محفوظ پاکستان تو مضبوط پاکستان

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں۔ اقبالؒ کے اس مصرعے کو دفاعی فلاسفر کلاز وٹز کی تھیوری کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کے مطابق کسی ملک کی بقا کے لیے ریاست عوام اور اس کے محافظ فوج میں ایک گہرا ربط لازم ہے اسی ربط سے ریاست قائم و دائم رہتی ہے جبکہ اس توازن کی بگاڑ سے معاشرے میں افرا تفری اور تناؤ پیدا ہوتا ہے۔

دنیا کی تاریخ میں جہاں بہت سے ممالک معرض وجود میں آئے وہیں اس تاریخ نے کئی ممالک کو ٹوٹتے ہوئے بھی دیکھا۔قوموں کے بننے اور ٹوٹنے کا یہ سلسلہ ہمیشہ سے قائم ہے جس میں کئی قومیں اپنی یکجہتی اور خرد مندی سے ابھر کر نام پیدا کر تی آئی اور کئی دشمنوں کے ہاتھوں نادان بنتی رہیں اور تاریخ کے پنوں میں گم ہو گئی۔ بالکل ایسے ہی تاریخ نے دیکھا کہ پاکستان بھی بطور ریاست نہ ہی محض معرض وجود میں آیا بلکہ اپنی یگانگت اور بے دریغ قربانیوں سے ہمیشہ دنیا میں اپنا ایک خاص مقام قائم رکھا۔ مگر آج یہ ملک خداداد آخر ایسی توڑ پھوڑ کا شکار کیوں ہونے لگا اس کے لیے تاریخ کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔

سوڈان کسی دور میں افریقہ کے آسودہ حال ممالک میں شمار کیا جاتا تھا۔ معاشرتی اور جمہوری طور پر ایک مستحکم مملکت تھا لیکن ملک دشمن عناصر نے سیاسی، عسکری اور معاشرتی یکجہتی میں فساد کا ایسا بیج بویا کہ سوڈان انتشار کا شکار ہو کر تباہی کے دہانے پر آپہنچا۔ اسی طرح لیبیا کا واقعہ زیادہ پرانا نہیں۔ تاریخ نے دیکھا کہ کیسے اکتوبر 2011 میں لیبیا کے خلاف ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عوام کو اکسایا گیا اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہنستا بستا لیبیا خاک ہو گیا جہاں آج تباہی اور بے سروسامانی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ شام ایک دور میں خوشحال اور ثقافتی طور پر ایک معتبر ملک جانا چاہتا تھا مگر بدبخت دشمن نے دہشت گردی کا ایسا جال بچھایا جس نے پہلے فوج کے پیر اکھاڑے تاکہ ملک کے دفاعی لائن کو ناکارہ بنا کر باقی کی ریاست کو توڑا جا سکے۔ ان تمام ممالک میں جب ملک دشمن عناصر نے عوام ریاست اور فوج کی مضبوط گرہ کو کھولا اور ان کی بنیادوں کو نفرت کے زہر سے بھرنا شروع کیا تو ان ریاستوں کا اقوام عالم میں جو تماشا بنا وہ سب نے دیکھا۔ یاد رہے کسی بھی ملک میں ایسے حالات پیدا کرنے کے لیے فوج کو ترجیحی طور پر نشانہ بنانا دشمن کا ایک بنیادی اصول ہے۔یہ سب ممالک معاشی طور پر پاکستان سے کہیں زیادہ مضبوط اور مستحکم تھے جو اسی سوشل میڈیا اور غیر مستند افواہوں کے بھینٹ چڑھے اور دنیا بھر میں عبرت کا نشان بن گئے۔جتنی دہشت گردی پاکستان میں ہو رہی ہے اس کا 25 سے 30 فیصد ان ممالک میں ہوا تو کتنے بڑے بڑے ملک تباہ ہو گئے مگر پاکستان قائم و دائم ہے۔ اس کی وجہ وہ قربانیاں ہیں جو افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے روز مرہ کی بنیاد پر پیش کر رہے ہیں۔ان محرکات اور عوامل پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی اپنے پریس کانفرنس میں مفصل روشنی ڈالی تھی۔

1967 میں بقول اسرائیل کے پہلے وزیراعظم بن گوریان کے، عالمی صیہونی تحریک کو پاکستان سے لاحق خطرات سے غافل نہیں رہنا چاہیے اور پاکستان ہمارا پہلا ہدف ہونا چاہیے کیونکہ یہ نظریا تی ریاست ہمارے وجود کے لیے خطرہ ہے اس لیے انڈیا ہمارے لیے پاکستان کے خلاف ایک اہم مرکز ہے۔یہ لازم ہے کہ ہم اس مرکز کو پاکستانیوں کے کچلنے کے لیے استعمال کریں جو کہ یہودیوں اور صیہونیوں کے دشمن ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہمیں ہر قسم کے خفیہ منصوبوں اور حربوں کو بروئے کار لانا چاہیے۔

اسی طرح بھارت کے کئی رہنماؤں نے مختلف اوقات میں پاکستان کو توڑنے کے لیے اپنا ڈپلومیٹک، سیاسی، معاشی، انفارمیشنل، سائکلوجیکل، مالی انٹیلیجنس جیسے ایلیمنٹس آف نیشنل پاور کو استعمال کر کے پاکستان کے سینٹر آف گریوٹی، پاکستان کی فوج پر پریشر ڈالنے کے بیانات دیئے۔ بقول ان کے پاکستان کے چار ٹکڑے کرنے تک ہمیں رکنا نہیں چاہیے، ہمیں پاکستان کی کمزوریوں پر کام کرنا چاہیے، چاہے وہ معاشی ہو، داخلی سلامتی ہو، سیاسی ہو یا بین الاقوامی تنہا ہو۔

1965 کی روایتی جنگ ہو یا دہشت گردی کے خلاف محاذ، پاکستان کے عوام، حکومت اور فوج نے یکجان ہو کر دشمن کو ہر بار شکست دی۔ عوام حکومت اور فوج کی یہی یکجہتی ہمیشہ دشمن کے آڑے آئی۔ لہٰذا اب دشمن نے بے حد چالاکی سے اس ربط کو توڑنے کی ایک نئی چال رچائی ہے، آئے دن فوج کے خلاف من گھڑت، بے بنیاد اور غیر مصدقہ پروپیگنڈا کے ذریعے عوام میں نفرت کا ایک ایسا بیج بویا جا رہا ہے جو پاکستان کو ایک تباہی کے راستے پر دھکیل رہا ہے۔ مذموم سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے عوام کو ڈیجیٹل ٹیررازم کے ذریعے ورغلایا جا رہا ہے۔ اس ڈیجیٹل ٹیررازم کا استعمال براہ راست بھارت اور مغرب سے کیا جاتا ہے جس کے بے شمار ثبوت پکڑے جا چکے ہیں۔یہ شواہد ثابت کرتے ہیں کہ دہشت گردوں اور ڈیجیٹل دہشت گردوں کا ٹارگٹ صرف افواج پاکستان ہے۔اس بات کا ادراک بہت سے غیر ملکی ماہرین بھی کر چکے ہیں کہ پاکستان کی بقا کے واحد اور آخری ضامن اس کی افواج ہیں۔ایک مشہور امریکی تجزیہ نگار، کرسٹین فیئر 2020 میں اپنے دیئے گئے ایک بیان میں کہتی ہیں کہ پاکستان کی تباہی کے لیے لازمی ہے کہ پہلے پاکستان کی فوج تباہ ہو لیکن فی الحال مجھے ایسا نظر نہیں آرہا۔

اپنے سیاسی نظریے اور وابستگی کو لمحے بھر کے لیے ایک طرف رکھ کر 9 مئی کے واقعات کا جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ دشمن کی رچائی گئی بالواسطہ یا بلاواسطہ ایک سو چی سمجھی سازش تھی۔ بلا شبہ یہ جنگ ایک کٹھن جنگ ہے جہاں ہر طرف ایک افراتفری اور دوسری طرف جھوٹی اور بے بنیاد خبروں کا ایک انبار ہے۔مگر حق اور باطل کو جانچنے کے لیے ہمارے پیارے نبی سرور کونین نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث کافی ہے کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔تو بھلا کوئی مسلمان اپنے ملک کو توڑنے اور اس میں انتشار پھیلانے کی بات کیسے کر سکتا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ اگر آج پاکستان کھڑا ہے تو اس کی افواج کی وجہ سے ہی کھڑا ہے۔ تمام مشکلات کے باوجود آج پاک افواج نہ صرف اپنی دفاعی ذمہ داریاں بطریق احسن نبھا رہی ہیں بلکہ معاشی ترقی میں بھی عوام اور حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ ملک کا دفاع مضبوط ہے تو ملک ہے اور ملک ہے تو ہم ہیں۔ آئیں عوام حکومت اور فوج مل کر ملک کو مضبوط سے مضبوط تر بنائیں اور ثابت کریں کہ ہم ایک تھے ایک ہیں اور ہمیشہ ایک رہیں گے۔