آپریشن گولڈ سمتھ

کپل شرما شو عوام میں ایک خصوصی مقبولیت رکھتا ہے، عصرِ حاضر میں جہاں چہار سو ڈپریشن، کم خوابی، اور اعصابی مسائل کا دور دورہ ہے اس میں لبوں پہ بے ساختہ مسکان بکھیرنے والا پروگرام آخر کسے ناپسند ہو سکتا ہے؟ لیکن کیا آپ نے کبھی یہ سوچا کہ ہلکے پھلکے چٹکلوں سے مزین یہ پروگرام کسی انٹرنیشنل لابی یا سازش کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے؟ یقیناً نہیں! آئیے آپ کو سمجھانے کی ایک موہوم سی کوشش کرتے ہیں، گزشتہ روز کپل شرما شو کی ایک قسط آن ائیر ہوئی جس میں بالی وڈ اداکار عامر خان بطور مہمان شریک ہوتے ہیں، بظاہر تو یہ ایک روٹین کی قسط ہی نظر آتی ہے، لیکن یہ خاص اس لحاظ سے بھی ہے کہ اول تو عامر خان عموماً کسی پروگرام میں مہمان نہیں جاتے اور دوسرا ان کی گفتگو ‘‘آپریشن گولڈ سمتھ’’ کی ایک عملی تصویر تھی۔ کپل سوال داغتے ہیں کہ آپ کسی ایونٹ میں شرکت نہیں کرتے تو آخر گھر پہ کرتے کیا رہتے ہیں؟ جس کے جواب میں عامر کہتے ہیں کہ میں یا کتابیں پڑھتا ہوں یا عمران خان کی تقاریر سنتا ہوں، میں عمران خان کی شخصیت اور جدوجہد سے بہت متاثر ہوں۔ اب بظاہر ایک اداکار ایک ہمسایہ ملک کے ایک سیاستدان کی شخصیت کے حوالے سے اظہارِ خیال کر رہا ہے لیکن در حقیقت یہ ایک پلان کے تحت کی جانے والی ففتھ جنریشن وار کا ایک حربہ ہے۔ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور انتشار پھیلانے کے اس مشن پر ایک یہودی لابی درپے ہے، جس کا مقصد ڈیجیٹل ٹیررزم پھیلانا ہے۔ یہ لابی انواع و اقسام کے ہتھکنڈے اپنا کر عوام کو مشتعل کرنے میں مگن ہے۔ اور یہ لابی آجکل کی نہیں ہے،یہ تو غالباً اس تحریک کی دوسری قسط ہے، پہلی قسط کا سکرپٹ برسوں پہلے ترتیب دیا گیا اور اس پہ من و عن عمل درآمد بھی ہوا۔ یہودی صیہونی حکمت عملی پہ قلمی جہاد کرنے والے شاید پہلے مجاہد سابق گورنر سندھ اور ہمدرد یونیورسٹی کے بانی حکیم محمد سعید شہید ہیں، جنہوں نے اپنی کتاب ’’جاپان کی کہانی‘‘ کے صفحہ نمبر تیرہ پہ لکھا کہ ’’بیرونی قوتوں نے ایک سابق کرکٹر عمران خان کا انتخاب کیا ہے ، یہودی میڈیا نے عمران خان کی پبلسٹی شروع کر دی ہے، سی این این اور بی بی سی عمران خان کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں، پاکستانی میڈیا کو کروڑوں روپے دیئے جا چکے ہیں، ایک یہودی خاتون جمائما گولڈ سمتھ (جس کے والد ایک ارب پتی یہودی ہیں )عمران خان کی دلہن بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں ‘‘۔

اب آتے ہیں اس تحریک کی دوسری اور موجودہ قسط کی طرف، جب سے عمران خان کی حکومت کا تختہ الٹا گیا ہے تب سے مغربی میڈیا اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ثابت کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہا ہے، کپل شرما کا شو بھی شاید اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ پہلے روشنی ڈالتے ہیں اس تحریک کے چند ایک اقدام پر اور اس کے بعد انسانی حقوق کی پامالی پہ سوال اٹھائیں گے کہ فلسطین میں بے گناہ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ پھینکنے والے یہودی کس ڈھٹائی، بے شرمی اور دیدہ دلیری سے انسانی حقوق کی بات کر کے مالک کا عرش ہلا رہے ہیں۔ یکم اگست کو نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والا آرٹیکل اور بین الاقوامی جریدوں میں 130 سے زائد پاکستان کی سیاسی صورتحال پر تجزئیے گولڈ اسمتھ آپریشن کا ایک اہم جزو ہیں۔ یہ بات تشویش ناک ہے کہ سال 2024 کے پہلے سات مہینوں میں بڑے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں کم و بیش 130 پاکستان مخالف مضامین شائع ہوچکے ہیں۔بی بی سی نے 13، نیویارک ٹائمز نے 13، دی گارڈین نے 10، الجزیرہ نے 8 اور واشنگٹن پوسٹ، بلومبرگ اور فنانس ٹائمز نے 6 انتشاری مضامین شائع کیے جس کا مقصد پاکستان کی ریاست کو انسانی حقوق کی پامالی کرنے والی آمریت کا تصور پیش کرنا ہے تاکہ اس ملک کے ٹکڑے کر سکے۔ پی ٹی آئی رہنما کے حق میں متعدد مضامین، ٹویٹس اور انسانی حقوق، آزادی اظہار اور سیاست کی آزادی کے بار بار دہرائے جانے والے حوالہ جات اس بات کی دلیل ہیں کہ یہودی لابی اپنے انسانی حقوق کا کارڈ استعمال کر کے بیرونی میڈیا کے تحت عمران خان کو معصوم ٹھہرانے کے در پے ہے۔ میرا سوال اس تحریر کے ہر ایک معزز قاری سے ہے کہ کیا ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی عورتوں بچوں بوڑھوں کی لاشوں کو عمارتوں کے مسمار ڈھیر پہ روندنے والے یہودیوں کو انسانی حقوق کا ڈھول پیٹنا زیب دیتا ہے؟ اور کیا ہمارے عوام درحقیقت اتنے احمق ہیں کہ اسے جس ڈگر پہ چلا دیا جائے وہ اسی پہ چل نکلے؟ اور کیا ہمیں زیب دیتا ہے کہ ہم اپنے اداروں پہ کیچڑ اچھالیں؟ اپنی افواج کو گالیاں دیں؟ اپنی املاک کو نقصان پہنچائیں، ہم ایک ایسے فتنے کی خاطر اپنے ہی گھر میں آگ لگانے پر تلے ہیں جس کے مقاصد مذموم، فنڈنگ بیرونی اور امداد یہودی ہے۔ بہت آسان ہے وٹس ایپ کی ڈی پی پر فلسطین کا جھنڈہ لگانا، اس پر آشوب دور میں بہت مشکل ہے اپنے حقیقی دشمن کو پہچاننا، آپ کو میرے الفاظ سے میری تحریر سے اتفاق نہیں؟ نہ کیجیے، جا کر تاریخ کے پنے کھولیے اور حکیم صاحب کی کتاب تلاش کیجیے، پھر ان کے قاتل تلاش کیجیے، ارے حکیم صاحب چھوڑیئے آپ ذرا یہ دیکھیے کہ ادھر قندیل بلوچ عمران خان کے چند حقائق افشا کرنے کی بات کرتی ہے اْدھر اس کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ ہم سب ایک اتنی بڑی سازش کے اس غیر محسوس طریقے سے شکار ہوئے ہیں کہ شاید ہم خود سمجھنے سے قاصر ہیں، کہاں میرے بچپن میں سکول سے واپسی پر فوج کی گزرتی گاڑی کو دیکھ کر بہت عقیدت اور محبت سے سلیوٹ کیا کرتے تھے اور کجا یہ عالم کہ سرحدوں پہ، سنگلاخ چٹانوں پہ، چوکیوں پہ جان کے نذرانے پیش کرتے جوانوں کی یادگارِ شہدا کے تقدس کو پامال کرتے جنونی پاکستانی جو خود کو محبِ وطن کہنے کی جرأت رکھتے ہیں۔