میرے بھانجے نے مجھ سے ایک عجیب سوال کیا۔ کہنے لگا’’ماما! یہ شہید کون ہوتا ہے؟ کس کو ہم واقعی شہید کہہ سکتے ہیں؟‘‘دیکھا جائے تو سوال بے جا نہیں ہے۔ ہمارے چاروں طرف شہیدوں کی قطار لگی ہوئی ہے۔ ہر شخص، ہر فرقے، ہر سوچ، ہر قوم کے اَپنے اَپنے شہید ہیں۔ کچھ لوگ آرمی پبلک سکول، پشاور میں قتل کیے جانے والے بچوں اَور اساتذہ کو شہید کہتے ہیں اَور قاتلوں کو بھیجنے والے اْن قاتلوں کو شہید سمجھتے ہیں۔ معرکہ کربلا میں دونوں طرف مسلمان تھے۔ کیا دونوں طرف کے لوگ شہید ہیں؟
اِس سوال کا جواب دینا تو بہت آسان ہے۔ لیکن اْسے سمجھنا اَور سمجھانابے حد مشکل ہے۔ اِس کے لیے اَپنے ذہن کو ہر طرح کے تعصب سے پاک کرکے، تمام گزشتہ خیالات اَور نظریات کو باہر نکال کر سوچنا اَور سمجھنا پڑے گا۔ بدنصیبی سے وہ ہم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اِسی وجہ سے ہمارے یہاں اِسی بات پر لڑائی رہتی ہے کہ جسے میں شہید مانتا ہوں، تم کیوں نہیں مانتے۔
بنیادی طور پر شہید کی تعریف اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ حکیم میں سْورۃ البقرۃ کی آیت نمبر154میں بیان فرما دی ہے۔ اِرشاد ہوا’’اَور جو (لوگ) اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں اْنھیں مردہ مت کہو۔بلکہ وہ زِندہ ہیں لیکن تم (اِس بات کو) سمجھ نہیں سکتے۔‘‘یہ آیت صاف بتادیتی ہے کہ شہید اصل میں کون ہے۔ یہ وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں مارا جائے۔ اَب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ کون سی ہے۔ اِس کا جواب پھر ہمیں قرآن اَور حدیث میں ڈھونڈنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ کیا ہے۔ یہ وہ راہ ہے جسے حق کہا جاتا ہے۔ وہ راستہ جو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اْس کے اَنبیائے کرام علیہم السلام نے اِختیار فرمایا اَور جونبی کریم ؐ کی سنت سے بھی ثابت ہے۔ صرف مسلمان کا کسی لڑائی میں مارا جانا اْسے شہادت کے درجے تک نہیں پہنچا دیتا۔ اِسی طرح کسی مسلمان کو پھانسی کی سزا ہونا یا اْس کا بم دھماکے میں مارا جانا اْسے شہید نہیں بنادیتا۔ اگر کسی مسلمان کو اِس لیے مارا جائے کیونکہ وہ حق بات کہتا تھا یا اْس کی جدوجہد کررہا تھا یا اْن لوگوں کے ساتھ تھا جو حق کی جدو جہد کررہے تھے یا وہ اِس لیے مارا جائے کیونکہ وہ مسلمان ہے تو اْسے شہید کہا جاسکتا ہے۔ حق کی جدو جہد یہ ہے کہ اِنسان سچ کا ساتھ دے۔ وہ باطل کے خلاف کھڑا ہو۔ غلط کو غلط کہے۔ یہ سب کرنے میں جو تکالیف اَور نقصانات اْسے اْٹھانا پڑیں اْن کے لیے وہ ذہنی طور پر تیار ہو۔لیکن اِس کا آخری فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کرے گا کہ کس کی نیت کیا تھی، کس کی زِندگی اَور عمل حق کے ساتھ تھی۔ ہم زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں کو شہیدکہاجاسکتا ہے۔ وہ دراصل شہید ہے یا نہیں، اِس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کرے گا۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا ’’روزِ قیامت ایک شخص کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اْسے اَپنے اِحسانات یاد کرائے گا جو اْس نے اْس شخص پر کیے تھے۔ وہ شخص اْن اِحسانات کو تسلیم کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تم نے اْن اِحسانات کے بدلے میں کیا کیا۔ وہ شخص کہے گا کہ میں تیری راہ میں لڑا اَور شہید ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ تم نے اِس لیے لڑائی میں حصہ لیا تاکہ تمھیں بہادر کہا جائے۔ سو وہ کہا جاچکا۔ پھر اْس شخص کو منھ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دِیا جائے گا۔‘‘(مسلم، ترمذی، نسائی)۔
اِس مضمون کیلئے ہم چند مثالوں سے بات کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ مثالیں یہ بتائیں گی کہ ہم کس کو شہید کہہ سکتے ہیں۔ اِن مثالوں میں ہم یہ فرض کریں گے کہ جن لوگوں کا ذِکر ہورہا ہے اْن کی زِندگی کم و بیش اللہ تعالیٰ کی راہ میں گزری۔گویا وہ صرف نام کا مسلمان نہ ہو بلکہ اَصل میں وہ مومن ہو جسے قرآن اَور حدیث مومن سمجھتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ صرف نمازیں پڑھنا، روزے رکھنا، داڑھی رکھنے والا مومن نہیں ہے۔ مرنے کے حوالے سے اْن کے ذِہن میں یہ نہیں تھا کہ اِس سے مجھے کوئی دْنیاوی فائدہ حاصل ہوجائے گا۔ جس کی زِندگی معصیت میں گزر رہی ہو وہ اَچانک ایک حادثے کی صورت میں شہید نہیں ہوسکتا۔ پہلی مثال یہ(باقی صفحہ 4بقیہ نمبر2)ہے کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آرمی پبلک سکول پشاور کے بچے اَور اساتذہ جو قتل کیے گئے کیا وہ شہید ہیں۔ آرمی پبلک سکول کے بچے اَور اساتذہ اِس لیے قتل کیے گئے کیونکہ وہ پاکستان آرمی کا سکول تھا اَور پاکستان آرمی دہشت گردوں کے خلاف جہاد کررہی ہے۔ اْن دہشت گردوں نے پاکستان آرمی کو سبق سکھانے کے لیے ایک آسان ہدف اپنایا اَور وہاں جاکر بربریت کا کھیل کھیلا۔ چنانچہ وہ بچے اَور اساتذہ اِس لیے قتل کیے گئے کیونکہ اْن کا تعلق اْن لوگوں سے تھا جو دہشت گردی کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ یوں وہ بچے اَور اساتذہ شہید تصور کیے جائیں گے کیونکہ وہ حق کے ساتھی تھے۔ یا یوں کہیں کہ حق اْن کا ساتھی تھا۔ جن لوگوں نے یہ سمجھا کہ بے گناہ اِنسانوں کا خون بہانا جائز ہے وہ دائرہ اِسلام سے خارِ ج ہوگئے۔ چنانچہ جب وہ اپنے گھر سے اِس گھناؤنے کام کے لیے نکلے تھے تو وہ کافر تھے۔ کافر کبھی شہید نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ کا مسافر ہی نہیں ہے۔
اِس کی دْوسری مثال غزہ کی صورتِ حال ہے۔ وہاں فلسطینی صرف اِس لیے قتل کیے جارہے ہیں کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ اِسرائیل وہاں سے مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کردینا چاہتا ہے یا بہت چھوٹی اقلیت بنا دینا چاہتا ہے۔ وہ تمام فلسطینی شہید ہیں۔ اِس کی تیسری مثال واقعہ حرہ ہے۔ جب یزید نے مدینہ منورہ کے لوگوں کو سبق سکھانے کے لیے وہاں فوج کشی کی تھی اَور تین دِن تک خوب قتل وغارت مچائی تھی تو وہ مسلمان جو قتل ہوئے بھی شہید ہی تھے کیونکہ وہ اِس لیے قتل کیے گئے کہ وہ حق کا ساتھ دے رہے تھے یا ساتھ دینے کا سوچ رہے تھے۔ وہ تمام فوجی جنھوں نے وہاں لوگوں کی جان لی فسادی تھے۔ چوتھی مثال پولیس یا فوج کے اْس سپاہی کی ہے جو اَپنی ڈیوٹی دے رہا تھا اَور اْسے اِس لیے قتل کردِیا گیا کیونکہ وہ پولیس یا فوج کا ملازم تھا۔ پولیس یا فوج کی ڈیوٹی بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہوتی ہے۔ معاشرے کو جرم سے پاک کرنا یا اِسلامی ملک کی حفاظت کرنا اللہ تعالیٰ کی راہ میں کیے جانے والے کام ہیں۔ چنانچہ وہ سپاہی بھی شہید ہے خواہ وہ کسی سے لڑتے ہوئے جان نہ بھی دے۔
ہم لوگوں نے سیاسی مقتولین کو بھی شہید کہا۔ حادثاتی موت مرنے والے بھی شہیدکہلائے۔ ایک بات طے ہے کہ جو شخص یہ سمجھے کہ کسی بے گناہ کی جان لینا دْرست ہے یا گناہ گار کی جان خود ہی لے لینا ٹھیک ہے وہ دراصل فسادی ہے اَور اْس کا دِین اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یوں تمام دہشت گرد، وہ لوگ جو اَپنے مقاصد کے لیے معصوم لوگوں کی جان لیتے ہیں کسی طور مسلمان نہیں کہلاسکتے۔ اِسلام میں یوں چھپ کر کسی بے گناہ پر حملہ کرنا جو کسی کے خلاف برسر پیکار نہیں ہے یا یوں کہہ لیں کہ جنگ میں شریک نہیں ہے، سختی سے منع ہے۔ پھر اگر وہ مرنے والا مسلمان بھی ہو تو مارنے والا اَپنے لیے ہمیشہ کی جہنم لکھوا لیتا ہے۔ یہاں لوگوں کو بتایا گیا کہ چونکہ پاکستان میں اِسلامی نظام نہیں ہے، لہٰذا یہاں رہنے والاہر شخص باطل نظام کے تحت زِندہ ہے اَور یوں واجب القتل ہے۔ یہ وہ فتنہ ہے جس نے بے شمارلوگوں کو گمراہ کیا اَور اْن فسادِیوں کے خلاف جہاد عین حق ہے۔
لہٰذا ہر مرنے والا شہید نہیں ہے۔ شہید وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دے۔ شہید کا رْتبہ بہت بلند ہے۔ یہ وہ شخص ہے جو قتل ہوکر بھی نہیں مرتا۔ اِسے رَبّ تعالیٰ کی طرف سے رِزق ملتا رہتا ہے۔ یہ سیدھا جنت میں چلا جاتا ہے۔ چنانچہ اِس مرتبے کو حاصل کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ جن کے رْتبے ہیں سوا، اْن کی سوا مشکل ہے۔ چْنانچہ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ اگر زِندگی اللہ تعالیٰ کی راہ میں بسر ہورہی ہے تو قتل کی صورت میں ہمارا شہید ہونا ممکن ہے ورنہ ہم صرف مقتول ہی رہیں گے۔