یہ وہ سوال ہے جو اس وقت دنیا بھر کے سکیورٹی، حکومتی، میڈیائی اور مذہبی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ بظاہر تو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے بدلہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ فی الحال اس اعلان کے زمینی حقائق کے تناظر میں مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے گا کہ کیا ایران تن تنہا یہ کام سر انجام دے سکے گا؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بدخصلت دشمن نے انتہائی عیاری سے ایرانی سرزمین پر حماس کے رہنما کو نشانہ بنا کر دو شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ پہلا اپنے دشمن سے جان چھڑائی اور دوسرا، ایران کو اس دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے کہ اس وقت ایران کی حالت نہ پائے رَفتَن نَہ جائے ماندَن والی ہو چکی ہے۔ اگر ایران اپنے معزز مہمان اور اتحادی کا بدلہ نہیں لیتا۔ تو گذشتہ چالیس سال سے خطے میں جو اس نے عسکری اثر و رسوخ حاصل کیا ہوا ہے وہ شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ جس سے خطے میں موجود اس کے اتحادیوں کا اعتماد بھی متزلزل ہو گا۔ جو ایرانی انقلاب کے لیے ناقابل برداشت ہو گا۔ بالفرض اگر ایران حملہ کرتا بھی ہے تو امکان ہے کہ اس دفعہ یہ حملہ (بدلہ) 14 اپریل 2024 کی طرز کا نہیں ہو گا۔ جب ایران نے 200 سے زائد ڈرون اور میزائل صہیونی ریاست پر داغ دئیے۔ جس کے نتیجے میں کوئی خاص فزیکلی نقصان نہیں ہوا۔ لیکن اس دفعہ معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے۔ ایک انتہائی معزز مہمان شخصیت کا بدلہ لینے کے ساتھ ساتھ اس کی ساکھ بھی داؤ پر لگ چکی ہے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا بدلہ اسی صورت میں مکمل ہوتا ہے کہ ایرانی حکومت اسی لیول کی ہائی ویلیو شخصیت کو ٹارگٹ کرے، جیسے اسرائیل وزیر اعظم، وزیر خارجہ، آرمی چیف، موساد چیف یا پھر اسی لیول کی کوئی دوسری صہیونی شخصیت۔ سوال یہ ہے کہ ایسی شخصیت کو ٹارگٹ کرنے کے لیے اسرائیل کے اندر، کیا ایران کے پاس Approach، ذرائع، کیمونیکیشن اور سہولت کار ہیں؟ یقیناً نہیں اور یہی ایران کی بنیادی کمزوری ہے۔ جس کا دشمن کو اچھی طرح ادراک ہے۔ وہ اسی کمزوری کا ہر دفعہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ایران کے معاشی و تذویراتی اتحادی روس و چین، ایران کو کسی بھی ایسے بھرپور ایڈونچر کی اجازت دیں گے؟ حالات کے تحت تو ایسے ہی نظر آ رہا ہے اجازت نہیں دیں گے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ روس پہلے ہی یوکرائن جنگ میں پھنسا ہوا ہے اور وہ بیک وقت دو جنگوں کو افورڈ نہیں کر سکتا۔ دوسری بات چین اپنی آبادی کے غفیر حجم کی وجہ اور بڑھتی ہوئی معاشی قوت کے طور پر اس کی بنیادی خارجہ پالیسی رہی ہے کہ وہ بیرونی جھگڑوں میں نہیں الجھتا۔ تاکہ اس کی بیرونی سرمایہ کاری متاثر نہ ہو۔ تیسری بات ایران کا بدلہ لینے کے بعد اس جنگ کے پھیلاؤ کے مکمل چانسز ہیں۔ تب ایسی صورت میں روس و چین خاموش نہیں رہیں گے۔ لہٰذا وہ ایران کو روکنے کی بھرپور کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ مستقل قریب یا بعید میں کسی دوسرے طریقے سے بدلہ لینے پر زور ڈالیں گے۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ ایران کا کسی انتہائی اہم صہیونی شخصیت کو نشانہ بنانے سے نہ تو صہیونی ریاست خاموش رہے گی اور نہ ہی شکست خوردہ امریکہ۔ دراصل صہیونی ریاست اسرائیل پر حملہ براہ راست امریکہ پر حملہ تصور ہو گا اور امریکہ پر حملہ یورپی یونین پر تصور کیا جائے گا۔ اس تلخ سچائی کا ایران کو اچھی طرح ادراک بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزہ کے نہتے مسلمانوں کا سفاک قاتل نیتن یاہو نے آخر سوچ سمجھ کر اور اتحادیوں کے مشورہ سے ہی اتنا خوفناک قدم اٹھایا ہو گا۔ وہ برملا کہہ رہا ہے کہ ہم ہر قسم کے ردعمل کے لیے تیار ہیں۔ اس نے اپنی قوم سے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ ایک بڑی قربانی کے لیے تیار رہیں۔ ایرانی حکومت کو یقینا مندرجہ بالا تمام حالات سے آگاہی ہو گی۔ جبکہ سات اکتوبر سے ہی امریکہ کی پالیسی رہی ہے کہ وہ ایک جانب اسرائیل کو مکمل سپورٹ کر رہا ہے تو دوسری جانب اس جنگ کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اسرائیل و ایرانی حکومت کے ساتھ مکمل طور پر رابطے میں بھی ہے اور گاہے گاہے ایرانی اتحادیوں کی مدد سے دباؤ بھی ڈالتا رہتا ہے۔ اب صورتحال کچھ یوں بنتی ہے کہ تینوں بڑی طاقتوں سمیت ایران کی بھی یہی پالیسی رہی ہے کہ خطے میں جنگ کے پھیلاؤ کو روکا جائے۔ یہی پالیسی پاکستان، سعودی عرب، ترکی، افغانستان اور ملائیشیا کی بھی ہے۔ اس وقت دو تلخ زمینی حقائق ایران کے پیش نظر ہیں۔ حماس اسرائیل جنگ، افغان صلیبی جنگ۔ دونوں جنگوں میں دونوں فریقوں نے اپنی جنگیں تنہا لڑی اور لڑ رہے ہیں۔ خاص کر افغان جہاد جو افغان سرفروش تن تنہا 18 سال تک دنیا کی تاریخ کے سب بڑے اور خوفناک صلیبی اتحاد سے برسرپیکار رہے۔ کیا ایرانی انقلاب کی باقیات ایسا خونریز معرکہ لڑنے کے لیے تیار ہے؟ یقینا نہیں۔ کیونکہ ایرانی حکومت مسلم دنیا کی حمایت کھو چکی ہے۔ صہیونی ریاست اسرائیل سمیت ایرانی قیادت کو بھی اپنی اس بنیادی سٹریٹیجک کمزوری کا ادراک ہے۔ اس صہیونی حملے کا ایک ایسا پہلو جو شاید ہی کسی کے ذہن میں آیا ہو کہ کہیں صہیونی ریاست اس المناک حملے کی آڑ میں ایران کو بل سے باہر تو نہیں نکالنا چاہتی؟۔ تو کیا ایسی صورت میں ایرانی حکومت حقیقی بدلہ لینے کی پوزیشن میں ہو گی؟ جس سے عالمی جنگ کے الاؤ کو بھڑکنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ جبکہ پہلے قاسم سلیمانی پھر دمشق میں ایک ایرانی جنرل سمیت سینئر انٹیلی جنس آفیسر اور پھر تھوڑے ہی عرصہ بعد وزیراعظم سمیت وزیر خارجہ کے ہیلی کاپٹر کا اندوہناک واقعہ اور اب تہران میں اسماعیل ہنیہ کی شہادتیں کہیں ایک ہی سلسلے کی کڑیاں تو نہیں؟۔ جو بہت کچھ سوچنے سمجھنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ کہ کہیں نہ کہیں دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ کیونکہ جہاں ایک جانب اندر کے لوگوں کی طرف سے انگلیاں اٹھ رہی ہیں تو دوسری جانب ایرانی سکیورٹی نظام میں شدید قسم کے سقم پر سوال بھی اٹھ رہے ہیں۔ تو کیا ایسے ماحول میں ایران کسی بھی قسم کے حقیقی ایڈونچر (بدلے) کی پوزیشن میں ہے یا پھر درمیانی راستہ اختیار کیا جائے گا۔ بہرحال ایک بات ہے کہ بدترین دشمن نے ایران کو ایک ایسی بند گلی میں دھکیل دیا ہے۔ جہاں سے کامیابی سے واپسی کا راستہ مسلم دنیا سے پورے خلوص کے ساتھ برادرانہ تعلقات استوار کرنے میں ہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایرانی انقلاب کی باقیات اس کے لیے تیار ہے؟ امریکہ افغان جنگ ہارنے کے بعد معاشی طور پر کمزور ہو چکا ہے۔ نیٹو سمیت امریکی فورسز ابھی تک اس خوف سے باہر نہیں نکل سکیں۔ یہی دشمن کی بنیادی کمزوری ہے۔ تو کیا ایرانی حکومت دشمن کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھائے گی؟ جس کا ادراک شاید ہی ایرانی حکومت کو ہے۔ 8 اکتوبر سے ہی کہنا شروع کر دیا تھا کہ یہ جنگ اتنی آسانی سے بند نہیں ہو گی۔ کیونکہ اس کا حتمی نشانہ پاکستان و حرمین الشریفین ہیں۔