نعمت اور شکرانِ نعمت

ہر وہ شے نعمت ہے جس کا ہم استحقاق نہیں رکھتے … اور سچ پوچھیں تو ہماری زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنے امکانات اور مناظر سمیت ایک نعمتِ گراں مایہ ہے۔ ہماری زندگی کا کون سا ایسا شعبہ ہے جو ہمارے استحقاق کی زد میں ہے؟ زندگی کے بارے میں سوال کرنے سے پہلے ہمیں خود سے یہ پوچھنا چاہیے کہ آخر ہمارا کیا استحقاق تھا کہ ہمیں پیدا کیا جاتا۔ ہم نے یہ زندگی اپنے لیے خود طلب نہیں کی اور نہ ہی اِس کی ترتیب اپنے لیے خود تجویز کی ہے۔ اگر زندگی کا آغاز اور انجام ہماری استعداد اور استحقاق سے وَرا ہے تو آغاز اور انجام کے اِن دو نقاط کے درمیان میسر آنے والے لمحات کس حد تک ہمارے استحقاق کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔

زندگی ایک نعمت ہے … اور اس میں میسر آنے والے امکانات اپنے واقعات اور افراد سمیت نعمتوں کا بے بہا خزینہ ہیں۔ بس صرف یہ کہ ہم ان نعمتوں کی پہچان سے عاجز رہ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری زندگی میں تقاضا اور گلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ تقاضا اور گِلہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ تقاضا پورا نہ ہونے کی صورت میں گلہ پیدا ہوتا ہے۔ عجیب بات ہے، گلہ پیدا ہو جائے اور پھر اس گلے کا اظہار بھی ہو جائے، تو بھی تقاضا پورا نہیں ہوتا۔ شکایت کرنے سے شکایت دور نہیں ہوتی۔ شکایت صرف سننے سے دور ہوتی ہے۔

نعت کا عرفان نہ ہوتو نعمت ایک زحمت ہے … اور نعمت کا عرفان منعم کے عرفان سے وابستہ ہے۔ جب ہم بحیثیت مخلوق زندگی کو خالق کا احسان مان لیتے ہیں تو گلے اور تقاضے کے شور شرابے سے نکل جاتے ہیں۔ ہم دل کی گہرائیوں سے الحمدللہ کہتے ہیں اور نعمتیں دینے والی ذات سے قلبی طور پر وابستہ ہو جاتے ہیں۔ یوں تو ہر سجدہ ساجد کو مسجود کے قریب کرتا ہے، لیکن سجدہِ شکر شاید اقرب ترین سجدوں میں سے ہے۔
ہماری زندگی قدم قدم پر نعمتوں سے عبارت ہے۔ ماں باپ، نعمت … اولاد، نعمت … بہن بھائی، نعمت … خاندان، نعمت … اساتذہ، نعمت … اور پھر مرشد، نعمت ِ عظمیٰ! والدین ہمارے نزول کا سبب ہیں … ہمارے وجود ایسے آسمانی تحفے کو زمین پر لاتے ہیں، تو مرشد و اساتذہ ہمارے خیال کو زمین سے اٹھا کر آسمان تک لے جاتے ہیں۔ مرشد وہی ہے جو ہماری زمینِ وجود کو آسمانِ خیال کی آغوش میں لے جا کر سپردِ پَروردِگار کرتا ہے۔ صحت اور فرصت یہ بھی دو ایسی نعمتیں ہیں، کہ اَز روئے حدیث، اکثرلوگ اِن سے غافل ہیں۔

ہر نعمت ایک تقاضا کرتی ہے۔ ہم اِس نعمت کے تقاضے پورے کرنے کے بجائے اپنی خواہش کے زیرِ اثر پیدا ہونے والے تقاضوں پر نظر رکھتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ زندگی کا اصل منظر دھندلا جاتا ہے۔ زندگی آؤٹ آف فوکس ہو جاتی ہے۔ ایسے میں چھوٹی چیز بڑی دکھائی دیتی ہے اور بڑی چیز چھوٹی نظر آنے لگتی ہے۔ طاقت میں گرانڈیل ہاتھی کے ساتھ بھی یہی سانحہ پیش آتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہاتھی کی آنکھ کی بناوٹ کچھ ایسی ہوتی ہے کہ اسے چھوٹی چیزیں بہت بڑی دکھائی دیتی ہیں، چنانچہ ہاتھی ایک کمزور اور مریل مہاوت کے سامنے آنکھ تو کیا سونڈ بھی نہیں اٹھا سکتا۔ یہی حال ہمارا ہے۔ ہمارے زاویہِ نظر میں کچھ ایسی ٹیڑھ پیدا ہو جاتی ہے کہ یہ چھوٹی سی دنیا ہمیں اتنی بڑی دکھائی دیتی ہے کہ ہم بے چون و چرا اِس کا ہر حکم ماننے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ دنیاوی تقاضوں کے سامنے حرفِ انکار کی جرأت نہیں کر پاتے۔ دوسری طرف دین کے احکامات ہمیں چھوٹے دکھائی دیتے ہیں۔ زندگی کی مختصر مہلت ہمیں طویل لگتی ہے اور مابعد ہمیں قریب کے بجائے کوئی دور کی چیز معلوم ہوتی ہے۔
نعمت کی پہچان منعم کی پہچان سے مشروط ہے۔ نعمتیں دینے والی رب کی ذات ہے۔ رب کی پہچان عام نہیں، کہ معرفت ایک شاہراہِ عام نہیں۔ اس لیے زندگی کے سفر میں اکثر لوگ نعمتوں کا شکر ادا نہیں کر پاتے۔ رب پالنے والی ذات ہے۔ پالنے والی ذات ہمیں نعمتوں کے پالنے میں پالتی ہے۔ رب کی پہچان اپنے نفس کی پہچان سے مشروط ہے اور اپنے نفس کی پہچان نفس کے تزکیے سے مشروط … یہ کام آسان کہاں! اصل کام ہی تزکیہ نفس ہے … یہ کام ہو گیا تو سمجھیں سب کام ہو گئے۔ اس کام سے اگر رہ گئے تو گویا دین کے ہر کام سے رہ گئے۔ تزکیہِ نفس کے بغیر نماز ریاکاری تک، زکوٰۃ غریبوں کو امیروں کے دَر پر، سال بہ سال در بدر کرنے کے ڈھونگ تک، سفرِ حج تجارت اور سیاحت تک … اور روزے محض سحر و افطار کی دعوتوں تک محدود ہو جاتے ہیں۔
تزکیہِ نفس کے راستے سے جب اپنے نفس اور اپنے رب کی پہچان ہوتی ہے تو اپنے اردگرد پھیلی ہوئی ان گنت نعمتوں کا شمار خانہ ِ شعور میں آنے لگتا ہے۔ قرآن میں ہے کہ اگر تم اپنے رب کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکو گے۔ بس! یہیں سے وہ عاجزی جنم لیتی ہے جو انسان کی پیشانی کو کسی سجدہ گاہ سے آشنا کرتی ہے۔ احساسِ نارسائی میں اک لذتِ آشنائی ہے۔ اے مالک! ہمارا وجود سرتا پا تیری نعمتوں میں ڈوب گیا، لیکن ہمارا دل غفلت میں ڈوبا رہا۔ ہم تیری نعمتوں کا شکر ادا نہیں کر سکے۔ تو ہمیں معاف فرما! ہمیں اپنی نعمتوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرما! قدر کرنا ہی شکر کرنا ہے۔
ہر نعمت شکر کا تقاضا کرتی ہے۔ ہر شکر کی ایک عملی صورت ہوتی ہے۔ صبر کی صورت بھی عملی ہوتی ہے۔ محض زبان ہلا دینے سے شکر کے تقاضے پورے ہوتے ہیں، نہ صبر کے! صبر کے تقاضے یہ ہیں کہ طاقت کے باوجود انتقام نہ لیا جائے۔ معاف کرنے والا دراصل صبر کرنے والا ہوتا ہے۔ صبر کے تقاضوں میں شامل ہے کہ زخمی ہونے کے باوجود بدعا نہ دی جائے۔ صبر میں یہ بھی شامل ہے کہ ناپسندیدہ افراد کو خارج از دفتر نہ کیا جائے … اور بلاشبہ صبر کرنے والے تقاضا اور گلہ کرنے والے نہیں ہوتے۔ اسی طرح شکر کرنے کے بھی کچھ عملی تقاضے ہیں۔ ہر نعمت کا شکر الگ ہے۔ زبان ایسی نعمت کا شکر یہ ہے کہ زبان کو ذکر سے تر رکھا جائے۔ آنکھ کو بھی تر ہی رہنا چاہیے۔ خشک آنکھ وہ منظر دیکھ ہی نہیں سکتی جو چشمِ تر کا مقدر ہے۔ شکر کرنے والا ہی قدر کرنے والا ہوتا ہے۔ فرصت ایسی نعمت کی قدر یہ ہے کہ اسے لہو و لعب لغویات میں ضائع نہ کیا جائے۔ صحت کی حالت کا شکر، یہ ہے کہ اس کے ساتھ بدنی عبادات کے لیے قیام کیا جائے۔ والدین ایسی نعمت بے بہا کا شکر، یہ ہے کہ ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا جائے۔ اولاد کا شکر، یہ ہے کہ ان کے شفقت کا برتاؤ کیا جائے، ان کی تربیت اس طرح کی جائے کہ یہ اچھے انسان اور اچھے مسلمان بن سکیں۔ بہن بھائیوں ایسی نعمت کا شکر، یہ ہے کہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے، ان کی نامہربانیوں کے جواب میں مہربانی کا دسترخوان دراز کیا جائے، ان کے ساتھ کسی بھی صورت قطع تعلق نہ کیا جائے۔ دولت کا شکر لامحالہ یہی ہے کہ اسے غریبوں کے لیے صرف کیا جائے، اس کی ناشکری یہ ہے کہ اس کے ذریعے خواہشات ِ نفس کی تکمیل کی جائے۔ دراصل کسی نعمت کا شکر یہی ہے کہ اسے نعمت دینے والی ذات کی منشا کے مطابق استعمال کیا جائے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا ایک قولِ زرّیں ہے: ’’نعمت کا شکر، یہ ہے کہ اسے ان کی خدمت میں صَرف کیا جائے جن کے پاس وہ نعمت نہیں‘‘۔ اساتذہ اور مرشدین ایسی نعمتوں کا شکر، یہ ہے کہ ان کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل پیرا ہوا جائے۔ وہ اپنے شاگرد اور مرید کو جیسا دیکھنا چاہتے ہیں، ویسا ہی بننے کی کوشش کی جائے۔ سب سے بڑی نعمت ایمان کی دولت ہے اور اِس کا شکر، یہ ہے کہ اعمالِ صالحہ کی صورت میں اِس کی تصدیق کی جائے۔ رحمت للعالمینؐ کی امّت میں پیدا کیے جانا، ایک گراں قدر نعمت ہے جس کیلئے گزشتہ اُمتّوں کے انبیاء و اوصیاء رشک کیا کرتے، اس نعمتِ غیر مترقبہ کا حقیقی اور عملی شکر، یہ ہے کہ کردار و اخلاقِ محمدیؐ کا اتباع کیا جائے۔ رسولِ کریمؐ کی شان میں کلام کہا جائے۔ نعت کہنا تحدیثِ نعمت ہے۔

شکر سے انکار کفر ہے۔ شکرانِ نعمت کے برعکس لفظ اور رویہ کفرانِ نعمت کہلاتا ہے۔ شکر اور شکریے سے محروم انسان کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ بندوں کا شکریہ ، اور اللہ کا شکر … ہر حال میں جاری رہنا چاہیے تاکہ نعمتیں محفوظ رہیں۔ بہرحال سجدہ ِسہو سے کہیں بہتر سجدہِ شکر ہے۔