بھارت کا جنگی جنون پورے خطے کے لیے سکیورٹی رسک ہے۔ چاند پر جانے کے خواب آنکھوں میں سجائے ہندوستان کو شاید دہلی کی کچی آبادی اور فٹ پاتھ پر سونے والے بے گھر افراد نظر آتے ہیں نہ توہمات اور جہالت میں ڈوبے ہوئے غریب عوام۔ ان سب عوام کے باوجود بھارت کا ایٹمی طاقت ہونا تو سمجھ میں آ ہی جاتا ہے مگر اس ٹیکنالوجی کو صرف جنگی جنون کیلئے استعمال کرنا مضحکہ خیز ہے۔ سونے پر سہاگہ بھارت کا ناقص ترین کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم ہے، جس کی وجہ سے بھارت کے ایٹمی اثاثے محفوظ نہیں۔ یہ نا اہلی کوئی نئی بات نہیں۔ ہر بھارتی حکومت کا یہی وتیرہ رہا ہے۔ اب تو نا اہلی اور غفلت کے گویا تمام ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔ بھارت سرکار ہوش کے ناخن لینے کے بجائے تمام تر کوششیں انسانیت کی پامالی میں لگا رہی ہے۔ تابکار مواد چوری ہونا معمولی بات ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان دنیا بھر کے لیے خطرہ ہے۔ یہاں کے ایٹمی اثاثے محفوظ نہیں۔ پاکستان کے برعکس بھارت میں ایٹمی اثاثوں کی سکیورٹی کا نظام بہت ناقص لگ رہا ہے۔ 1994 سے اب تک کی بات کریں تو پورے بھارت میں 200 کلو گرام سے زائد تابکار مواد چوری ہو چکا ہے۔ یہ پوری دنیا کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ یہ تابکار مادہ کس کے ہاتھ لگ رہا ہے، ہندوستان سرکار کو کوئی ہوش نہیں۔ 2021 میں چار ماہ کے عرصے میں ہندوستان میں تابکار مواد چوری ہونے کے تین واقعات رپورٹ ہوئے۔ مئی 2021 میں ہندوستانی پولیس نے مہاراشٹر میں دو افراد کو غیر قانونی طور پر سات کلوگرام سے زیادہ قدرتی یورینیم رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا۔ جون 2021 میں، جھارکھنڈ پولیس نے سات افراد کو گرفتار کیا اور ان کے قبضے سے 6.4 کلوگرام یورینیم ضبط کی گئی۔ اگست 2021 میں بنگال CID نے دو افراد کو گرفتار کیا اور ان سے 250.5 گرام کلیفورنیم ضبط کیا۔ یہ رجحان 2022 میں بھی جاری رہا۔ فروری میں نیپال کے حکام نے یورینیم کی غیر قانونی تجارت کے الزام میں دو بھارتی افراد کو گرفتار کیا۔ مارچ 2022 میں ہندوستان کی لاپروائی نئی بلندیوں پر پہنچ گئی جب پاکستان کے ایک گاؤں پر براہموس میزائل داغا گیا جس سے بڑے پیمانے پر خوف و ہراس اور بین الاقوامی تشویش پیدا ہوئی۔ بھارتی وزارت دفاع نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا اور بھارتی فضائیہ نے دعویٰ کیا کہ یہ ایک غلط فائرنگ تھی لیکن میزائل کے اجزا اور حفاظتی رہنما اصولوں سے واقف ناقدین نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا اور اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ یہ جان بوجھ کر کی گئی جارحیت ہے۔ جولائی 2024 میں، دہرادون، اتراکھنڈ میں حکام نے مبینہ طور پر بی اے آر سی سے چوری شدہ تابکار ڈیوائس رکھنے والے پانچ افراد کو حراست میں لیا۔ 9 اگست 2024 کو بہار پولیس نے معمول کی جانچ پڑتال کے دوران کوچیکوٹ بیلتھاری چوکی کے قریب ایک گاڑی سے 50 گرام کلیفورنیم ضبط کیا، جس کے نتیجے میں تین افراد کی گرفتاری ہوئی۔ جب یو ایس حکام نے نومبر 2008 میں بھابھا ایٹمی ریسرچ سنٹر (BARC) کا پہلا دورہ کیا تو اس کے حفاظتی اقدامات کے بارے میں ان کے مشاہدات تسلی بخش نہیں تھے۔ وفد کے دورے کو 16 سال گزر جانے کے باوجود، ہندوستان میں جوہری مواد کی چوری تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستانیوں نے ماضی کی سلامتی کی خلاف ورزیوں سے کچھ نہیں سیکھا۔ اس طرح کے معاملات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہندوستان ریڈیولوجیکل اور جوہری سمگلنگ کے لیے کتنا کمزور ہے اور ملک میں انتہا پسند ہندوتوا نظریات کے زور پکڑنے کے پیش نظر یہ انتہائی پریشان کن بھی ہیں۔ ہندوستانی میڈیا پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہوئے، یہ تصور کرنا آسان ہے کہ اگر اس طرح کے خطرناک مواد انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں آ جائیں گے جو پہلے ہی دیگر تمام مذاہب اور فرقوں سے پاک ’ہندو دیش‘ کے قیام کے اپنے مشن میں گھریلو دہشت گردی کا سہارا لے چکے ہیں تو اس کے نتیجے میں ہونے والی ہولناکیوں کا تصور کرنا آسان ہے۔ ایسے گروہوں میں نہ صرف ہندوستان کی قومی سلامتی بلکہ علاقائی استحکام اور عالمی امن کے لیے بھی خطرہ پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس طرح کے واقعات کی تعداد سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں تابکار مادوں کے لیے ایک ممکنہ بازار موجود ہے، جس سے یہ اور بھی غیر یقینی ہو جاتا ہے کہ ان خطرناک مادوں تک کس کی رسائی ہے اور ان کے ارادے کیا ہو سکتے ہیں۔ دیگر ممالک، جیسے ایران اور عراق، پر صرف جوہری صلاحیتیں رکھنے کی وجہ سے پابندیاں عائد کی گئی ہیں، جبکہ ہندوستان بار بار اپنی سرحدوں کے اندر تابکار مواد کی چوری اور غیر قانونی تجارت کو مکمل استثنیٰ کے ساتھ روکنے میں ناکام رہا ہے۔ جب شمالی کوریا نے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تو امریکہ اور یورپی یونین جیسے ممالک کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) جیسی تنظیموں نے فوری طور پر سخت پابندیاں اور جرمانے عائد کرنے میں جلدی کی۔ بھارت کے کیس میں خاموشی کیوں ہے؟ کیا دنیا نے ٹھان لیا ہے کہ اس لا پروا ریاست کو کھلی چھٹی دے دی جائے گی؟ کیا ایٹمی مواد کی ایسے ہی چوری جاری رہے گی؟ آخر کب تک بھارت دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو مہذب ممالک اٹھاتے ہیں اور مفاد پرست مغربی طاقتیں انصاف کرنے کے بجائے تجارتی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے بھارت کو چیلنج نہیں کرتیں۔