کیا میزائل ٹیکنالوجی امن کی ضامن ہے؟

میزائل ٹیکنالوجی کا ذکر آتے ہی ذہن میں جنگ اور تباہی کا خیال آتا ہے۔ ممکن ہے ہے تاثر کسی حد تک درست بھی ہو لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جارحانہ اور عسکریت پسند رویوں کی حامل اس دنیا میں اسی ٹیکنالوجی نے امن اور استحکام کو برقرار رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ مثال کے طور پر اگردو یا دو سے زائد حریف ممالک کے پاس جوہری میزائل دستیاب ہوں تو یہ صورتحال اس بات کو یقینی بنا نے کے لیے کافی ہے کہ فریقین امن سے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ وہ بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ کسی بھی تصادم کے نتیجے میں تمام ہی فریقین کی مکمل طور پر تباہی ہو جائے گی اور اس طرح کی جنگ کے نتیجہ میں کوئی بھی فتح یاب نہیں ہو پائے گا۔

عجیب بات ہے کہ ایک طرف پوری دنیا میں ہتھیاروں بالخصوص ایٹمی ہتھیاروں اور میزائل ٹیکنالوجی کے فروغ کے خلاف ایک مستحکم اور منظم مہم چلائی جا رہی ہے تو دوسری طرف انہیں ترقی یافتہ ممالک میں،جو اس قسم کے صورتحال کو کنٹرول کرنے کا علم بلند کیے ہوئے ہیں، اس قسم کی ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے دن رات ریسرچ اور محنت ہو رہی ہے اور اس کام کے لیے بہت بڑے بڑے بجٹ مختص کئے گئے ہیں۔ اپنی جغرافیائی صورتحال اور بعض ہمسایہ ممالک کے جارحانہ رویہ کی وجہ سے پاکستان بھی اس دوڑ میں شامل ہونے پر مجبور ہے۔ اگر موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے پاس ایک طرف تو ہمسایہ ملک بھارت کے تقریبا ً برابر ایٹمی ہتھیار موجود ہیں تو دوسری طرف، بلا مبالغہ، اس کے پاس بھارت سے کہیں بہتر اور جدیدمیزائل ٹیکنالوجی موجود ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ بھارت کی علاقہ کا تھانیدار بنے کی خواہش اور کوشش ابھی تک ایک خواب ہی ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں جب مقابلہ تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور اقتصادیات میں ہونا چاہیے پاکستان اور بھارت سمیت دنیا کے بے شمار ممالک، جہاں بھوک ، افلاس اور بیروزگاری حد سے زیادہ ہے، فوجی تیاریوں اور ہتھیار اکٹھا کرنے کی مقابلہ بازی میں اربوں روپے جھونک رہے ہیں اور ایسی ایسی برفیلی چوٹیاں جہاں عام حالات میں زندگی تک ممکن نہیں فوجیں تعینا ت کی ہوئی ہیں ۔ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں اور عسکری قیادت کے فیصلے تو اپنی جگہ لیکن یہاں تو عام عوام کی سوچ اور رویے بھی کامیاب جوہری دھماکوں اور میزائلوں کے ڈھیر لگانے کو ہی اپنے ملک کی طاقت اور ترقی گردانتے ہیں۔

اب اسے عقل، تعلیم یا آگاہی کی کمی کے علاوہ اور کیا کہیں گے کہ جوہری ہتھیاروں سے وابستہ خطرات کا بخوبی علم ہونے کے باوجود ناصرف دونوں ملکوں کے عوام بلکہ کچھ سیاستدانوں بھی ان کے استعمال کی دھمکیوں دیتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ کوئی کچھ بھی کہے یا کوئی بھی نظریہ یا فلسفہ پیش کرے یہ تو ایک حقیقت کہ یہ ایٹمی صلاحیت اور میزائلوں کی دستیابی ہی ہے جس نے بھارت کے جارحانہ عزائم کو بریک لگا رکھی ہے اور یہ پاکستان کے ساتھ برابری کی سطح پر بات چیت کرنے کے لیے مجبور ہے۔ آج کی جدید دنیا میں سیکورٹی کو تکنیکی صلاحیتوں سے ہی ناپا جاتا ہے اور اسی وجہ سے اگر یہ کہا جائے کہ میزائل ٹیکنالوجی کا فروغ اور اس سلسلہ میں کیے جانے والے تجربات طاقت کے ذریعے امن کو برقرار رکھنے کا ایک ضروری پہلو ہیں تو زیادہ غلط نہ ہو گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میزائل ٹیکنا لوجی میں پاکستان نے اپنا لوہا منوایا ہے اس اس سلسلہ کا تازہ ترین تجربہ درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل شاہین II (حتف 6) ہے جو 2000 کلومیٹر دور تک ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

نیشنل انجینئرنگ اینڈ سائنٹیفک کمیشن (NESCOM) کی طرف سے تیار کردہ، شاہین II بیلسٹک میزائل روایتی اور جوہری دونوں طرح کے وار ہیڈز سے لیس ہو سکتا ہے اور اسے پاکستان کے پاس دستیاب جدید ترین میزائلوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، جس میں ملٹیپل انڈیپنڈنٹ ری انٹری وہیکل (MIRV) کی صلاحیت موجود ہے۔

مسلح افواج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، لانچ کا مقصد فوجی اہلکاروں کو تربیت دینا، مختلف تکنیکی پیرامیٹرز کی توثیق کرنا اور مختلف ذیلی نظاموں کی کارکردگی کا جائزہ لینا تھا۔میزائل کی لانچنگ کا مشاہدہ کرنے کے لیے سٹریٹیجک پلانز ڈویژن، سٹریٹجک فورسز کمانڈ کے سینئر فوجی حکام کے ساتھ ساتھ سائنسدانوں اور انجینئرز بھی موقع پر موجود رہے۔

شاہین II (حتف 6) میزائل کا وزن تقریباً 24,000 کلوگرام ہے اور یہ 1,200 کلوگرام تک کا روایتی وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہ دو مرحلوں کا میزائل ہے جو ٹھوس پروپیلنٹ سے چلتا ہے، جس میں گائیڈنس سسٹم ہے جس میں Inertial اور ٹرمینل ٹیکنالوجی استعمال ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ رواں برس جنوری میں، پاکستان نے مقامی طور پر تیار کردہ Fatah-II میزائل کا بھی کامیاب تجربہ کیا تھا۔

پاکستان جنوبی ایشیا کا پہلا ملک ہے جس نے MIRV کی صلاحیت رکھنے والے بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا ہے ، اور اس طرح اپنے روائتی حریف بھارت کو بھی پیچھے چھوڑ دیاہے، جو ابھی تک اپنے بیلسٹک میزائل ڈیولپمنٹ پروگرام میں ترقی کی اس سطح تک نہیں پہنچ پایا۔ MIRV صلاحیت کے ساتھ درمیانے فاصلے تک مار کرنے والا بیلسٹک میزائل: ’ابابیل‘، جس کی رینج 2200 کلومیٹر ہے، ترقی کے مرحلے میں ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اس وقت دنیا کی نویں فوجی قوت ہے اور یہ عسکری صلاحیتوں اور اخراجات کے حوالہ سے صرف ریاستہائے متحدہ امریکہ، روس، چین، ہندوستان، جنوبی کوریا، برطانیہ، جاپان اورترکیہ اس سے آگے ہیں رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوری 2024 تک، پاکستان کے پاس 3,700 سے زیادہ ٹینک، 1,400 فوجی طیارے، نو آپریشنل آبدوزیں، اور 654,000 فعال فوجی اہلکاروں کی ایک مضبوط فورس کے علاوہ خاطر خواہ ہتھیار موجود ہیں جو علاقہ میں کسی بھی قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے کافی ہیں۔

اتنی بڑی پرفیشنل آرمی، بہترین ہتھیار، جوہری صلاحیت اور میزائل ٹیکنالوجی نے یقینی طور پر پاکستان کے دفاع کو بیرونی خطرات سے تو مکمل طورپر محفوظ بنا رکھا ہے۔ رہی بات اندونی خطرات اور دشمنی کی تو ان سے نمنٹنا صرف فوج کی ذمہ داری نہیں اور نا ہی انہیں ایٹمی طاقت یا میزائلوں کے زریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے بلکہ اس مقصد کے لیے لیے پوری قوم کو یکجا ہو کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔