محاذ آرائی کی سیاست اور قومی سلامتی

حکومت اس وقت تین محاذوں پر لڑ رہی ہے اور ہر محاذ اتنا اہم ہے کہ اس میں ذرا سی غلطی کسی سیکنڈ چانس کی متحمل نہیں ہو سکتی بالکل اسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ والا ماحول ہے جہاں ہر وقت یہی لگتا ہے کہ اگلے چند گھنٹے نہایت اہم ہیں بقاء کی اس جنگ میں بعض دفعہ تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت خود اپنے آپ سے بر سر پیکار ہے۔ یہ تین محاذ قومی سلامتی ، قومی معیشت اور قومی سیاست ہے اور ان میں سے کسی میں بھی ایسا کوئی اشارہ نہیں مل رہا کہ حکمرانی کا پلہ بھاری ہے۔

دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور شہادتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر بھی تشویش کا گراف وہ نہیں جو ہونا چاہیے۔ جولائی میں دہشت گردی کے 38 واقعات ہوئے جبکہ اگست میں یہ تعداد 59 تک پہنچ گئی۔ 10 اگست کو بلوچستان میں serial killings کے منظم واقعات ہوئے اسے بلوچستان کا ’اے پی ایس‘ کہا جا رہا ہے۔ واقعہ سے اگلے دن وزیر دفاع نے بیان جاری کر دیا کہ یہ انڈیا نے کروایا ہے لیکن بیان اتنا مدہم تھا کہ نہ تو وزیراعظم نے اس کی تائید کی اور نہ ہی سفارتی سطح پر اسے آگے بڑھایا گیا اور اس واقعہ کے اتنے دن گزر جانے کے بعد نہ ہی ابھی تک تحقیقاتی رپورٹ جاری کی گئی جس میں انڈیا اور افغانستان پر ثابت کیا جاتا۔ رواں ماہ کے آخر میں اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف شرکت کے لیے جا رہے ہیں وہاں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے خطاب کے بعد شہباز شریف کی تقریر طے شدہ ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم کے پاس یہ موقع ہو گا کہ وہ مودی کی تقریر کے نکات کا جواب دے سکیں۔ میرا نہیں خیال کہ شہباز شریف وہاں یہ کہہ پائیں گے کہ انڈیا بی ایل ایف کی فنڈنگ بند کرے بلکہ یوں لگتا ہے کہ بیک چینل ڈپلومیسی میں دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کے عمل کی بحالی کی کوشش ہو رہی ہے گزشتہ ہفتے نریندر مودی نے اپنے پولینڈ کے دورے سے واپسی پر پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے 46 منٹ تک پرواز کی۔ لیکن انہوں نے سفارتی آداب کے بر خلاف پاکستان کے لیے خیر سگالی کا پیغام نہیں دیا۔ یہ آپس کی بات ہے کہ انڈیا کے زرمبادلہ ذخائر اس وقت 618 بلین ڈالر جبکہ پاکستان کے محض 14 بلین ڈالر ہیں اور وہ 14 بلین میں بھی سعودی زر ضمانت شامل ہے۔آپ قومی اور علاقائی سلامتی کے لیے انڈیا سے مذاکرات ضرور کریں لیکن افغانستان کی اسلامی امارات یعنی طالبان کی حکومت اگر دل سے چاہے تو پاکستان میں دہشت گردی رک سکتی ہے اس سے پہلے TTP اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کے عرصہ میں دہشت گردی رک گئی تھی۔ ہمارے پاس مولانا فضل الرحمان ایسی سیاسی شخصیت ہے جن پر افغان حکومت اعتماد کر سکتی ہے وہ اس سے پہلے بھی ایسی سفارتکاری کا حصہ رہے ہیں امن کی تلاش میں مولانا صاحب کو اس میں کردار دیا جا سکتا ہے لیکین اس میں سیاست حائل ہے کیونکہ مولانا فضل الرحمان ان انتخابات کے نتائج کو نہیں مانتے۔ سیاسی طور پر ملک میں اتفاق رائے کی ضرورت ہے جس کے لیے تمام فریقین سے ڈائیلاگ ہونے چاہیے مگر جب بھی ڈائیلاگ کی بات ہوتی ہے حکمران ن لیگ اس کی سب سے زیادہ مخالفت کرتی ہے۔ وہ اپوزیشن سے ڈائیلاگ کر کے اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگتے ہیں کیونکہ بات نئے انتخابات کی طرف نکل جاتی ہے جو ن لیگی قیادت کے لیے قطعاً ناقابل قبول ہے۔

اگر عوام کو دیکھیں تو سب سے بڑا مسئلہ بجلی کے بل ہیں جن کی ادائیگی نہ کرنے پر خودکشیوں کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ حکومت نے اس کے حل کے لیے ایک ایسی تدبیر نکالی جس سے خود ان کے اپنے اتحادی بشمول پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم ان کے خلاف صف آرا ہو گئے بجائے اس کے کہ وفاقی سطح پر بلوں میں سے ناجائز ٹیکس ختم کیے جاتے ن لیگ نے وفاق کے ساتھ ملی بھگت کر کے صرف پنجاب میں دو مہینے کے لیے 14 روپے یونٹ بجلی سستی کر کے اپنے آپ کو نشان حیدر کا مستحق بنانے کی کوشش کی۔ یہ تیر الٹا چل گیا۔ اتحادی جماعتیں ناراض ہو گئیں۔ دیگر صوبے پنجاب کے خلاف صف آراء ہو گئے اور 45 ارب روپے کی فلیٹ سبسڈی پر آئی ایم ایف جو پہلے قرضے کی منظوری دے چکی تھی اسے انہوںنے التوا میں ڈال دیا اور اب نئی شرائط لاگو کر دی ہیں جن میں بات منی بجٹ کی طرف جا رہی ہے کہ مزید ٹیکس لگائے جائیں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ایف بی آر نے نئے مالی سال کے پہلے دو مہینوں میں ٹیکس ہدف پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

ایک دلچسپ اور سنسنی خیز بات یہ دیکھنے میں آئی کہ میاں مجتبیٰ شجاع الرحمان جو پنجاب کے وزیر خزانہ اور پیدائشی مسلم لیگی ہیں بجلی کے بلوں کے معاملے پر ان کے مریم نواز سے اختلافات پیدا ہو گئے ہیں انہوںنے اپنے بیان میں کہہ دیا کہ سبسڈی دراصل 45 ارب نہیں بلکہ 90 ارب کی ہے جس میں 45 ارب پنجاب نے دینا ہے اور 45 ارب وفاقی دے رہا ہے۔ گویا یہ اعتراف تھا کہ وفاق باقی صوبوں سے چوری چوری پنجاب کو اتنا بڑا فنڈ کیوں دے رہا ہے آئی ایم ایف جو کہ پاکستان میں ہونے والی ہر آہٹ پر چونک جاتا ہے وہاں بھی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے اپنی اگلی کیبنٹ میٹنگ میں مجتبیٰ شجاع الرحمان کو شرکت سے روک دیا۔ دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔
اس سارے معاملے میں ایک بات واضح ہے کہ ن لیگ جسے شروع ہی سے جی ٹی روڈ کی پارٹی کہا جاتا ہے اس کا سارا فوکس پنجاب پر ہے انہیں پتہ ہے کہ 60 فیصد آبادی کا یہ صوبہ ہی وفاق کی حکومت کا فیصلہ کرتا ہے۔ انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ عرصۂ دراز سے پختونخوا اور سندھ بالترتیب پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے پاس ہیں۔ جبکہ بلوچستان ہمیشہ وفاقی حکومت جس کی ہو اس کے ساتھ ہے۔ ن لیگ کو پی ٹی آئی سے سب سے بڑا چیلنج ہی یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے ن لیگ کی BreadBasket جہاں ان کی سیاست کی دال روٹی چلتی ہے اسے خطرے میں ڈال دیا ہے۔ باقی جو سیاسی محاذوں پر ہر روز نیا ایشو کھڑا ہوتا ہے وہ صرف عوام کی توجہ حقائق سے ہٹانے کے لیے کیا جاتا ہے جیسا کہ آج کل چیف جسٹس کی ایکسٹینشن اور ججوں کی تعداد بڑھانے جیسے ایشو دانستہ لانچ کر دیے گئے ہیں۔