ضیاء شاہد، عمران خان اور میں (آخری حصہ)

’’ضیاء شاہد، عمران خان اور میں‘‘ کے عنوان سے اقبال جھکڑ نے اپنے کالم میں جن واقعات کا ذکر کیا تھا ان دنوں میں شوکت خانم کے ابتدائی ادوار کے میڈیا کے معاملات اور پھر تحریک انصاف کے قیام کے بعد میں میڈیا سیل میں بھی رہا اور بحیثیت صحافی عمران خان کے ساتھ میرے تعلقات ایک بڑی دوستی میں تبدیل ہو چکے تھے۔ جب ہسپتال میں دھماکہ ہوا تو اس روز میں عاشق قریشی (مرحوم) کے ساتھ ہسپتال گیا۔ ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی عمران خان وہاں پہنچ چکے تھے پھر جو ہوا اس کی تفصیلات میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں البتہ حامد میر کی عمران خان اور تلخ کلامی اور پھر خان کا حامد میر پر حملہ آور ہونا بھی درست واقعہ ہے جہاں تک عمران اور ضیاء شاہد کے تعلقات کا ذکر کیا گیا معاملہ کچھ یوں تھا کہ عمران نے دی نیوز اخبار میں کالم لکھنے کا آغاز کیا۔ اس سے قبل میر شکیل الرحمن اور عمران خان کے درمیان یہ طے پایا کہ عمران کا کالم کسی اور اخبار میں شائع نہیں ہوگا۔ اس تناظر میں ایک دن ضیاء شاہد نے کہا کہ میری اور عمران خان کی ملاقات کرائی میں نے عمران خان سے ذکر کیا تو وہ آگ بگولا ہو گیا اور بلیک میلر کے علاوہ نجانے کیا کیا کہہ ڈالا۔ میں نے پھر کہا کہ ہمیں میڈیا میں کسی قسم کی وار سے بچنا ہے آپ اس سے مل لو مگر عمران نہ مانا۔ میں نے ایک ہفتے کے دوران عاشق قریشی مرحوم کے ذریعے بھی کوشش کی مگر وہ نہ مانا البتہ اس نے کہا کہ میں میر شکیل الرحمن سے بات کروں گا تم اس کا ترجمہ شائع کردو۔ اب آگ دونوں طرف تھی ایک طرف عمران خان کی دوستی دوسری طرف ضیائ، شاہد کی نوکری ادھر عمران نہیں مان رہا تھا ادھر ضیاء شاہد نے میرے اوپر الزامات لگانے شروع کر دیئے۔ اتفاق کہہ لیں ایک دن قذافی سٹیڈیم سے میں اور عمران خان ٭٭٭ گئے۔ خان نے کسی سے ملاقات کرنا تھی وہاں ’’خبریں‘‘ کے کسی بندے نے ضیاء شاہد کو فون کر دیا کہ عمران خان لبرٹی میں اسد شہزاد کو شاپنگ کرا رہا ہے شام کو دفتر پہنچا تو مجھے ضیاء شاہد کی سیکرٹری سمیرا نے کانوں کان خبر دی کہ آج آپ کی خیر نہیں۔ چیف صاحب بہت گرم ہیں آپ فوراً صاحب کے کمرے میں جائیں جب میں کمرے میں گیا تو ضیاء صاحب نے میرے ساتھ کیا حشر کیا اب یہ حشر کیا تھا یہ وہی لوگ آج بتا سکتے ہیں جنہوں نے ضیاء شاہد کے ساتھ کام کیا ہے۔ اس حشر نشر کے بعد میں زمان پارک گیا اور تمام قصہ عمران خان کو سنایا اس ملاقات میں دو معاملات طے پائے ایک ضیاء شاہد سے عمران کی ملاقات اور دوسرا میں پاکستان اخبار چھوڑ کر جنگ چلا جائوں وہیں پر عمران نے میر شکیل کو فون کیا اور میری صحافتی زندگی کی پہلی اور آخری سفارش کر دی کہ اسد کو جنگ میں لے لو… اس کے بعد آغا سجاد گل سے رابطہ ہوا۔ ملاقات کے معاملات طے پائے۔ دوسری طرف ضیاء شاہد کے کمرے تک عمران خان کو لے جانا بھی میری ذمہ داریوں میں ٹھہرا۔ زمان پارک سے پاکستان اخبار تک کے سفر اور پھر ضیاء شاہد کے کمرے میں جو ہوا اس کا ذکر آپ گزشتہ کالم میں پڑھ چکے ہیں۔ قصر مختصر یہ کہ پھر عمران اور ضیاء تعلقات میں برف پگلی، پروٹوکول ڈیوٹی کے دوران میں نے ضیاء شاہد سے انکار نہیں کیا تھا اور ان کے ساتھ انکار کا مطلب حشر نشر کے ساتھ ملازمت سے برخاستگی بھی ہو سکتی تھی لہٰذا معاملہ یہ طے پایا تھا کہ میں عمران کو ضیاء شاہد کے کمرے تک لے جائوں گا مگر عمران بضد تھا کہ تم کمرے میں میرے ساتھ چلو گے اس اہم ملاقات جس کو ایک دوسرے کا پوسٹ مارٹم بھی کہا جا سکتا ہے دونوں مان گئے تو ایک ماہ کے بعد میں نے روزنامہ جنگ جائن کر لیا۔ یہ جنگ میں میری دوسری ملازمت تھی جو ایک عشرے کے قریب قائم رہی۔

اور آخری بات…!

ضیاء شاہد عمران خان کے درمیان دوستی سے دشمنی تک کے وقت کے دوران اور بھی بڑے واقعات ہیں جن کو انشاء اللہ کتاب کے سپرد قلم کروں گا۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ عمران خان کی والدہ شوکت خانم کا زندگی کا آخری انٹرویو بھی ضیاء شاہد کے ساتھ میں نے کیا تھا اس کے بعد وہ علاج کے لیے لندن چلی گئیں اور پھر زندگی ان سے روٹھ گئی۔