روزنامہ ڈان کے 31جولائی 2024ء کے شمارے میں ایک خبر شائع ہوئی ہے۔ خبر کا عنوان یہ ہے کہ خلیج کی ریاستوں نے پاکستانی افراد کو نوکری دینا ترک کردیا ہے کیونکہ پاکستانیوں کا تعلیم اَور ہنر کے لحاظ سے معیار گرتا جارہا ہے۔ خبر یہ تھی کہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کے حوالے سے سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو یہ بتایا گیا کہ متحدہ عرب امارات ، قطر، کویت، سعودی عرب وغیرہ نے مختلف حوالوں سے پاکستانی افراد کے معاملات کو غیر تسلی بخش قرار دِیا ہے۔ پاکستانی افراد جدید ٹیکنالوجی سے بے بہرہ ہیں۔ اِن ممالک میں جدید ٹیکنالوجی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ چنانچہ پاکستانی وہ کام نہیں کر پاتے جو اْن سے کہے جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ پاکستانیوں کا اخلاقی لحاظ سے دِیوالیہ نکلا ہوا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے یہ شکایت کی کہ پاکستانی افراد عورتوں کی چھپ کرویڈیو بناتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔ یہیں پر پچاس فیصد جرائم پاکستانی کررہے ہیں۔ سعودی عرب اَور عراق میں پاکستانی زائرین کے طور پر جاتے ہیں اَور وہاں جاکر بھیک مانگنا شروع کردیتے ہیں۔ سعودی عرب میں پکڑے جانے والے بھکاریوں میں سے نوے فی صد پاکستانی ہیں۔ چنانچہ اَب یہ ممالک دْوسرے ملکوں کے افراد کو نوکریاں دے رہے ہیں اَور اْنہوں نے پاکستانیوں کو نوکریاں دینا بند کردی ہیں۔ اِن دْوسرے ممالک میں بنگلہ دیش بھی شامل ہے جہاں کے لوگ نہ صرف زیادہ پڑھے لکھے ہیں بلکہ پاکستانیوں سے زیادہ ہنرمند بھی ہیں۔ مزید یہ کہ وہ اخلاقی لحاظ سے بھی ہم سے بہتر ہیں۔
اِ ن ممالک میں نوکریوں کا بند ہوجانا جہاں ایک معاشی زاویہ رکھتا ہے کہ وہاں سے کروڑوں ڈالر سالانہ پاکستان آتے ہیں، اِس کا ایک دْوسرا پہلو بھی ہے۔ اْس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ خبر ساری دْنیا میں پھیلی ہوگی۔ چنانچہ ہر جگہ پاکستان کی عزت خاک میں ملی۔ ہمیں ایک خوفناک قسم کی شرمندگی کا سامنا ہے۔ لیکن اِس شرمندگی پر کسی نے توجہ نہیں دینی۔ مزید یہ کہ اِس صورتِ حال پر ہم کیوں پہنچے، اِس پر بھی کوئی توجہ نہیں دے گا۔ ہمیں صرف ڈالروں سے غرض ہے۔ چنانچہ ہماری کوشش ہوگی کہ کسی طرح اْن کی آمد میں کوئی فرق نہ آنے پائے۔ لیکن یہ اصل میں ٹائی فائیڈ کے مریض کے بخار کو توڑنے کے لیے صرف پیراسٹامول دینے اَور اینٹی بائیوٹک کی طرف توجہ نہ دینے کے مترادِف ہے۔ وہ مریض زیادہ عرصہ پیراسٹامول پر زندہ نہیں رہ سکے گا۔ اصل مرض کے تدارک کے بغیر اْسے بچانا ناممکن ہوگا۔
ہمارا اصل مرض کئی جہتوں پر پھیلا ہوا ہے۔ اِس پر ہم اِس سے پہلے مختلف طریقوں سے روشنی ڈالتے رہے ہیں۔ اِس میں پہلی جہت ہمارا تعلیمی نظام ہے۔ یہ نظام ہمیں کبھی ترقی نہیں کرنے دے گا۔ اِسی نظام سے وہ لوگ نکل رہے ہیں جن کے پاس کوئی ہنر نہیں ہے۔ وہ جدید ٹیکنالوجی سے بے بہرہ ہیں۔ اْن کے نزدِیک جدید ترین ٹیکنالوجی کا نام کمپیوٹر ہے۔ اَور کمپیوٹر کا اِستعمال یہ ہے اِس پر فلمیں دیکھی جائیں، گانے سنے جائیں، سوشل میڈیا پر بک بک کی جائے یا فراڈ کیے جائیں۔ اِس کے علاوہ ہمیں کمپیوٹر کا کوئی مصرف نہیں معلوم۔ انجینئرنگ، سائنس، طب، ریاضی وغیرہ میں ہونے والی جدید تحقیق سے ہم بالکل فارِغ ہیں۔ چنانچہ جب ہم باہر جاتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ ہم کسی دوسری کہکشاں میں آگئے ہیں۔ اِسی ناکارہ تعلیمی نظام کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری آبادی قابوسے باہر ہے۔ ہم ابھی تک یہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ خاندانی منصوبہ بندی ملک کے لیے کس قدر اہم ہے۔ اِسی طرح نرسوں کی جدید تربیت کا ہمارے یہاں کوئی بندوبست نہیں ہے۔ چنانچہ یہ نوکریاں عرصہ ہوا ہمارے ہاتھ سے نکل چکی ہیں۔
دْوسرا پہلو یہ ہے کہ ہمارے بچوں کی کسی سطح پر بھی کوئی تربیت نہیں ہوتی۔ اسکول گلی محلوں میں کھلے ہوئے ہیں جہاں صرف کورس ختم کرایا جاتا ہے۔ والد دو وقت کی روٹی پوری کرنے کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں۔ والدہ کے پاس ڈرامے دیکھنے، بچوں کے کپڑے دھونے، کھانا بنانے اَور خاندانی سیاست میں حصہ لینے کے بعد اِتنا وقت نہیں بچتا کہ وہ بچوں کی تربیت کرسکیں۔ چنانچہ آپ دیکھیں کہ ہمارے بچے اَور نوجوان بالکل جانتے ہی نہیں کہ سڑک پر کوڑا نہیں پھینکنا، دْوسروں کو گالی نہیں دینی، فحاشی بری چیز ہے، ٹریفک کے قوانین کی پابندی ہر شہری کا فرض ہے،ملاوٹ اَور بے اِیمانی نہایت قبیح افعال ہیں، جھوٹ بولنا نہایت برا کام ہے، دوسروں کی بہو بیٹیوں کی بھی کوئی عزت ہوتی ہے وغیرہ۔ اب یہ بالکل مادر پدر آزاد ہیں۔ جس کا جو دِل کرتا ہے وہ کرتا ہے۔ ہمارے لوگوں کے نزدِیک ہر وہ کام جائز ہے جس میں اپنا فائدہ ہے۔ مذہب کا تعلق صرف نماز روزے سے ہے۔ سو نماز جمعے کے جمعے پڑھ لینی چاہیے اَور رمضان میں روزے رکھ لینے چاہئیں۔ اِس کے بعد ہمارا دِین ختم ہوجاتا ہے۔
تیسرا پہلو یہ ہے کہ پاکستانی نہایت مغرور قوم بن چکی ہے۔ ہمارا خیال ہے، بلکہ ہمیں یقین ہے، کہ ہم جو جانتے اَور مانتے ہیں وہ بالکل ٹھیک ہے اَور ہمیں اِس بات کا پورا اِختیار حاصل ہے کہ ہم اَپنی مخالف سوچ والے کی بے عزتی کریں، اْسے برا سمجھیں، اْسے زبردستی اْس سوچ پر لائیں جو ہماری ہے۔ چنانچہ آپ دیکھیں کہ ہم کچھ بھی سننے اَور سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ہم صرف سنانا اَور سمجھانا جانتے ہیں۔ اِس لحاظ سے ہمارے دِماغ بالکل بند ہوچکے ہیں۔ حال ہی میں برطانیہ کے اْن علاقوں میں جہاں پاکستانی مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے یہ پوسٹر لگے نظر آئے کہ یہ مسلم علاقہ ہے یہاں کتے لانا منع ہے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے اَپنے ملک میں ہر جگہ آوارہ کتے گھومتے رہتے ہیں۔ بے شمار لوگوں نے کتے پالے ہوئے ہیں۔ برطانیہ جاکر ہمیں خیال آگیا کہ ہم مسلمان ہیں لہٰذا ہمیں کتوں سے دْور رہنا ہے۔ کسی نے نہیں سوچا کہ بھئی پہلے اَپنے ملک میں تو کتوں کا بندوبست کرلو۔ پھر دْوسروں کو کہنا۔ اِسی طرح ایک پاکستانی مسلمان حال ہی میں برطانیہ میں گرفتار ہوا ہے کہ وہ دہشت گردی کو فروغ دے رہا تھا۔ اْس نے ایک ٹیلی وژن اِنٹرویو میں کہا کہ ہم برطانیہ اَور امریکہ میں شریعت نافذ کریں گے۔ اْس سے بھی کسی نے نہیں کہا کہ پہلے کسی مسلمان ملک میں تو شریعت نافذ کرلو پھر اِن ممالک کی طرف توجہ دینا۔
چوتھا پہلو یہ ہے کہ خراب تعلیمی نظام ایک طرف رہا، ہماری ایک بڑی تعداد اْن لوگوں پر مشتمل ہے جو کسی بھی قسم کے تعلیمی نظام سے نہیں گزرے۔ وہ چٹے ان پڑھ ہیں اَور چونکہ وہ اچھے ویلڈر، بڑھئی، مزدور وغیرہ ہیں اِس لیے اْنہیں خلیجی ممالک میں بھجوا دِیا گیا۔ کسی نے یہ نہیں سوچا کہ یہ چٹا اَن پڑھ جب ایک مہذب معاشرے میں جاکر رہے گا تو وہاں کیا کیا تباہی نہیں پھیلائے گا۔ وہاں وہ ہر قسم کی برائی میں ملوث ہوگا۔ چنانچہ یہی ہوا۔ سینیٹ کی کمیٹی کوجو کچھ بتایا گیا ہے وہ یہی ہے کہ یہ لوگ وہاں جرائم میں ملوث ہیں۔ پچاس فی صد جرائم پاکستانی کررہے ہیں۔
پانچواں پہلو یہ ہے کہ مذہبی جگہوں پر جاکر بھیک مانگنا ہمارے حساب سے بالکل ٹھیک ہے بلکہ بعض کے نزدِیک بڑا احسن فعل ہے۔ آپ میں سے جن لوگوں کو حج یا عمرے پر جانے کا اِتفاق ہوا ہے اْن کا واسطہ یقیناً پاکستانی بھکاریوں سے پڑا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ میری جیب کٹ گئی، میرا سامان گم ہوگیا، میں حج کے لیے آیا اَور یہیں رہ گیا کہ مکہ مدینہ سے زیادہ اچھی جگہ کون سی ہوگی۔ لیکن اَب میرے پاس کھانے کے پیسے نہیں ہیں۔ آپ مجھے کھلاپلا کر ثوابِ دارین حاصل کریں۔ نوے فیصد بھکاری اگر پاکستانی ہیں تو ہمیں تو ڈوب مرنا چاہیے۔ یہاں پر بھی ہر مسجد، ہر مزار کے باہر بھکاریوں کا رش لگا رہتا ہے۔ لوگ اْنہیں دینا بھی ثواب سمجھتے ہیں۔
ہمارے لیے اب ہر طرف دروازے بند ہورہے ہیں۔ ساری دْنیا میں ہماری بے عزتی ہورہی ہے۔ اْس دِن سے ڈریں کہ ہمارا کسی کام یا سیر کے لیے باہر جانا بھی مشکل ہوجائے۔ عالمی برادری میں بے عزتی منہ کھولے کھڑی ہے۔ قوموں کی زندگی میں عزت سے بڑھ کر اَور کیا چیز ہوتی ہے؟