نہ جانے مجھے کیوں یقین ہونا شروع ہو گیا ہے کہ ہو نہ ہو محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے کی وجہ سندھ کے وہ مقامی ڈاکو ہی ہوں گے جنہوں نے مسلمان بچوں اور عورتوں کا جہاز لوٹ لیا تھا اور خلیفہ ولید بن عبد الملک نے جب راجہ داہر سے ڈاکوئوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تو اُس نے کہا کہ ڈاکو میرے بس سے باہر ہیں۔ آج کچے کے ڈاکوئوں کی دید دلیری اور ریاستی چیلنج کو دیکھ کر یہی سمجھ میں آتا ہے کہ وہ واردات بھی کچے کے ڈاکوئوں نے کی ہو گئی اورجس طرح آج ریاست اُن کے سامنے بے بس ہے تو اُس وقت تو جدید ریاست کا تصور ہی نہیں تھا اور 712ء عیسوی میں تو ایسے منہ زور ڈاکوئوں کی گرفتاری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا حالانکہ تاریخ کا طالبعلم ہونے کے ناتے میں ایسی کسی کہانی پر یقین نہیں رکھتا کیونکہ سندھ پر اُس سے پہلے بھی ناکام حملے ہو چکے تھے لیکن اب کہانی میں جان پڑتی نظر آ رہی ہے ۔ ویسے تو جن علاقوں میں جاگیرداروں اور وڈیروں کی مرضی سے پولیس افسران اور سیشن جج تعینا ت ہوتے ہوں وہاں یہ گلہ کرنا کہ ڈاکو کچے کے تھے یا پکے کے ٗ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ جمہوریت کا مطالبہ عوامی آمریت کا راج ہے لیکن جب عوامی مینڈیٹ ہی بالا دست طبقات کے تصرف میں آ جائے یا انہیں قوتوں کے زیرتسلط چلا جائے جن کے خلاف عوام نے مینڈیٹ دیا تھا تو پھر اُس ریاست کا ”اللہ ہی حافظ ہوتا“ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جن کو ہم کچے کے ڈاکو کہہ رہے ہیں وہ ”ریاست کے اندر ریاست ہیں“ جس کو ماننے میں ہم تذبذب کا شکار ہیں یا پھر ہماری دفاعی قوتیں اس توہین آمیز لفظ کو سننے کیلئے ہی تیار نہیں ۔ دریائے سندھ کے دونوں جانب اِن کا راج ہے یعنی سندھ اور پنجاب دونوں ہی اِن کی محفوظ ترین پناہ گاہیں ہیں اور یہ کوئی لاوارث ڈاکو بھی نہیں کہ جن کو آپ آسانی سے پکڑ کر کسی پولیس مقابلے میں ”پار“ کردیں گے ۔اِن کی پشت پر شمالی سندھ اور جنوبی پنجاب کے جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں کے دستِ شفقت ہیں۔ ورنہ یہ ڈاکو تامل دہشتگردوں یا نیپال کے باغی مائوسٹوں سے زیادہ طاقتور تو نہیں جن کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں نے صفحہء ہستی سے مٹا کر رکھ دیا ہے۔ نت نئے جدید ترین طریقوں سے یہ ڈاکو پاکستانی عوام کو لوٹ بھی رہے ہیں اور قتلِ عام بھی کر رہے ہیں ۔ کبھی یہ فیس بک کے ذریعے بھیڑ بکریاں بیچنے کے بہانے بیوپاریوں کو بلا کر اغوا کر لیتے ہیں اور کبھی محبت کے جال(ہنی ٹریپ) میں پھنس کر نوجوانوں کو اپنا بندی بنا کر اُن کے خاندانوں کی زندگیا ں اجیرن کر دیتے ہیں ۔ مالدار لوگوں کو اغوا یا دھمکا کر تاوان وصول کرنا اِن کیلئے معمول کی بات ہے ۔ پنجاب پولیس آپریشن کرتی ہے تو یہ دریائے سندھ عبور کرکے سندھ کی حدود میں چلے جاتے ہیں اور سندھ آپریشن کی شنید ملے تو پنجاب کی طرف لوٹ آتے ہیں اوراگر کبھی انہیں کسی وفاقی دفاعی ادارے کی طرف سے آپریشن کی بھنک ملے تو یہ شہروں یا اُن عالی شان محلات میں چھپ جاتے ہیں جن میں ہمارا قانون آج تک داخل نہیں ہو سکا ۔ یہ نڈر، بے رحم، شاطر اور تجربہ کار ڈاکو تو تھانوں سے پولیس اٹھا کر لے جاتے ہیں لیکن ہم ابھی تک اُن کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے ۔ ملزم بشیر شر کا مارا جانا کوئی اہم بات نہیں کہ یہ علاقہ ایسے کرداروں سے اٹا پڑا ہے۔ شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کو عز ت و تکریم کے ساتھ دفن کردیا گیا ہے ۔ رحیم یار خان میں ہونے والی نمازِ جنازہ میں وزیر داخلہ محسن نقوی، آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور، سیکرٹری داخلہ نور الامین مینگل، ڈی آئی جی رینجر، آر پی او بہاولپور، کمشنر بہاولپور، ڈی آئی جی سکھر، ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان کے علاوہ سول اور عسکری اداروں کی اہم شخصیت نے شرکت کی ۔ یقینا یہ دل ہلا دینے والا واقعہ ہے ۔ جن جوانوں کے گھروں میں لاشیں پہنچی ہیں کوئی اُن سے پوچھے کہ بیٹے جوان کرتے کرتے ماں باپ کا کیا حال ہو جاتا ہے ۔ مجھے وطن پر قربان ہونے والے بیٹوں پر ہمیشہ فخر ہوتا ہے کہ ہماری مائیں ہمیں گود میں لے کر جب لوریاں دیتی ہیں تو اُس میں وطن پر قربان ہونے کا درس بھی شامل ہوتا ہے لیکن مجھے اِس بات کا دکھ ہمیشہ رہے گا کہ شہید ہونے سے تھوڑی دیر پہلے پولیس کے جوانوں کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیومیں آپس میں گفتگو کرتے ہوئے ابرار نامی پولیس ملازم اپنے ساتھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ یہ لو رائفل پکڑو، لگتا ہے آج آخری وقت آ گیا ہے ۔ اِن پولیس ملازمین کی گفتگو میں یہ بھی سنا جا سکتا ہے کہ ہم جہاں رات کو جا رہے ہیں یہاں تو کوئی دن میں نہیں آتا ۔ اب میرے لئے تو یہ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ایک کانسٹیبل تو یہ بات جانتا تھا کہ انہیں موت کے منہ میں بھیجا جا رہا ہے لیکن کیا بھیجنے والے کو وقت اور حالات کی سنگینی کا علم نہیں تھا؟ کس نے بنائی ہے پالیسی کہ رات کے اُس پہر ہمارے بچوں کو اُن علاقوں میں بغیر کسی حکمت ِ عملی کے بھیج دیا گیا جہاں ڈاکو پہلے ہی اُن کے منتظر تھے اور کوئی ہائی رینک آفیسر اُن کے ساتھ نہیں تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ میں اُن مائوں کو بیٹوں کی شہادت پر مبارک باد دوں کہ وہ شہیدوں کی مائیں ہیں یا اُن پالیسی سازوں کی عقل پر ماتم کروں اور صرف اُن پالیسی سازوں کی عقل پرہی کیوں؟ جنہوں نے اِن شہیدوں کا مذاق اڑایا ہے ہم تو اُن کے خلاف بھی کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے چہ جائیکہ ہم کچے کے ڈاکوں کے خلاف کوئی انتہائی اقدام کریں ۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی بی) نے ستمبر 2023ء کو اپنی ایک رپورٹ میں سندھ پولیس کے حکام کے حوالے سے بتایا کہ صوبے کا شمالی حصہ اغوا برائے تاوان، غیرت کے نام پر قتل، مذہبی اقلیتوں کی جبری مذہب کی تبدیلی اور کچے کے ڈاکوؤں کا مرکز بن چکا ہے، اور اس علاقے میں اغوا برائے تاوان کے ذریعے سالانہ ایک ارب روپے بٹورے جاتے ہیںجبکہ یہ رقم اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ایس ایس پی گھوٹکی تنویر تنیو کے حوالے سے بتایا گیا کہ 2022ء کے دوران 300 افراد کو تاوان کی خاطر کچے کے ڈاکوؤں نے اغوا کیا۔ یہ رپورٹ ایچ آر سی پی کے فیکٹ فائنڈنگ مشن نے گھوٹکی، میر پور ماتھیلو، کندھ کوٹ، جیکب آباد، لاڑکانہ اور کراچی پولیس، صحافیوں، وکلا اورسماجی رہنماؤں سے انٹرویوز کر کے تیار کی ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز صاحبہ نے انتہائی جرأت اور بہادری سے کچے کے ڈاکوئوں کو کچلنے کے ارادے کا عندیہ دیا ہے انہوں نے ڈاکوئوں کے سروں کی قیمتیں بھی مقرر کردی ہیں لیکن میری اُن سے گزارش ہے کہ کچے کے ڈاکوئوں سے پہلے پکے کے محافظوں کی صفیں درست کر دیں اور جس جس وڈیرے نے اپنے اپنے ڈاکو پال رکھے ہیں اُنہیں اٹھا کر اُن سے ڈاکوئوں کی مکمل فہرستیں طلب کر لی جائیں اور وڈیروں کی فہرستیں آپ کو اپنے ”مہان افسران“ سے میسر آ جائیں گی۔