حماس کے شہ دماغ اسماعیل ہنیہ شہید کر دیئے گئے۔ ویسے 7اکتوبر 2023ء سے جاری فلسطین، اسرائیل جنگ میں 90ہزار سے زائد بچے، بوڑھے، عورتیں اور نوجوان شہید کئے جا چکے ہیں۔ غزہ، مکمل طور پر کھنڈرات میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔ غزہ ناقابل رہائش ہو چکا ہے۔ ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اسماعیل ہنیہ کو ریموٹ کنٹرول بم سے یا میزائل حملے سے شہید کیا گیا ہے۔ دونوں صورتوں میں ایک بات بڑی اہم ہے کہ انہیں محفوظ ترین مہمان خانے میں رکھا گیا تھا جو پاسداران انقلاب کے زیراستعمال اور زیر حفاظت ہے پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ ایران کی فضائی اور زمینی حدود کی خلاف ورزی کرکے حملہ کیا گیا اور ٹارگٹ حاصل بھی کر لیا گیا۔ اسماعیل ہنیہ ایرانی حکومت کے مہمان تھے، ان کی حفاظت ایران کی ذمہ داری تھی۔ یہ ذمہ داری ایران کی اعلیٰ ترین فورس، پاسداران کے ہاتھوں میں تھی پھر بھی دشمن ان پر حملہ کرنے اور کامیاب ہونے میں کیسے کامیاب ہوا؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہنیہ کو قتل کرنے کے لیے ایران کی سرزمین ہی کیوں چنی گئی حالانکہ وہ ایک عرصے سے قطر میں مقیم تھے وہاں انہیں آسانی سے نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔ دشمن نے ایران کی سرزمین کو ہی کیوں چنا؟ یہ سوال انتہائی اہم ہے اس پر ہمارے ہاں زیادہ کیا تھوڑی بھی گفتگو نہیں کی جاتی ہے۔ ذرا تھوڑا سا پیچھے جائیں تو دہشت گردی کی امریکی جنگ کے دوران پاکستان پر نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی منتقلی کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس الزام کے ثبوتوں کی فراہمی میں لیبیا اور ایران کے نام سامنے آئے تھے۔ پاکستان پر عالمی پابندیاں لگ سکتی تھیں۔ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام تتر بتر ہو سکتا تھا لیکن اس وقت پاکستان افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ میں امریکی حلیف کے طور پر شامل تھا۔ امریکیوں کو پاکستان کی ضرورت تھی اس لئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قربانی کا بکرا بناکر قربان کر دیا گیا۔ ایک عظیم عالمی ایٹمی سائنسدان کو چور کے طور پر پیش کرکے پاکستان کے حکمرانوں نے اپنی جان بچائی اور پاکستان کی قومی سلامتی پر آنچ نہ آ سکی۔ ہم محفوظ رہے۔ ہمارا ایٹمی پروگرام محفوظ رہا۔ پھر جب 7اکتوبر 2023ء میں حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا، اندر گھس کر حملہ کیا، ان کے آئرن ڈوم کو بائی پاس کرکے، فولاد اور کنکریٹ کی دیواروں کو پھلانگ پر اسرائیلی سرزمین پر تباہی پھیلائی تو ہم بہت خوش ہوئے کہ کسی نے تو اسرائیل کو اس کی سرزمین میں گھس کر مارا ہے۔ ہمیں اطلاعات دی گئیں کہ ایرانی ماہرین نے غزہ کے نیچے، سرنگوں کا عظیم الشان جال بچھا رکھا ہے جہاں حماس کے مجاہدین سربکف ہیں جب وہ اسرائیلی فورسز کے ساتھ ٹکرائیں گے تو بدر و حنین کی یاد تازہ ہو جائے گی۔ ہم نے بہت سے ایسے قصے سنے کہ بس اسرائیل کی تباہی نوشتہ دیوار بن چکی ہے۔ ایران اور ایران کے ہمنوا گروپ، حزب اللہ وغیرھم اسرائیل پر قیامت بن کر ٹوٹ پڑیں گے لیکن 9مہینے گزر چکے ہیں۔ فلسطینی تباہی و بربادی کی عبرتناک تصویر بن چکے ہیں۔ اسرائیل اپنی پوری عسکری قوت کے ساتھ نہ صرف حماس کو نشانہ بنا رہا ہے بلکہ حماس کے زیر اثر غزہ کے ایک ایک انچ پر تباہی نازل کر رہا ہے، ابھی تک فلسطینیوں کو ایران کی طرف سے اور نہ ہی لبنان اور شام کی طرف سے کسی قسم کی امداد ملی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی عرب ریاستیں تو پہلے ہی اپنے ہاتھ کٹوا چکی ہیں۔ سعودی عرب، اسرائیل کے ساتھ دوستیاں بڑھا رہا ہے، اسے تسلیم کرنے کی باتیں بھی ہو رہی تھیں۔ مشترکہ پراجیکٹس کے حوالے سے بھی باتیں ہو رہی تھیں۔ اسرائیل اپنے قیام سے ایک عرصہ پہلے ہی عظیم اسرائیل کے قیام کا منصوبے طے کر چکا تھا۔ صہیونی تحریک کے ذریعے دنیا بھر میں کیڑے مکوڑوں کی طرح بکھرے یہودیوں کو اکٹھا کیا گیا۔ روتھ چائلڈ اور ایسے ہی دیگر ارب پتی یہودیوں نے صہیونی تحریک کو ابھارا، مضبوط کیا۔ روتھ چائلڈ کی ڈپلومیسی کے ذریعے بالفور ڈیکلیئریشن منظرعام پر آیا اور جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ نے عربوں کے سینے پر اسرائیل ایک خنجر کی طرح پیوست کر دیا۔ گزری سات دھائیوں سے صہیونی ہر لمحہ عظیم اسرائیل کے قیام کے لئے کوشاں ہیں۔ فکری طور پر عظیم اسرائیل کے قیام کے لیے یکسو ہیں۔ عملی طور پر وہ ایک ایک انچ زمین طے شدہ منصوبے کے مطابق اسرائیل میں شامل کر رہے ہیں۔ عالمی بادشاہت کے قیام کے روحانی مرکز ھیکل سلیمانی کی تیسری مرتبہ تعمیر کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔ اپنے عقائد کے مطابق اپنے نجات دھندہ یعنی مسیحا کی آمد کی تیاریاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عظیم ریاست اسرائیل کے دارالحکومت یروشلم کو ریاست اسرائیل کا دارلخلافہ ڈیکلیئر کر چکے ہیں۔ سرخ بچھڑا جس کی قربانی کے بعد ہیکل کی تعمیر شروع کی جانی ہے، بھی ظاہر ہو چکا ہے۔ انہیں ہیکل کی بنیادیں بھی مل چکی ہیں۔ 2500 ہزار سال قبل ہیکل جن بنیادوں پر قائم تھا انہی بنیادوں پر تیسرا ہیکل بھی تعمیر کیا جانا ہے۔ مسجد اقصیٰ گرائی جانی ہے کیونکہ صہیونیوں کے بقول وہ بنیادیں مسجد اقصیٰ کے نیچے ہیں۔ عیسائی فکری طور پر ان کے ہمنوا ہیں۔ بائبل مقدس کی پیش گوئیوں کے حوالے سے عیسائی یہودیوں اور صہیونیوں کے ہم نوا ہیں کیونکہ بنی اسرائیل اللہ کے پروردہ تھے، بائبل مقدس میں انہیں دوبارہ اکٹھا کرنے اور غلبہ دینے کی الہامی پیش گوئیاں بائبل مقدس میں درج ہیں جن پر عیسائی بھی ایمان رکھتے ہیں۔ یہودیوں کا بادشاہ جب آئے گا تو وہ تخت سلیمانی پر بیٹھ کر پوری دنیا پر حکمرانی کرے گا یہ تخت برطانیہ کے چرچ میں محفوظ ہے۔ برطانیہ کے بادشاہ کی تاجپوشی اسی تخت پر کی جاتی ہے۔ عیسائی اپنے مسیحا کی آمد ثانی کے منتظر ہیں۔ یہودی اپنے مسیحا کا انتظار کر رہے ہیں۔ دونوں بائبل کی روایات پر ایمان رکھتے ہیں، مسلمان سردست مکمل تباہی و بربادی کی طرف جا رہے ہیں، ہم ہنیہ کی صرف غائبانہ نماز جنازہ ہی ادا کر سکتے ہیں۔ فلسطینیوں کو بربادی سے نہیں بچا سکتے ہیں۔ تھرڈ ٹیمپل تعمیر ہو گا۔ گریٹر اسرائیل قائم ہو گا؟