ڈونلڈ ٹرمپ بمقابلہ کملا ہیرس

جاری برس ماہ نومبر میں اس کی قسمت کا فیصلہ ہو جائیگا۔ جس کے بارے میں عام تاثر ہے کہ وہ دنیا کے بیشتر ممالک اور ان کے سربراہان مملکت کی قسمت کے فیصلے کرتا ہے۔ یہ بات تو اب واضح ہو چکی کہ اس کی اپنی حیثیت دستخطوں کی مشین کی سی ہے، اسے آپ ماسک کے پیچھے چھپا ہوا ایک چہرہ بھی کہہ سکتے ہیں، دنیا میں دکھانے کے لیے چہرہ اور ہوتا ہے، اہم ترین فیصلے وہ فرد واحد نہیں کرتا بلکہ اس کے پیچھے بیٹھی ایک ٹیم کرتی ہے جس کی ترجیح فقط ان کا اور ان کی ریاست کا مفاد ہوتا ہے۔ وہ کسی کے دوست نہیں ہوتے، وہ اس کے دوست ہونے کا تاثر دیتے رہتے ہیں جن سے ان کا مفاد وابستہ ہوتا ہے، مفاد ختم، دوستی ختم۔ یہ شخصیت یہ چہرہ صدر امریکہ کا ہے جہاں انتخابات اب قریب ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس مقابل ہیں، ٹرمپ کی انتخابی مہم اسی انداز میں چلائی جا رہی ہے۔ جس طرح پاکستان میں 1985ء کے بعد وزیراعظم پاکستان کے عہدے کے امیدوار کیلئے ڈیزائن کی گئی تھی۔ یہ ریسرچ ہونا باقی ہے، اس ڈیزائن کے ڈیزائنر ہم تھے یا ہم نے یہ ڈیزائن چوری کیا تھا۔

اس ڈیزائن کی خاص خاص باتیں کچھ یوں ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ شخصیت انتہائی قابل اور اصول پسند ہے۔ بکنے، نہ جھکنے والی ہے، مضبوط اعصاب کی مالک ہے، سوچ سمجھ کر فیصلے کرتی ہے، عقل، فہم و تدبر اسے ورثے میں ملا ہے، اسے دولت جمع کرنے کی تو ہوس بالکل بھی نہیں۔ اس نے دنیا کی تمام آسائشیں دیکھ لی ہیں۔ اب تو فقط ایک ہی خواہش ہے کہ اہل وطن کی تقدیر بدل جائے، غربت کا خاتمہ، انصاف انسان کی دہلیز پر، زندگی کی بنیادی سہولتیں ہر شخص تک پہنچانا اس کا نصب العین اور ریاست کی حفاظت و ترقی ترجیح اوّل ہے۔ باقی رہا ذاتی کردار تو باور کرایا جاتا ہے کہ بندہ بشر ہونے کے باوجود وہ شرابی نہیں البتہ کباب شدت سے کھاتا ہے، حسین چہروں کو نظر بھر کے دیکھتا ہے لیکن دوسری نظر نہیں ڈالتا کیونکہ پہلی نظر اتفاقاً پڑتی ہے جبکہ دوسری نظر کسی خواہش یا منصوبے کے زیر اثر ہو سکتی ہے، حلال اور حرام میں تمیز رکھتا ہے، یہ نہیں بتایا جاتا لپکتا کس طرف ہے، نرم دل ہونے کا پرچار بھی کیا جاتا ہے، ایک دو گھڑے گھڑائے واقعات زیب داستان کیلئے خوب خوب سنائے جاتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن کمپین میں یہ تمام رنگ نظر آتے ہیں۔ اسی حوالے سے ایک ویڈیو کلپ تیار کیا گیا ہے جس کے منظر میں دکھایا جاتا ہے ٹرمپ اپنے دفتر میں بیٹھے ہیں، ان کا نواسہ سکول جانے سے پہلے انہیں ملنے آتا ہے، وہ اسے معصوم چار سالہ بچے کو کہتے ہیں بہت اچھی بات ہے آج تم سکول جا رہے ہو، دل لگا کر محنت کرنا، زندگی میں کبھی سگریٹ نہ پینا، شراب کو کبھی ہاتھ نہ لگانا اور بیٹے یہ اچھا نہ لگے گا کہ تم اپنے جسم کے کسی حصے پر ٹیٹو بنوانے لگو، قریباً چار برس کا بچہ ان کی باتیں سنتا ہے اور اچھلتا کودتا منظر سے آؤٹ ہو جاتا ہے۔

حیرت کی بات ہے ٹرمپ نے اپنے نواسے کو اہم ترین بات نہیں بتائی جو تمام خوبیوں کو کھا جاتی ہے اور انسان کی عزت کو خاک میں ملا دیتی ہے، ٹرمپ نے اپنے نواسے کو یہ نصیحت نہیں کی کہ زندگی میں طوائفوں اور فاحشہ عورتوں سے دور رہنا، بچہ اس کمسنی میں کیا سمجھتا، طوائف کیا ہوتی ہے، فاحشہ عورتیں کیا کرتی ہیں لیکن اسے یہ سمجھ بھی نہیں تھی کہ سگریٹ پینے اور شراب پینے کے نقصانات کیا ہوتے ہیں مگر بوجہ سگریٹ نہ پینے اور شراب سے دور رہنے کے ساتھ ساتھ جسم کے مختلف حصوں پر ٹیٹو نہ بنوانے کا مشورہ اس لیے دیا گیا کہ امریکہ میں بیشتر لوگ ان باتوں کو پسند نہیں کرتے لیکن معاملہ عورتوں سے تعلقات کا ہو تو یہ شخصی آزادی کے زمرے میں آتا ہے، ان کے مقابل کبھی جو بائیڈن تھے جنہوں نے میدان چھوڑنے کے بعد کملا ہیرس کو آگے بڑھانے میں مدد کی۔ اب وہ ووٹرز کا دل جیتنے کے لیے ہر وہ کام کرتے نظر آتے ہیں جو ہمارے یہاں زمانہ انتخابات میں زور و شور سے کیا جاتا ہے۔ ہر بات کی بنیاد جھوٹ پر رکھی جاتی ہے۔ جھوٹے وعدے جھوٹی قسمیں، ہر بات کے اختتام پر اندازہ ہو جاتا ہے جھوٹ کے سوا کچھ نہ تھا۔ جو بائیڈن نے کہا کہ اس نے ایک سیاہ فام کو نامزد کیا ہے۔ کملا ہیرس کے والد کا تعلق جمیکا اور والدہ کا تعلق بھارت سے تھا، وہ اس لحاظ سے بدقسمت رہیں کہ ان کے والدین کی شادی سات آٹھ برس چل سکی۔ انہوں نے زندگی میں خاصی مشکلات دیکھیں، وہ وائٹ ہائوس کی مکین بننا چاہتی تو ضرور ہیں لیکن خود وائٹ نہیں ہیں، انہیں بلیک بھی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ سیاہ فام کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتی۔ جوبائیڈن نے انہیں سیاہ فام کہنے کا جھوٹ اس لیے بولا کہ امریکہ میں سیاہ فاموں کو بتایا جا سکے کہ سیاہ فام کے ووٹ کا حقدار سفید فام ڈونلڈ ٹرمپ نہیں بلکہ سیاہ فام کملا ہیرس ہے۔ متعصب سیاہ فارم یقینا ٹرمپ کو ووٹ نہیں دیں گے لیکن ضروری نہیں کہ وہ سیاہ اور سفید کے درمیان موجود برائون رنگ کی کملا ہیرس کو ووٹ دیں۔ امریکی انتخابات میں بھارت نژاد امریکیوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ وہ بڑی تعداد میں امریکہ میں موجود ہیں اور بھارت سے تعلق رکھنے والی ہر شخصیت کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، پاکستانیوں کی طرح ان میں اپنے ملک سے تعلق رکھنے والے کی ٹانگ کھینچنے کا رواج نہیں ہے۔ وہ اپنی ذاتی پسند ناپسند پر اپنے ملکی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ امریکہ کا صدر شتر بے مہار نہیں ہوتا لیکن پھر بھی بھارت سے تعلق رکھنے والا اگر اس اہم عہدے کے لیے منتخب ہو جائے تو وہ اپنے یا اپنے والدین کے آبائی وطن اور اس سے تعلق رکھنے والوں کیلئے نرم گوشہ ضرور رکھتا ہے، یہ انسانی فطرت بھی ہے۔

کملا ہیرس کی انتخابی مہم میں بھارتی لابی پیش پیش ہے۔ بڑ ے بھارتی کاروباری حضرات اس کی فنڈ ریزنگ میں مثبت کردار ادا کر رہے ہیں اور بھارت نژاد امریکیوں کو سمجھا رہے ہیں کہ معاملہ ’’اب یا پھر کبھی نہیں‘‘ والا ہے۔ یوں اس طبقے میں سفید فام امریکیوں کی نسبت جوش و خروش زیادہ ہے۔ بھارتی لابی امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کو بھی یہ سمجھا رہی ہے کہ ٹرمپ کی نسبت کملا ہیرس زیادہ بہتر صدر ثابت ہو سکتی ہے، پاکستانی نژاد امریکی ووٹرز دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ کچھ وہ ہیں جو اسلام مخالف اور ٹرمپ کی پاکستان مخالف پالیسیوں کے سبب اسے پسند نہیں کرتے جبکہ کچھ ایسے ہیں جو امریکہ کے رنگ میں رنگے جا چکے ہیں۔ ان کیلئے اب پاکستان کی کوئی اہمیت نہیں نا ہی ان کا کوئی تعلق اب پاکستان سے رہ گیا ہے، انہیں پاکستان چھوڑے پچاس برس سے زیادہ ہو چکے ہیں جس کے بعد وہ کبھی پاکستان نہیں آئے۔ وہ ٹرمپ کی اپنے نواسے کو نصیحتوں کے برعکس شراب، سگریٹ اور طوائفوں کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں جبکہ جسم کے نازک حصوں تک پر ٹیٹو بنوانے کو جدید فیشن گردانتے ہیں۔ خواتین اس کام میں پیش پیش ہیں۔