پاکستان کے دن بہ دن بدلنے والے سیاسی حالات کے اثرات بہر حال معیشت اور کاروباری سرگرمیوں پر پڑ رہے ہیں۔ اس صورتحال کے حوالے سے عوام اور نجی شعبہ دونوں سطح پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ موجودہ ملکی حالات کے پس منظر میں آنے والے دنوں میں صنعتی و تجارتی حلقوں کی طرف سے کئی خدشات اور توقعات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کئی عالمی اداروں نے بھی افراطِ زر کی شرح میں اضافہ، مہنگائی، غربت اور دیگر سماجی مسائل میں اضافے کی نشاندہی کی ہے۔
چیمبر آف کامرس فیصل آباد کے مطابق فیصل آباد میں 100 یونٹ بند ہو چکے ہیں۔ بلکہ گزشتہ روز فیصل آباد میں یہ خبر ہر ایک کی زبان پر تھی کہ ستارہ گروپ نے بھی اپنے یونٹ بند کرنا شروع کر دیئے ہیں لیکن بعد میں مذکورہ گروپ نے اس کی تردید کر دی۔ بجلی کی قیمتیں بنیادی مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے ہر روز ایک یونٹ بند ہوتا جا رہا ہے اور انڈسٹری بند ہونے سے لاکھوں افراد بیروزگار ہو رہے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ دو برسوں میں 9 بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں اربوں ڈالر کے اثاثے بیچ کر پاکستان سے رخصت ہو گئی ہیں، جن میں پفائزر فارماسیوٹیکل(یو ایس اے) نے پاکستان میں اپنا مینو فیکچرنگ پلانٹ لکی گروپ کو مئی 2024ء میں فروخت کر دیا۔ شیل (نیدر لینڈ) نے پاکستان میں اپنا ریٹیل بزنس اور لبریکنٹس پلانٹ وافی انرجی گروپ کو فروخت کر دیا، اوبر (یو ایس اے) ٹیکسی کمپنی نے اپنا کاروبار اور اس کے ذیلی ادارے کریم نے فوڈ ڈلیوری بند کر دی۔ ٹوٹل پیٹرولیم (فرانس) نے اپنے حصص 7 اگست 2024ء کو گنورپاکستان کو فروخت کر دئے ہیں۔ ایلی لیلی (یو ایس اے) نے 2022ء میں پاکستان میں اپنے سارے کاروبار بند کر دیئے ہیں۔صنوفی (فرانس) نے اپنے 52.87 فیصد حصص پیکجز لمیٹڈ کی قیادت میں بننے والے کنسورشیم کو اپریل میں فروخت کر دیئے۔ ٹیلی نار (ناروے) نے پاکستان میں اپنا کاروبار یو فون کو فروخت کر دیا۔ ویاٹرس (یو ایس اے) نے اپنا فارماسیوٹیکل پورٹ فولیو اے جی پی لمیٹڈ کو فروخت کر دیا۔ پراکٹر اینڈ گیمبل (یو ایس اے) نے اپنا کاروبار نائمر انڈسٹریز کو فروخت کر دیا۔
بلاشبہ ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافے اور مستحکم معیشت کے لئے برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہے، ہمیں اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے ایکسپورٹ کی شرح کو ہر حال میں بڑھانا ہو گا۔ جس کے لئے نہ صرف پاکستان سے نکلنے والی بیرونی سرمایہ کاری کو روکنا ہو گا بلکہ نئی بیرونی سرمایہ کاری بھی لانا ہو گی۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کو ترغیب دینے کے لئے سیاسی استحکام اور معاشرتی و معاشی مضبوطی ضروری ہے۔ پاکستان کے دن بہ دن بدلنے والے سیاسی حالات کے اثرات بہر حال معیشت اور کاروباری سرگرمیوں پر پڑ رہے ہیں۔ اس صورحال کے حوالے سے عوام اور نجی شعبہ دونوں سطح پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ موجودہ ملکی حالات کے پس منظر میں آنے والے دنوں میں صنعتی و تجارتی حلقوں کی طرف سے کئی خدشات اور توقعات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کئی عالمی اداروں نے بھی افراطِ زر کی شرح میں اضافہ، مہنگائی، غربت اور دیگر سماجی مسائل میں اضافے کی نشاندہی کی ہے۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں بجلی فراوانی کے ساتھ کم نرخوں پر میسر ہونی چاہئے۔ کیونکہ اگر بجلی مہنگی ہو گی تو کوئی کارخانہ بھی اپنی پروڈکشن کے ریٹ دنیا کے مقابلے میں نہیں لا سکتا یعنی صنعتی شعبے میں مہنگی بجلی کی فراہمی بھی پاکستان کی برآمدات میں کوئی بہتری نہیں لا سکتی ہے جب کہ سب سے بڑا چیلنج اس وقت برآمدات کو بڑھانا ہے کیونکہ یہ کم ترین سطح پر ہیں۔ جس سے تجارتی خسارہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔بجلی کے نرخ بڑھنے سے صارفین کے علاوہ صنعتی ادارے سب سے زیادہ متاثر ہوئے جن کی پیداواری لاگت بڑھنے اور عالمی مارکیٹ میں پاکستانی مصنوعات کے لئے مقابلہ کرنا کہیں مشکل اور کہیں ناممکن ہو کر رہ گیا ہے۔ خطے کے دوسرے ممالک جن میں ملائیشیا، چین، بھارت، فلپائن، مصر، ترکی، جنوبی کوریا اور بنگلہ دیش کی برآمدات ہم سے کہیں زیادہ ہیں حتیٰ کہ دیوالیہ ہونے والا سری لنکا بھی پاکستان سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ دیوالیہ ہونے کے باوجود سری لنکا مجموعی برآمدات بڑھانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ جس کی برآمدات جی ڈی پی کا 30فیصد ہو گئی ہیں، جب کہ پاکستان کی برآمدات جی ڈی پی کے 12 فیصد کے برابر ہیں۔ ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی برآمدات جی ڈی پی کے 24 فیصد تک پہنچ گئی ہیں، برآمدات میں مصر جی ڈی پی 30 فیصد کے ساتھ سب سے آگے ہے، اسی طرح فلپائن کی برآمدات 22 اور بنگلا دیش کی برآمدات جی ڈی پی کا 16 فیصد ہیں۔ پاکستان لیبر پیداوار صلاحیت میں بھی خطے کے سب ممالک سے پیچھے ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق لیبر پیداوار میں سری لنکا اور بنگلا دیش بھی پاکستان سے آگے ہیں۔ بھارت، ترکیہ اور فلپائن کی لیبر پیداواری صلاحیت بھی پاکستان سے زیادہ ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے ان ممالک کی حکومتوں نے سب سے پہلے اس امر کے لئے عملی اقدامات کئے کہ صارفین کے ساتھ ساتھ صنعتوں کو انتہائی سستی بجلی مہیا کی جائے۔ جب وہاں کے سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں کو سستی بجلی میسر آ گئی پھر وہاں کی برآمدات میں بھی کئی گنا اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔
کمزور معاشی صورتحال کی وجہ سے پاکستان کی سا لمیت انتہائی خطرے میں ہے۔ بجلی کے بلوں، اشیائے ضروریہ کے نرخوں اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے جو صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور اس پر عوام کی جانب سے جو ردِ عمل سامنے آیا ہے وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ لگتا ہے اربابِ اختیار یا تو سنجیدہ نہیں ہیں یا پھر اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ قیمتیں بڑھنے سے عام آدمی کیسے متاثر ہوتا ہے اور اس کی پریشانیاں ملک میں انتشار پھیلانے کا باعث کیسے بن سکتی ہیں۔ عوام کو تو اس وقت روٹی اور سکیورٹی کی فکر نے اپنے ہی مسائل میں الجھا دیا ہے۔ اب عملی طور پر عوام کو مطمئن کر نے کا وقت ہے جس کے لئے وسیع البنیاد اقتصادی اصلاحات اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔