مبارک ثانی کیس: سپریم کورٹ کا علمائے کرام سے معاونت حاصل کرنے کا فیصلہ

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے مبارک ثانی نظر ثانی کیس میں علمائے کرام سے معاونت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ مبارک ثانی کیس میں پنجاب حکومت کی مخصوص پیراگراف کو حذف کرنے کی درخواست پر سماعت کر رہا ہے۔ اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سمیت متعدد علماء کرام عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے درخواست دائر کی گئی ہے، 29 مئی کو عدالت کا ایک فیصلہ آیا، علماء کرام اوراراکین پارلیمنٹ نے وفاق کو درخواستیں دیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیصلے میں کچھ ایسے پیراگراف تھے جن پر عدالت کی توجہ چاہتے ہیں، یہ دینی معاملہ ہے، عدالت مناسب سمجھے تو علماء کرام سے سن لے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کبھی کوئی غلطی ہو تو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے ، جنہوں نے نظرثانی درخواست دائر کی ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں، اگر ہم سےکوئی غلطی ہوجائے تو اس کی اصلاح بھی ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم یہ تعین کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری کون کون رہنمائی کرے گا۔چیف جسٹس نے مولانا فضل الرحمان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کوئی غلطی یا اعتراض ہے تو ہمیں بتائیں، ہم دیگر اکابرین کو بھی سنیں گے۔
اس دوران مفتی تقی عثمانی ترکیہ سے بذریعہ ویڈیو لنک عدالت میں پیش ہوئے۔دوران سماعت علامہ تقی عثمانی نے عدالت کی معاونت کرتے ہوئے 29 مئی کے فیصلے سے دو پیراگراف حذف کرنے کا مطالبہ کر دیا، انہوں نے کہا کہ فیصلے کے پیراگراف 7 اور 42 کو حذف کردیا جائے۔

عدالت نے لطیف کھوسہ اور حامد رضا کو بات کرنے سے روک دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی وکیل کو نہیں سنیں گے یہ واضح کر رہے ہیں۔ جس پر لطیف کھوسہ بولے کہ میں بطور رکن پارلیمنٹ اور قائمہ کمیٹی ممبر پیش ہو رہا ہوں، صاحبزادہ حامد رضا کے نکتہ اعتراض پر ہی سارا معاملہ شروع ہوا تھا۔

چیف جسٹس نے صاحبزادہ حامد رضا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ دیگر علماء سے بڑے ہیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ درس نظامی کا فاضل ہوں، کسی سے بڑے ہونے یا برابری کا دعویٰ نہیں کرتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں اور عدالتی کارروائی چلنے دیں۔

چیف جسٹس نے مفتی تقی عثمانی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے مطابق دو پیراگراف ختم ہونے چاہئیں، مزید کچھ کہنا چاہیں تو بتا دیں۔اس کے بعد چیف جسٹس پاکستان نے مولانا فضل الرحمان کو روسٹرم پر بلالیا۔
چیف جسٹس نے کہا مولانا صاحب آپ کے آنے کا شکریہ۔ مولانا فضل الرحمان نے مفتی تقی عثمانی کی گزارشات کی حمایت کردی۔