَور کسی طرح یہ نہ بچائے جاسکیں۔ بس ہماری رحمت ہی ہے جو اِنھیں پار لگاتی اَور ایک خاص وقت تک زِندگی سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیتی ہے۔‘‘یہ آیات صاف بتاتی ہیں کہ کسی بھی جہاز یا کشتی کا صحیح سلامت رہنا محض اللہ تعالیٰ کی رحمت پر منحصر ہے۔ وہ جسے چاہے پار لگادے اَور جسے چاہے ڈبو دے۔ چنانچہ اِنسان کا یہ دعویٰ کہ فلاں بحری جہاز یا کشتی ڈوب ہی نہیں سکتی،محض لاف زنی ہے۔
دْوسری بات یہ کہ اِس بات کا اَندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے کہ فتح کے جشن میں اْس کشتی میں کیا ہورہا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ مائیکل لنچ وہاں بائبل کے درس تو نہیں سن رہا ہوگا۔ اْس کے مہمان بھی اِس کام کیلئے سسلی کے ساحل پر نہیں گئے ہوں گے۔ وہاں شراب، شباب اَور کباب کا دوردورہ ہوگا۔ لوگ اِس طرح کے دعوے کررہے ہوں گے کہ اِس فتح کے بعد مائیکل لنچ کے لیے دْنیا کھل گئی ہے۔ اَب وہ جو چاہے حاصل کرسکتا ہے۔ جیسے چاہے زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھا سکتاہے۔ اِس تمام عیاشی ، مبارک بادوں، دعوؤں اَور مستقبل کی منصوبہ سازی میں خدا کہیں موجود نہیں ہوگا۔
تیسری بات یہ کہ وہی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ اِس طرح کے واقعات گاہے بہ گاہے دْنیا میں وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ اِن کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اِنسانوں کو جھنجھوڑا جائے کہ جاگو، سنبھلو، دیکھو کہ کدھر جارہے ہو۔ تم نے جو خدا کو بالکل ہی فراموش کردیا ہے اْس کا ایک نتیجہ آخرت میں نکلنا ہے۔ لیکن ایک اَور نتیجہ اِس دْنیا میں بھی نکل سکتا ہے۔ دْنیاوی نتیجہ اچانک نکل آتا ہے۔ اَیسے وقت نکلتا ہے جب اِنسان بالکل غافل ہوتا ہے۔ اْس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ کچھ غلط، کچھ بھیانک ہوجائے گا۔ تمام عذاب اَیسے ہی نازل ہوتے ہیں۔ سْورۃ الزمر کی آیت نمبر 55میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اَور پیروی کرو اْس بہترین چیز کی جو تمھاری طرف تمھارے پروردگار کی طرف سے نازل کی گئی ہے، اِس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب نازل ہوجائے اَور تمھیں اِطلاع بھی نہ ہو۔‘‘
چوتھی بات یہ کہ مرنے کے بعد روزِ حساب اَیسے شخص کی کیا صورتِ حال ہوگی۔ اِسی سورۃ الزمر کی آیات 58اَور 59میں اللہ تعالیٰ اْس صورتِ حال کی منظر کشی فرماتا ہے۔ فرمایا ’’یا عذاب کو دیکھ کر کہے ’’کاش! مجھے ایک موقع اَور مل جائے اَور میں بھی نیک عمل کرنے والوں میں شامل ہوجاؤں۔‘‘(اَور اْس وقت اْسے یہ جواب ملے) ’’کیوں نہیں۔ میری آیات تیرے پاس آچکی تھیں۔ پھر تْو نے اْنھیں جھٹلایا اَور تکبر کیا اَور تْو کافروں میں سے تھا۔‘‘گویا اْس وقت اِنسان چاہے گا کہ اْسے کسی طرح ایک موقع اَور دے دِیا جائے، ایک زِندگی اَور مل جائے۔ اَب کی بار وہ بالکل ٹھیک زِندگی بسر کرے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جو نظام بنایا ہے اْ س میں زندگی ایک ہی بار ملتی ہے۔ دْوسری زندگی کا اِس دْنیا میں کوئی تصور نہیں ہے۔
اِنسان یہ باتیں سن لیتا ہے، پڑھ بھی لیتا ہے لیکن اِن کو یاد نہیں رکھتا۔ اگر یاد آجائے تو اْنہیں زبردستی جھٹک کر اَپنے شعور سے نکال دینے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ دْنیا میں مگن رہنا چاہتا ہے۔ وہ یہ بات یاد نہیں کرنا چاہتا کہ ایک دِن مرجانا ہے۔ اگر اْسے کوئی بتائے تو وہ سنی ان سنی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کافر یہ کام کرے تو کسی حد تک سمجھ میں آتا ہے۔ اْس کے نزدِیک تو کوئی خدا ہے اَور نہ ہی روزِ آخرت۔ لیکن اگر مسلمان بھی اِن واقعات کو جان کر نہ چونکے، اْن سے صحیح نتیجے پر نہ پہنچے تو اِس مطلب ہے کہ معاملہ بہت ہی بگڑ چکا ہے۔ وہ مسلمان بھی دْنیا میں پوری طرح ڈوب گیا ہے۔ خدا، آخرت، حساب کتاب، جنت، دوزخ اْس کے شعور سے پھسل کر لاشعور یا شاید تحت الشعور میں چلے گئے ہیں۔ اْس نے اِنہیں تحت الثریٰ سے بھی نیچے پھینکنے کی سعی کی ہے تاکہ اِن کا خیال دْنیا کی زندگی کے رنگ میں بھنگ نہ ڈالے۔ وہ اَپنی دْھن میں مگن زندگی کا مزا لیے جائے اَور کوئی اْسے یاد نہ کرائے کہ میاں کدھر جارہے ہو، سارا سفر تو گھر سے قبرستان تک کا ہے۔ اِس میں تم نے کتنی بھاگ دوڑ کرنی ہے، کتنی دولت اِکٹھی کرنی ہے، کہاں کہاں جائیدادیں بنانی ہیں، کس قدر عیاشی کرلینی ہے۔
یہ وہ شخص ہے جو خود اَپنی کشتی کو ڈْبوتا ہے۔ یہ وہ ملاح ہے جو کسی کو اِلزام نہیں دے سکتا کہ فلاں نے میری ناؤ ڈبوئی تھی۔ جو ملاح خود اَپنی ناؤ ڈبوئے، اْسے کوئی نہیں بچا سکتا۔