بلوچستان… اصل مسئلہ کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کو قدرتی وسائل سے نواز رکھا ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال یہ صوبہ ملکی معیشت کی شہ رگ بن سکتا ہے لیکن غیر ملکی عناصر کی چیرہ دستیوں کے سبب کئی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ ان غیر ملکی عناصر کی دہشت گردانہ سرگرمیوں نے جہاں صوبے کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکائے وہاں صوبے کی اصل طاقت وہاں کی نوجوان نسل کو گمراہی کا شکار بنانے کا بھی پورا پورا بندوبست کر رکھا ہے۔ان حالات میں افواج پاکستان اندرونی وبیرونی سلامتی کو ہر قیمت پر یقینی بنانے کے عزم کے ساتھ گامز ن ہیں ‘ وہ دشوار راستوں اور کٹھن حالات میں نہ صرف اپنے معمول کے فرائض انجام دے رہی ہیں بلکہ وہاں ترقیاتی پروگراموں میں بھی پیش پیش ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ سیاسی وعسکری قیادت بلوچستان کے مسائل حل کرنے کیلئے پرعزم ہے۔ یقیناًاس کیلئے ماضی میں الجھنے کی بجائے مستقبل کی طرف دیکھنا چاہئے کیونکہ سب ملکر چلیں گے تو ابھرتے ہوئے بلوچستان کے ثمرات جلد حاصل کرسکتے ہیں۔بدقسمتی سے ماضی میں ہمارے چند حکمرانوں نے اس صوبہ کی تعمیر وترقی پر کچھ خاص توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے وہاں احساس محرومی نے جنم لینا شروع کیا ۔

تحریک آزادی میں بلوچستان کا کردار پاکستان کے کسی بھی دوسرے خطے سے کم نہیں ہے۔ بلوچستان کے لوگ پاکستان سے والہانہ محبت کرتے ہیں اور اس ضمن میں کسی مصلحت کو خاطر میں نہیں لاتے۔ حصولِ پاکستان کیلئے بلوچستان کے عوام اور مشاہیر کی خدمات نے تاریخ پر انمٹ نقوش ثبت کئے ۔ بلوچستان کے عوام لیاقت و قابلیت‘ مہمان نوازی‘ جفا کشی اور فیصلہ سازی میں کسی بھی دوسرے صوبے کے عوام سے ہرگز کم نہیں تاہم انہیں مواقع اور وسائل کی کمی کا سامنا رہا ہے جس کی بناء پر قومی منظر نامے پر وہ زیادہ نمایاں نہیں ہوسکے۔ اگر انہیں وسائل میسر آجائیں تو وہ کسی میدان میں بھی پیچھے نہ رہیں گے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوا کر رہیں گے۔ تقسیم ہند کے وقت قلات‘لسبیلہ اور مکران کے حکمرانوں نے انگریز حکومت کی طرف
سے آزاد رہنے کی پیش کش کو اپنے پائوں کی ٹھوکر مار دی اور قائداعظم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پاکستان سے الحاق کرلیا۔ قائداعظمؒ جب خان آف قلات سے ملنے گئے تو خان معظم نے انہیں سونے میں اور مادرِ ملت کو چاندی میں تولا اور اپنی ریاست کے وسائل اور فوج کو قائداعظم کے استعمال میں دینے کی پیش کش کی۔ اگرچہ بلوچستان میں مختلف ادوار میں مختلف تحریکیں چلتی رہی ہیں تاہم پاکستان سے محبت اور عقیدت رکھنے والے لوگ ہمیشہ سر بلند رہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔

یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ بھارت نے قیام پاکستان کے وقت سے ہی سازشیں شروع کررکھی ہیںاور وہ ہمیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ وہ ایک سازش کے تحت بلوچستان میں حالات خراب کروا تارہا ہے ‘ بلوچستان اور کراچی کو غیر مستحکم کرنا بھارت کے ایجنڈے کا حصہ رہا ہے۔ چند برس قبل کلبھوشن یادیو نیٹ ورک کا پکڑے جانا بھارتی مداخلت کی واضح دلیل تھا۔ موجودہ حالات کے تناظر میں قوم کے سامنے بلوچستان کے حالات کی صحیح تصویر کشی کرنا از حد ضروری ہے۔ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ دشمن کا کام ہی پراپیگنڈہ کرنا ہے اور وہ میڈیا کے ذریعے بے بنیاد اور منفی الزامات لگا رہا ہے۔ مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے کچھ اینکر پرسن اور تجزیہ نگار جو نہ کبھی بلوچستان گئے اور نہ ہی ان کا وہاں کے مقامی افراد سے کوئی رابطہ ہے وہ بھی اس پراپیگنڈہ کا حصہ بن رہے ہیں اور حالات کی صحیح تصویر کشی نہیں کررہے ہیں ۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان کی مثبت باتوں کو قوم کے سامنے اجاگر کیا جائے۔ میں نے چند برس قبل بلوچستان کے حالات جاننے کیلئے وہاں کا تفصیلی وزٹ کیا تو معلوم ہوا کہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں جو بیان کیے جاتے ہیں۔ بلوچستان کے نوجوان بھی اتنے ہی محب وطن ہیں جتنے پاکستان کے دوسرے حصوں کے نوجوان ہیں ۔ایک طرف ہم نے بلوچستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقاتیں کیں وہیں بلوچستان کے اہل علم و دانش، صحافیوں اور نوجوانوںسے بھی ملاقات کی ۔ ایک بات جس نے پریشان کیا وہ یہ تھا کہ وہاں کی سیاسی جماعتوں کے علاوہ عوام بھی میڈیا کے کردار سے نالاں نظر آئے۔ان کا کہنا تھا ہمارے صوبہ کی خبروں کو زیادہ کوریج نہیں دی جاتی ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس صوبے میں میڈیا کو موثر بنانے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی‘ یہی وجہ ہے کہ وہاں اپنی من مانیاں کی جا رہی ہیں اور حقائق کو عوام کے سامنے نہیں آنے دیا جا رہا ہے۔ سب سے اہم ترین نقطہ یہ ہے کہ بلوچستان کے سنجیدہ معاملات سے میڈیا کا کوئی خاص تعلق نظر نہیں آ رہا اور شاید میڈیا کو اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے سب سے اہم کردار کارپوریٹ میڈیا اور اس کے اخبارات کا ہے ۔ کارپوریٹ میڈیا کو دولت کمانے سے مطلب ہے‘ انہیں معلوم ہے کہ بلوچستان ایک پسماندہ صوبہ ہے اور وہاںنجی شعبہ میں اشتہارات نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ سرکاری اشتہارات بھی زیادہ نہیں ہیں لہٰذا وہ اپنے مالی معاملات کو دیکھتے ہوئے اس طرف توجہ نہیں دیتے ۔ میڈیا کے مخصوص حصہ نے بلوچستان کی لیڈر شپ کوصرف بلوچستان کی حدتک محدود کردیا ہے یوں ان کو بلوچستان سے باہر کم ہی لوگ جانتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ مقامی میڈیا کو بھی مضبوط بنایا جائے بعض اوقات ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر قربان کردینا چاہئے اور یہی آج کا تقاضا ہے کہ بلوچستان میں مالی مفادات کی پراہ کیے بغیر میڈیا اپنا کردار ادا کرے۔

گزشتہ سے پیوستہ: میں نے پچھلے کالم میں اپنے وادیٔ کاغان کے سفرکاکچھ احوال بیان کیا تھا۔ اس یادگار سفر میں محمد سیف اللہ چوہدری‘ نوید انور‘ ظہیر احمد‘ شہزاد یٰسین ‘ ڈاکٹر عبدالجبار قمر‘ عدنان اشرف‘ رانا وقار‘ محمد فاروق‘ عباس علی‘ محمد بلال ساحل‘ شان اورعباس ڈرائیور میرے ہمراہ تھے۔ دوستوں کے اصرار پر وادیٔ ناران میں میری سالگرہ کی تقریب کا انعقاد کیا گیا جہاں باربی کیو پارٹی کے علاوہ مقامی بیکری میں کیک کاٹنے کی رسم بھی ادا کی گئی۔ اس سفر میں رانا وقار نے شاپنگ کرنے میں دوستوں کی خاطر خواہ مدد کی ۔ سفر کی خاص بات مقامی طور پر تیار کیے گئے شہد کی خرید کا تھا جو ایک منفرد اور دلچسپ تجربہ رہا‘ایک ہی قسم کا شہدایک ہی بازار میں ہمیں مختلف قیمتوں میں ملتا رہا جس نے شہد کی افادیت پر سوالیہ نشان بھی چھوڑا۔ بہر حال یہ سفر کئی حوالوں سے یادگار رہا۔