علی حصام… کہیں یہ گاڑی بھی نہ چھوٹ جائے

جوڑ توڑ، پسند ناپسند، کس کا ساتھ دینا ہے، نہیں دینا، ووٹ کس کا، حقدار کون، لاہور چیمبر کے انتخابات جیسے تیسے اپنی تاریخ کے قریب ہوتے جا رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ لاہور تاجر برادری بھرپور انداز میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ اپنے اپنے گروپس میں ایک دوسرے کو جتوانے اور ہرانے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے صبح سے رات گئے تک مصروف عمل ہیں۔ یہ بڑی تبدیلیوں کا موسم ہے، دنگل شروع ہو چکا ہے۔ ہر گروپ اپنے اپنے پہلوان اکھاڑے میں اتار رہا ہے۔ ٹکٹوں کے لین دین میں کہیں معافیاں، کہیں تلافیاں، کہیں وعدے تو کہیں گولے اور گولیاں دینے کا عمل جاری و ساری ہے۔ 15اگست سے انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز ہوگا، الیکشن کمیٹی منظر پس منظر میں اپنی حکمت عملی طے کر رہی ہے۔

پیاف فاؤنڈر اتحاد بننے کے بعد سے انتخابی سرگرمیوں میں بڑی تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ کل تک جو اکیلے تھے آج وہ ہجوم بنتے جا رہے ہیں اور جو ہجوم تھے ان کے بکھرنے کی آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں۔ یہ سیاست ہے اس میں کیا ہونے جا رہا ہے یہ کسی کو خبر نہیں۔ میرے نزدیک اچھی بری سیاست میں لیڈرشپ کا بڑا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ اس سیاسی شطرنج میں کس گھوڑے کو کہاں استعمال کرنا ہے یہی تو لیڈر کی ذہانت ہوتی ہے اور اگر ذرا سی بھی جھوک ہو جائے پوری گیم الٹ جاتی ہے۔ ٹریڈ سیاست میں پرانی اور تجربہ کار سیاست کے سامنے نئی قیادت کو بڑی سوج بوجھ کے ساتھ کھیلنا ہوتا ہے۔ پرانوں کے پاس تجربہ تو نئے جوش و جذبہ تو رکھتے ہیں مگر ان کے پاس شطرنج کے گھوڑے دوڑانے کا تجربہ نہیں ہوتا اور وہ کہیں نہ کہیں مات کھا جاتے ہیں۔ میرا یہاں یہ بھی مؤقف ہے کہ اگر معاشرے میں معافی مانگنے اور معاف کرنے کا عمل شروع ہو جائے تو ظلم کا عمل رک جاتا ہے۔ خود پسندی ترک ہو جائے تو بھی ظلم رک جاتا ہے۔ انا کا سفر ختم ہو جائے تو ظلم کا سفر ختم ہو جاتا ہے۔ ٹریڈ سیاست کرنے والی لیڈرشپ کو علم ہونا چاہئے کہ جمہوریت کا عمل آپ کے گروپ میں اس وقت بہتر تصویر میں نظر آتا ہے جب وہ اپنے تمام اخلاقی رنگوں میں بھری ہو کہ یہی جمہوریت سقراط کو زہر پلاتی ہے، اس کو سولی چڑھاتی ہے، عیسیٰ ؑ کا احترام نہیں کرتی تو جمہوریت اس وقت خطرناک کھیل بن جاتا ہے جب قیادتیں بروقت فیصلے نہیں کر پاتیں۔

یہی حال گزشتہ دو تین ہفتوں سے ٹریڈ سیاست میں دکھا جا رہا ہے۔
کسی گروپ کے اندر اختلاف رائے رکھنا ہی جمہوریت کا اصل حسن ہے مگر جب آپ ان اختلافات کو ذاتیات، مفادات اور میں نہ مانوں کے پیرائے میں لکھ دیتے ہیں تو پھر وہ حسن نہیں ایک بدنما داغ بن جاتا ہے۔ علی حصام کے بارے میں میری ذاتی رائے ہے کہ وہ اپنے نوجوان ویڑن کے ساتھ بہت کچھ کرنا چاہتا ہے۔ اچھی بات ہے کہ پرانی اور تجربہ کار لیڈرشپ سے آپ اختلاف رائے رکھتے ہوئے ایک اور گروپ بنا جاتے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ کامیابی ایک دم آپ کے گلے کا ہار بن جائے۔ اس کے لیے جہاں بہت وقت درکار ہوتا ہے وہاں یہ بھی دیکھنا ہے کہ آپ کے کارواں میں شامل لوگ کس قدر تجربہ کار اور لیڈرشپ کے وژن کے ساتھ گروپ کے قد کو بڑا کر پاتے ہیں یا نہیں۔ یہاں امین و صادق کا فیصلہ بھی ممکن نہیں، اپنے اردگرد بیٹھے لوگوں کی شناخت بھی اب مشکل ہو گئی ہے۔

علی حصام کی لیڈرشپ کا اپنا ایک الگ سے معیار ہے۔ میرے پاس اس معیار کو ماپنے کا پیمانہ تو نہیں ہے مگر اچھے لیڈر کو دو نہیں چار آنکھیں رکھ کر اپنے مستقبل کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ جولائی کے آغاز میں ٹریڈ سیاست میں پائنیر گروپ کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ میاں شفقت علی کی پیاف کے ساتھ جارہاہے مگر ان کے ساتھ بات نہ بن سکی دوسری فاؤنڈر زنے میاں شفقت علی کے ساتھ مل کر ٹریڈ سیاست کے تمام رخ اپنی طرف موڑ لیے۔ اب علی حصام کو ایک بڑے اور فیصلہ کن مرحلے سے گزرتے ہوئے تجربہ کار پہلوانوں کا یا تو اکیلے مقابلہ کرنا ہے یا مارکیٹ میں افواہوں کا بازار گرم ہے کہ وہ میاں انجم نثار گروپ کے ساتھ انتخابی اتحاد کرکے نیا اتحاد بنائے گا مگر میرے ساتھ اب تک کی گئی ملاقاتوں کے دوران یہ مؤقف کہ میں کسی بھی طور پر انجم نثار گروپ کے ساتھ معاہدہ نہیں کروں گا جبکہ میں اپنے کئی کالمز میں اس بات کا اظہار کر چکا ہوں کہ اگر پائنیر گروپ یہ سمجھتا ہے کہ وہ اتنی طاقت رکھتا ہے کہ وہ دو تین بڑے گروپس کی موجودگی میں زیادہ سیٹیں نکال لے گا تو پھر اس کو کسی کے ساتھ اتحاد نہیں کرنا چاہئے۔ یوں بھی یہ ان کا پہلا ٹریڈ انتخابی معرکہ ہے۔ ہار جیت کے حصار سے نکل کر اس کو چاہئے کہ وہ اکیلے انتخابی عمل میں سے گزر جائے کم از کم انتخابی پراسیس میں ان کا نام تو بحیثیت ایک پارٹی نقش ہو جائے گا۔ گزشتہ دنوں علی حصام گروپ کا فاؤنڈر کے ساتھ بیک ڈور رابطہ ہوا ہے اس رابطے کے پس منظر میں میری معلومات کے مطابق گل بات سیٹیں کے معاملے میں آگے نہیں بڑھ پائی جبکہ فاؤنڈرز کی لیڈرشپ نے علی حصام کو واپس گھر آنے کا عندیہ دے دیا ہے جو کم از کم علی حصام کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔

کہتے ہیں کہ جب ہوا چلتی ہے تو اپنے رخ بدل دیتی ہے اور جو لوگ ہوا کے بدلتے مزاج کو جانتے ہیں وہ فیصلے کرنے کی قوت بھی رکھتے ہیں۔ اچھی قیادت جب بروقت فیصلے کرتی ہے تو پھر ہوا کے رخ اس کی طرف مڑ جاتے ہیں۔ وہ چہرے جن پر آپ کو بہت ناز ہوتا ہے وقت بدلنے کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔ اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔ یہاں دیکھنا ہوتا ہے کہ وقت کدھر لے جا رہا ہے۔ پاکستان میں انتخابی مہم اور پھر انتخابات تک آپ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ کب کیا ہو جائے اور کب صبح کا دوست، رات آپ کے مخالفین کے ساتھ بیٹھ جائے لہٰذا علی حصام سے بھی یہی گزارشات ہیں کہ وہ جن کو اپنا بڑے ہونے کا دعویٰ کرتا ہے وہ بڑے تجربہ کار اور ٹریڈ سیاست کو سمجھتے ہیں، انہی کی مان لے یا پھر ٹریڈ سیاست میں پھیلی باتوں کو ختم کرے اور پھر ڈٹ جائے یہ کہاں لکھا ہے کہ اتحاد کے بغیر انتخاب نہیں لڑا جا سکتا اگر علی کے پاس ووٹ مکمل ہیں اور وہ جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو پھر ابھی سے کوئی بڑا فیصلہ کرکے افواہوں کو ختم کرے جو آج پائنیر گروپ کو بہت نقصان پہنچا رہی ہیں۔ پہلے پاکستان کی قومی سیاست میں لندن پلان کے چرچے ہوئے تھے اب ٹریڈ سیاست میں بھی لندن پلان کی صدائیں سنی جا رہی ہیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ لندن پلان بنانے والے کون ہیں اس بحث میں پڑنے کی بجائے پائنیر گروپ کو چاہئے کہ وہ کوئی بڑا فیصلہ کرنے میں دیر نہ کرے۔ جتنی دیر ہوگی نقصان بھی انہی کا ہے۔

اور آخری بات…
میری رائے ہے آپ کو اختلاف کرنے کا حق بھی ہے کہ علی حصام کے پاس اب کوئی راستہ نہیں بچا۔ اب اس کو بھی انتخابی دنگل میں اترنا ہوگا۔ مجھے کم از کم انجم نثار گروپ کے ساتھ اس کا اتحاد بنتا دکھائی نہیں دے رہا اور ہو سکتا ہے کہ ایک غلطی کرنے کے بعد وہ دوسری غلطی نہ کرے تو اچھی لیڈرشپ کے یہی تقاضے ہیں۔ بطور لیڈر ابھی علی حصام کو بہت سفر طے کرنا ہے راستے بہت کٹھن ہیں صبر و استحکام، بردباری، قوت برداشت اور تحمل مزاجی ہی گاڑی کو رواں دواں رکھتی ہے اور اس موقع تک پہنچنے کے لیے مضبوط فیصلے اور مضبوط قدم اٹھانے ہوں گے۔