ہمارے موجودہ سپہ سالار عوام کی امیدوں کا محور ہیں۔ میں نے ان پر عاشق قرآن سپہ سالار کالم بھی لکھا اور ولاگ بھی کئے۔ میرے جاننے والے جانتے ہیں کہ میں اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں کردار کا ہمیشہ ناقد رہا ہوں۔ 22 سالہ وکیل تھا اور ضیاء الحق کے تاریک دور کے خلاف جمہوریت کی بحالی کے لیے ایم آر ڈی گوجرانوالہ کا کنوینر تھا۔ جس طرح عدلیہ میں بگاڑ اور تنزلی کی موجودہ صورتحال میں عدلیہ کے وقار کی بحالی کی ذمہ داری جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جبکہ ہماری چند عسکری قیادتوں کی غلطیوں سے ہونے والے نقصان کے ازالے کا بیڑا سپہ سالار نے اٹھایا ہے، اسی طرح ایف بی آر اور کسٹم انٹیلی جنس کے بگاڑ کے ازالے کیلئے ممبر کسٹم، ڈی جی انٹیلی جنس اور ڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس لاہور کوشاں ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ وطن عزیز کی دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی کے اندر ایک متوازی نظام نے ملک کا بہت نقصان کیا ہے اور مذموم حرکات میں ملوث دھر لئے گئے ہیں مزید بھی دھرے جا رہے ہیں۔ دراصل یہ سب کے سامنے تھا اب اس کا تدارک کرکے Document کیا جا رہا ہے یعنی بات اب زبانی نہیں لکھی پڑھی ہونے جا رہی ہے۔ پاک فوج میں ایک خودکار نظام موجود ہے جو کسی خطرے میں خودبخود حرکت میں آ جایا کرتا ہے لیکن اگر ملوث لوگ انتہائی اہم ذمہ داری پر ہوں تو پھر وقت ضرور لگتا ہے۔ میرا موضوع دراصل یہ تھا کہ یہی صورتحال تمام سول اداروں میں بھی ہے۔ جیسے جیل خانہ جات کے افسران بھی اور کچھ بیوروکریسی کے لوگ، چند عاقبت نااندیش سیاست دان اور ریٹنگ کے شوقین تجزیہ کار بھی ہیں۔ عنان اقتدار جن میں سپہ سالار، چیف جسٹس آف پاکستان اور وزیراعظم شامل ہیں، آج میرا مخاطب ہیں۔ ہمارے سپہ سالار کی خاموشی بھی بولتی ہے اور اشارہ پورا پیراگراف لکھ دیتا ہے۔ ایک ویڈیو کلپ میں ایک شہید کی بیٹی ان کے پاس ایک وڈیرے کی شکایت لے کر آتی ہے اور سپہ سالار کا چار حروف کا پیغام احساس دلاتا ہے کہ کوئی ہے اور زبان خاموش اور یتیم بچی کے سر پر رکھا ہاتھ بولتا ہے ’’میں ہوں نا‘‘ جناب حاکمین کرام ملک اس وقت معاشی بحران کا شکار ہے اور اس کے ذمہ داران میں معاشی ادارے ہی پیش پیش ہیں۔ مہینہ بھر پہلے خفیہ اداروں کی رپورٹ پر ایف بی آر کے اعلیٰ افسران کے تبادلے کئے گئے۔ اچھی شہرت کی رپورٹ پر ان تعیناتیوں میں ایک تعیناتی محترمہ طیبہ کیانی ڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس لاہور کی بھی ہوئی جو ایک دیانتدار، پارسا اور میرٹ پر کام کرنے والی آفیسر ہیں۔ مثبت کارکردگی پر حوصلہ افزائی اور منفی سرگرمیوں کا تدارک کرتی ہیں۔ ایک دفعہ شاید 2003ء کی بات ہے انہیں کسی نے بتایا کہ چائنہ میں ماتحت بھی ACR لکھتے ہیں قارئین یہ سرکاری افسران و ملازمین کی سالانہ خفیہ رپورٹ ہوا کرتی ہے، چند ایک اور بھی لوگ موجود تھے بڑا خوش ہوئیں کہ یہ تو بہت قابل تحسین اور قابل تقلید نظام ہے۔ ساتھ ہی فقرہ بڑھایا کہ اگر ہماری اے سی آر ماتحت لکھنے لگے تو پھر کیا ہو؟ اس نے کہا کہ آپ کی اے سی آر کچھ یوں ہو کہ آپ کے نام کے سامنے ریمارکس کی جگہ بھی آپ کا نام لکھا ہوگا یعنی نام طیبہ اور ریمارکس بھی طیبہ اور آپ یقین جانیں کہ ان کو ان کی کسی ACR کا نہیں پتہ۔ ایک آفیسر بتا رہے تھے کہ ہر ACR پر Dead Honest and Courgeos ضرور لکھا یعنی کام کرنے کے لیے ان تھک ہمت، صلاحیت اور انتہائی اعلیٰ درجہ پر فائز دیانتدار۔ قارئین ایک ڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس لاہور سعید اختر آئے تھے۔ ان کے بعد اور محترمہ طیبہ کیانی سے پہلے یہ ڈائریکٹوریٹ، سمگلروں، بدعنوانوں، بدمعاشوں کی سہولت کار ہی رہی ہے۔ ان کی آمد کے بعد ان کے دائرہ کار میں آنے والی کلکٹریٹس اور ایریا میں سمگلرز میں سراسیمگی چھا گئی۔ آتے ہی پیغام دیا Go to the Book قانون کی عملدآری ہو گی، برابری ہو گی سب کے ساتھ یعنی امپورٹرز، ایجنٹس اور افسران و ملازمین کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک ہو گا۔ یہی پالیسی سابقہ چیف کلکٹر کسٹم پنجاب جناب محمد صادق نے اپنائی اور 7 کنٹینرز ایک ارب روپے کے قریب کسٹم ڈیوٹی پوری کرنے کی کوشش میں پکڑے مگر وہ ٹرانسفر ہو گئے، ان کی دیانت داری ہی ان کا تعارف ہے مگر آج تک 7 کنٹینرز کی تفتیش کوئی افسر کر سکا نہ ایجنسی کیونکہ مافیاز کا راج ہے۔ بہرحال لاہور ڈائریکٹریٹ میں کسٹم انٹیلی جنس کے سابقہ اعلیٰ ترین افسران کا دو دہائیوں سے زائد پھیلا ہوا بدعنوانی کا جال پنجے گاڑھ چکا تھا جب اصلاحات آئیں تو بدعنوانی کی دکانیں بند ہونا شروع ہوئیں مگر ایک متوازی نظام ادھر بھی چل رہا تھا جیسا کہ فیض حمید پر الزام ہے۔ سابقہ اور تبدیل شدہ لوگوں اور ان کے اہلکاروں نے منتھلیاں بند نہ کیں۔ اس متوازی نظام کے نمائندوں کو لگام ڈالی گئی تو چھپے ہاتھ حرکت میں آ گئے۔ میڈیا کو ساتھ ملایا اور پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔ حالات جیسے بھی ہیں، میری یہ تحریر حاکمین کرام خصوصاً جناب سپہ سالار، جناب چیف جسٹس آف پاکستان، چیف جسٹس پنجاب، وزیراعظم پاکستان کے لیے ہے کہ لاہور کسٹم انٹیلی جنس ڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس اور ڈائریکٹر جنرل کسٹم انٹیلی جنس کی قیادت میں سپہ سالار کے سمگلنگ اور وزیراعظم کے خلاف زیرو ٹالرینس کی پالیسی اپنائی ہے مگر مافیاز نے جہاں ہڑتالیں کرائیں، دیانتدار افسران کو تبدیل کرایا اب پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کیونکہ تھوڑے سے عرصہ میں ڈائریکٹوریٹ لاہور انٹیلیجنس نے کروڑوں روپے کا سمگل شدہ سامان پکڑا، کنٹینرز چیک کر کے کروڑوں روپے کی ڈیوٹی چوری پکڑی، جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔
روحانیت، صوفی ازم، نیکی، دیانتداری اور ہمت کے اعلیٰ درجہ پر فائز ڈائریکٹر انٹیلی جنس لاہور اور ان کے ماتحت کام کرنے والے افسران کو حب الوطنی کے تقاضے اور قانون کے مطابق کام کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ بھلے لاہور میں کلکٹریٹس میں دیانتدار کلکٹرز ہیں مگر نیچے کا عملہ اے سی، پرنسپل اپریزر، انسپکٹرز پرکشش ذمہ داریوں پر ہیں۔ امپورٹ کے پردے میں سمگلروں کے سہولت کار ہیں روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے کی ڈیوٹی چوری ہو رہی ہے۔ کلکٹرز بے خبر ہیں شاید اس لیے اعتبار کر رہے ہیں کیونکہ بد عنوانوں نے متقیوں کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ نئے پاکستان میں اب لاکھ ڈیڑھ لاکھ نہیں تین چار کروڑ سے کم ایک کنسائنمنٹ ہی ڈیوٹی چوری سے تسلی نہیں ہوتی۔ اگر سزا کا نظام عمل میں لانا ہے تو حوصلہ افزائی اور تحفظ کے احساس کو بھی اجاگر کرنا ہوگا لہٰذا سپہ سالار صاحب دیانتدار لوگ تحفظ کے اعتبار سے بے آسرا ہیں ان کے سر پر بھی ہاتھ رکھئے جو ہاتھ بولے ”میں ہوں نا“۔