80 آئی پی پیز، 3 پیشکشیں، بھارتی جاسوس

اضطراب، ٹینشن، کچھ مفروضے کچھ حقائق، ملک جنجال پورہ بن گیا۔ حالات گڈ مڈ ہوگئے۔ خواہشات کو خبریں بنا کر پیش کرنے کا رجحان زور پکڑ گیا۔ سوشل میڈیا پر فیک نیوز کا طوفان تھمنے نہیں پایا کہ الیکٹرانک میڈیا کے ’’وارئیرز‘‘ میدان میں اتر آئے۔ بھانت بھانت کی باتیں، تجزیے، ہر تجزیہ کے پیچھے ’’نامعلوم ذرائع‘‘ کا حوالہ، ہر واریئر کا دعویٰ ’’میری اہم شخصیات سے بات ہوئی‘‘ اہم شخصیت کو پتا ہی نہیں، تمام دعوئوں حوالوں کا مقصد بانی پی ٹی آئی کی مایوسی، نا امیدی اور فرسٹریشن کو امید اور سرخوشی میں بدلنا ہے۔ جنرل (ر) لودھی جیسے کچھ لوگوں کو یقین کامل کہ خان اگلے سال برسر اقتدار آجائیں گے۔ انہوں نے پی ٹی آئی والوں سے کہا کہ تیاری کرلیں، ٹھوس پروگرام لے کر عوام میں آئیں گزشتہ دور جیسا اقتدار نہیں چلے گا۔ بیرسٹر گوہر، اسد قیصر، عمر ایوب اور دیگر نے بھی ایک جیسے خواب دیکھے کہ اکتوبر نومبر میں 8 فروری کا الیکشن کالعدم حکومت ہمارے حوالے، ہو جمالو، ان ہائوس تبدیلی یا مڈ ٹرم الیکشن ’’محبت کی جھوٹی کہانی پر روئے‘‘ سوشل میڈیا پر شور برپا ایک اعلیٰ افسر اڈیالہ جیل جا پہنچا۔ خان سے گلے مل کر دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا ’’رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے معافی مانگ لیں قسم اللہ پاک کی سارے دلدر دور ہوجائیں گے‘‘ خان نے نعرۂ مستانہ بلند کیا۔ میں معافی کیوں مانگوں وہ مانگیں جنہوں نے ظلم کیا۔ کہانی ختم، خواب پریشاں ثابت ہوئی، ایک اچھے بھلے سینئر صحافی حامد میر نے پھلجھڑی چھوڑ دی کہ خان کو تین بار مذاکرات کی پیشکش کی گئی مگر بے سود، ایک اور بہت ہی اچھے سینئر صحافی نے انکشاف کیا کہ خان نے محمود خان اچکزئی کو نواز شریف اور آصف زرداری سے مذاکرات کے لیے اختیار دے دیا ہے۔ وہ اسی ہفتہ پہلے میاں نواز شریف پھر بلاول بھٹو سے ملاقات کر کے لائن کلیئر کریں گے۔ سیانوں نے سراغ لگا لیا کہ کوئی پیشکش نہیں ہوئی۔ سینئر صحافی نے خواب دیکھا تھا۔ خان کے اپنے ہرکارے ہی آجا رہے تھے۔ با خبر ذرائع کے مطابق خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ امین گنڈا پور رات کے اندھیرے میں خان سے مل کر ہدایات لیتے ہیں مگر دوسرا در نہیں کھلتا۔ شعیب شاہین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ خان کا پیغام متعلقہ لوگوں تک پہنچا دیا گیا۔ کیا جواب ملا کچھ نہیں عرضی منظور ہوجاتی تو خان جیل سے باہر ہوتے مگر کوئی آیا نہ گیا۔ خان کو قید ہوئے ایک سال ہوگیا۔ 13 سال باقی ہیں۔ ’’اب تو ہر روز گزرتا ہے مہینے کی طرح‘‘ لگتا ہے کپتان سرنڈر کر چکے ہیں یکطرفہ محبت کا اظہار میں مذاکرات کے لیے تیار ہوں۔ فوج اپنا نمائندہ مقرر کرے، مذاکرات ہوں گے؟ معافی تلافی تک ممکن نہیں، شنید ہے کہ محمود خان اچکزئی نے بھی مذاکرات سے انکار کردیا۔ اس تمام عرصہ میں جھٹکے لگتے رہیں گے۔ ملٹری کورٹس میں مقدمات کا خوف، سوشل میڈیا کی بندش کا ڈر، پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات رئوف حسن کے بھارتی جاسوسوں راہول اور کرن تھاپر سے ملاقاتوں کے اعترافات، پاکستان میں خونی انقلاب کا بیانیہ بنانے کامشورہ کوڈ ورڈز کا استعمال، ایک سابق جرنیل کے بھانجے بھتیجے احمد وقاص جنجوعہ اور عروبہ کومل کے تعاون سے سوشل میڈیا چلانے کا الزام، پولیس نے دہشتگردی کے الزام میں گرفتاری ڈال دی۔ دیگر کو بھی خطرہ، سیکرٹری جنرل کوآئندہ ہدایات تک پشاور منتقل ہونے کا حکم، آرٹیکل 6 لگ گیا تو پوری پارٹی کے لیے خطرہ، ڈر ہے کہ رئوف حسن کو بھارتی جاسوسی قرار نہ دے دیا جائے۔ سردار لطیف کھوسہ اپنی بات پر مصر کہ مذاکرات مقتدرہ سے ہی ہوں گے مذاکرات کے لیے قیامت کا انتظار، مگر اس دن یو ٹرن نہیں ہوسکے گا۔ صلح نہ صفائی صرف ٹرائی۔ سینئر صحافی سہیل وڑائچ کے مطابق نامہ بر کا جواب بڑا واضح تھا کہ مارشل لاء نہیں لگ رہا۔ آپ ہمیں سرنڈر کا مشورہ کیوں دے رہے ہیں۔ سرنڈر ریاست نہیں باغی افراد کرتے ہیں اسے ہم جانتے ہیں راستہ دیا تو پلٹ کر وار کرے گا۔ اس لیے نورسک نو کمپرومائز۔ اپنے ہوں یا غیر، حضرت جی پر کسی کو اعتبار نہیں، ایک ماہر قانون ویلاگر سعید چوہدری نے مشاہد حسین سید سے منسوب بات بتائی کہ ابو ظہبی کے امیر نے سید صاحب سے پاکستان کے بارے میں پوچھا انہوں نے کہا 8 فروری کو انتخابات ہو رہے ہیں، جن کے نتیجے میں عمران خان سوئپ کرے گا۔ شیخ محمد نے جواب دیا عمران خان ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔ ریاست ڈٹ کر کھڑی ہے۔ خاموش نہیں جو اشارے مل رہے ہیں۔ ان پر عملدرآمد بھی ہوگا۔ خان کی اگلی منزل ملٹری کورٹ، نظریہ ضرورت اور نظریہ سہولت کا بھی انتظام کرلیا گیا۔ مخصوص نشستوں کے ایکٹ میں ترمیم کا مسودہ آج منظور ہونے کا امکان قانون بن گیا تو مخصوص نشستیں بھی پی ٹی آئی کے ہاتھ سے گئیں، ججوں کی تعداد 27 تک بڑھانے، توسیع سمیت تمام سوراخ بند کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے موجودہ سیشن ہی میں قانون سازی کی جائے گی۔
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا، جماعت اسلامی کے دھرنے کو دس گیارہ دن ہوگئے۔ شدید بارشوں کے باوجود شرکاء کے جوش میں رتی برابر فرق نہیں آیا، حافظ نعیم الرحمان نے پی ٹی آئی کے گرینڈ الائنس میں شمولیت سے انکار کردیا۔ گزشتہ جمعہ کو شعیب شاہین پی ٹی آئی کے وفد کے ہمراہ دھرنے میں آئے پر جوش تقریر کی مگر کسی نے کان میں پولیس اور ڈالے کی خبر سنائی جس کے بعد مبینہ طور پر اسکوٹر پر بیٹھ کر نکل گئے۔ اپنے شیخ رشید بھی یہی کیا کرتے تھے۔ دھرنا جاری حکومتی مذاکراتی ٹیم پلٹ کر نہیں آئی۔ مشاورت، غوروخوض حکومت 80 آئی پی پیز کو کیپسٹی پر اربوں ڈالر نہ لینے پر رضا مند کیوں نہیںکر پارہی۔ اپنے لوگوں کو سمجھایا جا سکتا ہے کہ جتنی بجلی دو اتنے پیسے لے لو، معاہدوں میں باہمی رضا مندی سے ترمیم کی جاسکتی ہے۔ عوام اور ملک کے مفاد میں یہ ترمیم جتنی جلد کرلی جائے بہتر ہوگا۔ خدانخواستہ حالات خراب ہوگئے تو سنبھلنا اور سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔ عوام پریشان ہیں۔ حالات حکومت کے قابوں سے باہر ہوتے نظر آتے ہیں۔ اب تک بجلی کے بلوں پر تین افراد جان دے چکے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے اور میاں نواز شریف کے پکے سچے عقیدت مند بزرگ سے اسلام آباد میں ملاقات ہوئی۔ سیاست پر بات چھڑی موجودہ حالات پر خاصے فکر مند دکھائی دیئے۔ جماعت اسلامی کے دھرنے پر ان کا کہنا تھا کہ جماعت نے دھرنا دے کر 25 کروڑ عوام کی ترجمانی کی ہے غضب خدا کا گھر 21 روز بند رہا۔ 9 روز کا بجلی کا بل 56 ہزار، حکومت نے ادائیگی میں دس روز کی توسیع کردی۔ کیا ان دس دنوں میں آسمان سے من و سلویٰ نازل ہوگا۔ صورتحال اچھی نہیں لوگ بجلی کے بل ادا کرنے کے لیے ڈکیتیاں کرنے لگے ہیں۔ حکومت اپنے خلاف کتنے محاذوں کا مقابلہ کرے گی۔ بزرگ کی باتیں قابل غور قابل فہم حل طلب۔ بجلی کے بلوں سے غیر ضروری ٹیکس ختم کیے جائیں حکومت بجلی جلانے کے پیسے لے دل جلانے کے اقدامات سے گریز کرے، اللہ تعالیٰ وزیر اعظم کو صحت کاملہ عطا فرمائے، غسل صحت کے بعد انہیں اس مسئلہ پر فوری توجہ دینی چاہیے ملک اور عوام کے مفاد میں وزیر اعظم ان کی کابینہ اور دیگر رہنما اپنے اخراجات کم یا ختم کرنے میںکامیاب ہوگئے تو عوام انہیں تادیر یاد رکھیں گے اور موجودہ جزوی صادق اور امین کی قید پر آنسو بہانا بھول جائیں گے۔ حکومت چل رہی ہے چلتی رہے گی لیکن اس کیلئے عوام کے مفادات کا تحفظ ضروری ہے۔ملک کے طول و عرض میں طاقت اور اختیارات کی جنگ کے دوران جماعت اسلامی بجلی کے بلوں اور مہنگائی جیسے عوامی مسائل پر متحرک ہوئی ہے اور سیاست کے میدان میں اپنی جگہ بنانے جا رہی ہے۔ عوام اس مسئلہ پر جماعت کے ساتھ ہیں حتیٰ کہ پی ٹی آئی نے بھی جماعت سے امیدیں وابستہ کرلی ہیں اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے بہت سے کارکن جماعت کے دھرنے میں شریک ہو رہے ہیں۔ جماعت کے کارکن بلا شبہ اب تک پر امن ہیں لیکن اِدھر اُدھر سے آنے والوں کی ضمانت کون دے گا۔ یہ بیرونی عناصر کسی بھی وقت انتظامیہ بلکہ خود جماعت اسلامی کیلئے مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔ امیر جماعت یقینا اس صورتحال سے آگاہ ہوں گے لیکن حکومت کو بھی اس آتش فشاں صورتحال سے آگاہی ہونی چاہیے اور اس کے لیے اسے جلد از جلد آئی پی پیز کے معاہدے میں ترامیم سمیت تمام غیر ضروری ٹیکسوں کو ختم کرناہوگا۔ کسی دل جلے نے کہا تھا۔ ’’کوئی بند باندھ لو بستی کے لوگو، ارادہ ہی برسات کا ہے، بہت سہمی ہوئی ہیں فاختائیں، کوئی خدشہ یہاں آفات کا ہے‘‘ بلا شبہ حکومت پریشان ہے۔ پریشانی فطری ہے مقابلہ ایک سیاستدان کے بجائے کھلنڈرے کھلاڑی سے ہے۔ تاہم پاور از پاور اسٹیبلشمنٹ ڈٹی ہوئی ہے۔ حکومت کو اس پلس پوائنٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوامی مسائل کے حل پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ کچھ نہیں ہوگا، ستاروں کی چال پہچاننے والوں کا کہنا ہے کہ قاضی راج قائم رہے گا۔