مقامی حکومت کے کئی نام ہیں پہلے ان کو میونسپل کارپوریشن کہا جاتا تھا پھر یہ بلدیاتی ادارے کہلانے لگے کبھی ان کی ضلعی یا شہری حکومت کہا گیا پھر یہ لوکل باڈیز کے نام سے موسوم ہوئی وقت کے ارتقاء کے ساتھ اب انہیں سیلف گورنمنٹ یا اپنی حکومت کہا جانے لگا ہے لیکن یہ سب کاغذی باتیں ہیں حقیقی دنیا میں پاکستان میں ان کا وجود حکومت وقت کا مرہون منت رہا ہے اور ہر دور میں ہر سیاسی پارٹی نے برسراقتدار آ کر ان کے اختیارات پر نقب زنی کی واردات کی ہے۔ ہماری تمام سیاسی پارٹیاں ویسے تو ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہیں لیکن ایک بات پر سب کا اتفاق ہے کہ وہ مقامی یا ضلعی حکومت کو اختیارات دینے حتیٰ کہ بلدیاتی انتخابات کروانے کے سخت مخالف ہیں۔ اور اس اتفاق رائے میں کوئی اخلاقی یا قانونی جواز کی بجائے اختیارات کی ہوس اور بدنیتی صاف نظر آتی ہے۔
برصغیر میں مقامی حکومت کا آغاز انگریز نو آبادیاتی نظام میں 1882ء میں ہوا تھا جس میں انہوں نے اسے ایک سوشل سیفٹی والو کے طور پر مقامی باشندوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ اسی بدیشی اقتدار میں آپ کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہے تا کہ عوام کے اندر احساس محکومی میں کمی لائی جائے اور ایک ہلکا سا احساس ضرور ہو کہ گلی محلے کی حد تک فیصلہ سازی میں شریک ہیں تا کہ عوام اور حکومت کے درمیان فاصلوں کو کم کیا جائے۔ لیکن ہماری آج کی حکومتیں دور غلامی کی حکومت سے زیادہ بے رحم ثابت ہوئی ہیں کہ چاہے جو مرضی ہو جائے ہم مقامی اختیارات اور مقامی فنڈز کو ایم پی اے، ایم این اے اور سرکاری اہلکاروں کے ذریعے ہی تقسیم کریں گے۔ اس گناہ کبیرہ میں یہ سارے شامل ہیں جہاں بھی اور جب بھی بلدیاتی انتخابات کروائے گئے ہیں وہ کسی حکومت نے بہ رضا ورغبت نہیں بلکہ سپریم کورٹ کی مداخلت پر کروائے ہیں۔
اس وقت بھی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں مقامی حکومتی نظام مفلوج اور عضو معطل ہے حالانکہ بلوچستان سندھ اور کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات کروائے جا چکے ہیں 29 ستمبر کو اسلام آباد میں بھی لوکل باڈیز انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے مگر پنجاب کا سیاسی موسم ایسا ہے کہ دور دور تک انتخابات کا کوئی امکان نہیں ہے آخر پنجاب میں لاء اینڈ آرڈر یا دہشت گردی کا کون سا ایسا خطرہ ہے جو باقی تین صوبوں کو درپیش نہیں ہے۔ حکومت اپنے آپ کو لوکل باڈیز قیادت سے کیوں اتنار غیر محفوظ سمجھتی ہے کہ ان کے آنے سے ان کا اقتدار خطرہ میں پڑجائے گا۔
اس ہفتے لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں لوکل باڈیز انتخابات کے مطالبات کو اجاگر کرنے کے لیے ایک سیمینار منعقد ہوا جس کا اہتمام سول سوسائٹی کی تنظیموں فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (FAFEN) ، سنگت ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن اور شاہ حسین ریجنل نیٹ ورک نے باہمی اشتراک سے کیا تھا جس میں سول سوسائٹی وکلائ، اساتذہ، صحافیوں این جی اوز اور دیگر مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والوں کی نمائندگی اور یونین کونسل کے سابقہ عہدیدارون بشمول خواتین نے شرکت کی۔ سب کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ سالہا سال سے مقامی بلدیاتی ادارے حکومتی من مانی سے سرکاری نمائندوں کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں اس غیر جمہوری روش کا خاتمہ کر کے جلد از جلد مقامی حکومتوں کے انتخابات کروا کر ضلعی حکومتیں قائم کی جائیں تا کہ معاشرتی ترقی کا رکا ہوا سفر شروع ہو سکے اور عوام کے چھوٹے چھوٹے کام ہو سکیں۔ اس موقع پر مقررین کی سفارشات کا احاطہ کرنے کے لیے ایک الگ کالم درکار ہے۔ اس کالم میں ہم نے تمام اہل فکر و دانشن کی گفتگو کا نچوڑ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
اگر ہم آئین پاکستان کی چند شقوں کا مطالعہ کریں تو مقامی حکومت کے عدم قیام کے بارے میں ہمیں تمام حکومتیں آئین شکنی یا آئین کی صریحاً خلاف ورزی کی مرتکب نظر آتی ہیں لیکن ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ مثال کے طور پر آئین کے ابتدائیہ میں شق 7 میں کہا گیا ہے کہ ریاست میں وفاق اور صوبائی حکومت کے ساتھ مقامی ادارے شریک ہوں گے سپریم کورٹ نے پنجاب کیس میں 2021ء میں اس کی تشریح کرتے ہوئے قرار دیا کہ یہاں مقامی اداروں سے مراد منتخب مقامی حکومت ہے۔ ایسی صورت میں منتخب مقامی حکومت کا نہ ہونا آئین سے روگردانی کے مترادف ہے۔ اس طر ح آرٹیکل 32 میں مقامی حکومت کی تشکیل کا طریق کار واضح کیا گیا ہے آگے چل کر آرٹیکل 140 میں مقامی حکومت کے اختیارات کا دائرہ کار کا تذکرہ ہے۔
مقامی حکومت کو immediate government کہا جاتا ہے جو کہ عام آدمی کی دہلیز پر موجود ہوتی ہے وفاقی اور صوبائی حکومت کے بعد ضلعی حکومت کو Thirt tier of govt کہا جاتا ہے یہ وہ حکومت ہے جسے ہر شہری کو پیدائش سے لے کر موت تک واسطہ پڑتا ہے جو ان کی روزمرہ کی زندگی میں سہولتیں فراہم کرنے کا کام کرتی ہے۔
اس موقع پر ایک تجویز سامنے آئی کہ آئین کے اندر درج ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد جس طرح 90 دن کے اندر نئے انتخابات کروانا ایک ناگزیر آئینی ضرورت ہے اس شق کا دائرہ عمل بڑھاتے ہوئے ہمیں ایسی آئینی ترمیم کی ضرورت ہے کہ اس شق کا اطلاق ضلعی حکومت کی تحلیل کی صورت میں 90 روز کے اندر نئے انتخابات لازمی قرار دیے جائیں۔
اس موقع پر اس با ت کا تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں devolution of power یا اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کا جو قانون دیاگیا تھا اس میں مقامی حکومتوں کو مستحکم کرنے کا فول پروف انتظام تھا مگر سیاسی حکومتوں نے اس کا کریڈٹ فوجی حکومت کو نہ دینے کی خاطر اسے ترک کر دیا بعد ازاں 18ویں ترمیم میں آرٹیکل A-140 جو کہ مشرف کا دیا ہوا تھا اس میں معمولی ترمیم کے بعد اسے آئین کا حصہ بنایا
سب سے بڑی بد دیانتی بلکہ خیانت یہ کی جاتی ہے بلکہ بار بار کی جا رہی ہے کہ مقامی حکومتوں کو تحلیل کر کے اختیارات منتخب نمائندوں سے چھین کر سرکاری اہل کاروں کو دے دیے جاتے ہیں کیونکہ کسی بھی حکومت کے لیے بیورو کریسی کو دبانا آسان ہوتا ہے۔ بلدیاتی الیکشن نہ کروانے کی وجہ بھی یہ ہوتی ہے کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومت سازی میں جو بیرونی فیکٹر کام کرتے ہیں وہ ضلعی حکومت سازی میں کار آمد نہیں رہتے یہاں خالصتاً عوام نے اپنے گاؤں اور محلے کی قیادت کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں جب خارجہ بیساکھیوں پر کھڑی ہوتی ہیں تو وہ اتنی insecure یا غیر محفوظ ہوتی ہیں کہ وہ مقامی انتخابات کروانے سے گھبراتی ہیں۔
مقامی حکومت کے تصور پر مسلسل شب خون مارنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری قومی سیاست میں گراس روٹس سے آنے والی نئی قیادت کا بہاؤ رک چکا ہے کیونکہ یہ ادارے وفاقی اور صوبائی سیاست کی نرسری ہوتے ہیں یہاں سے قیادت پروان چڑھ کر قومی دھارے میں شامل ہوتی ہے۔ جب ان اداروں کا گلا گھونٹ دیاجائے گا تو نئی قیادت کہاں سے آئے گی۔ اس سے فطری طور پر موروثی سیاست کی راہ ہموار ہو گی یا سیاست میں پیسے کی ریل پیل کا اثر بڑھ جائے گا جس سے جمہوریت کا خسارا ہوگا۔