کوئی عوام کی بھی بات کرے!

موجودہ حالات میں دنیا کے اکثر ممالک (خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک) کی حکومتوں کو معاشی استحکام، سماجی بہبود اور مالیاتی ذمہ داری میں توازن پیدا کرنے کے لیے پٹرول، گیس اور بجلی کے بلوں اور ٹیکسوں میں اضافہ ہی مسائل کا واحد اور آسان حل نظر آتا ہے، لیکن اگر کوئی حقیقی عوامی حکومت ہو تو شائد وہ یہ ضرور سوچے کہ اس قسم کی کارگزاریوں کے نتیجے میں پہلے سے مہنگائی میں پسے ہوئے عوام کا کیا حال ہو گا، اور وہ مسائل کے حل کے لیے دیگر ذرائع کو بھی متحرک کرنے کی کوشش بھی کرے۔
ویسے تو جن لوگوں کے پاس اقتصادی ماہرین کی اتنی بڑی بڑی ٹیمیں موجود ہوں ان کے پاس اس قسم کے مسائل کے درجنوں موزوں اور قابل عمل حل بھی ضرور موجود ہونے چاہئیں۔ لیکن اگر ایک عام آدمی کی سمجھ کے مطابق بات کی جائے تو حکومت کی، بالخصوص اقتصادی امور میں، کارکردگی میں بہتر بنانا، ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنا، اقتصادی ترقی کے فروغ کے لیے نجکاری کے لیے اقدامات کرنا اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو فروغ دینا، توانائی کے حصول کے لیے متبادل اور قابل تجدید طریقوں کی تلاش کرنا اور سب سے بڑھ کر سرکاری سطح پر ہونے والی کرپشن کو کنٹرول کرنے جیسے اقدامات کر کے ان چیلنجوں سے نمٹنے کی کوشش کی جا سکتی ہے لیکن جانے کیوں اتنی بنیادی باتوں پر بھی بھرپور انداز میں توجہ نہیں دی جاتی۔

سوشل میڈیا پرایک پوسٹ کافی عرصہ سے گردش کر رہی ہے اگر عوام بجلی کے حصول کے لیے سولر سسٹم، جنریٹر اور یو پی ایس لگا رہے ہیں، گیس کے حصول لیے سلنڈرز استعمال کر رہے ہیں، علاج اور تعلیم کے لیے پرائیویٹ اداروں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں، امن و امان برقرار رکھنے کے لیے نجی سکیورٹی گارڈز کی محتاجی ہے، بلدیاتی سہولیات کے لیے اپنی مدد آپ کا فارمولا پیش کر دیا جاتا ہے اور ٹرانسپورٹ کے لیے ذاتی سواری کے بغیر گزارہ نہیں تو پھر حکومت کس چکر میں تہہ در تہہ ٹیکس وصول کیے جا رہی ہے؟ اس کے علاوہ ملک میں کام کرنے والے بجلی کے کارخانوں (آئی پی پیز) کے ساتھ حکومت کے کئے گئے انتہائی نامعقول قسم کے معاہدوں کا ذکر بھی آج کل سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے اور اس سلسلہ میں بھی کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

اعلیٰ عدلیہ کے پاس بھی ملک کے اداروں پر حملہ آور ہونے والوں کو ریلیف دینے اور کسی جماعت کو بنا مانگے مخصوص نشستیں اور اسمبلی میں ایک نئی حیثیت دینے کے لیے تو بہت وقت ہے لیکن ان کے پاس اتنا وقت نہیں کہ ایک سووموٹو ایکشن لے کر واپڈا سے پوچھ سکیں کہ وہ باقاعدگی سے بجلی کے نرخ بڑھانے کے ساتھ ساتھ بجلی کے بلوں میں درجنوں قسم کے ٹیکس اور دسرے محکموں کے محصولات کس چکر میں وصول کر رہے ہیں اور روزمرہ استعمال اور کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں کے علاوہ گیس اور پیڑول کی قیمتیں اس باقاعدگی سے کیوں بڑھا دی جاتی ہیں؟

شائد یہ تمام لوٹ مار، نالائقی اور نااہلی اس وجہ سے ہے کہ ایک طرف تو لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہو چکے ہیں تو دوسری طرف مراعات یافتہ طبقہ کو میسر سہولیات میں کمی کرنا تو در کنار ان میں اضافہ کر دیا جا تا ہے۔ اس کے علاوہ یہ فیصلہ بھی اسی چھوٹے سے مراعات یافتہ طبقے کے ہاتھ میں ہی ہے کہ کہاں پر ناجائز حد تک دی جانے والی مراعات پر کٹوتی کرنی ہے اور کہاں نہیں۔غور کیا جائے تو بڑے بڑے سرکاری افسران، جج اور جرنیل حضرات اور وزرا اور اراکین اسمبلی ہی وہ لوگ ہیں جو تمام تر سرکاری وسائل پر قابض ہیں اور تمام تر حکومتی فیصلوں کا اختیار بھی انہیں لوگوں کو حاصل ہے۔ ظا ہر ہے کہ یہ لوگ اس قسم کے فیصلے کیونکر کریں گے کہ انہیں بڑی بڑی رہائشگاہوں، مفت کے نوکروں چاکروں، مفت کی بجلی، گیس اور ٹیلیفون، مفت کی بڑی بڑی گاڑیوں اور ان میں ڈلنے والے پیٹرول سے محروم ہونا پڑے۔

کہنے کو تو پاکستان میں ایک جمہوری نظام رائج ہے اور یہاں کے حکمران عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں لیکن کیا مجال ہے جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتوں کو مہنگائی اور ٹیکسوں کے اندھا دھند نفاذ کے باوجود عوام کو کچھ بنیادی سہولیات فراہم کرنے کا کوئی خیال آیا ہو۔
ویسے توحکومت کی جانب سے عوام کو مناسب سہولیات فراہم کرنے میں ناکامی کی بنیادی وجہ بد نیتی ہی ہوتی ہے لیکن وسیع پیمانے پر ہونے والی بدعنوانی اور بدانتظامی بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ وہ فنڈز جو عوامی خدمات کے لیے مختص کیے جانے چاہئیں اکثر خرد برد کا شکار ہو جاتے ہیں یا پھر انہیں غیر ضروری اور بے کار قسم کے منصوبوں میں جھونک دیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مناسب انفراسٹرکچر، صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور دیگر ضروری سہولیات کا فقدان رہتا ہے۔

پاکستان میں سیاستدانوں کی کرپشن اور نااہلی پر تو ہر کوئی دھڑلے سے بات کرتا ہے لیکن بیوروکریٹک نظام کے ناکارہ اور سست ہونے کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ دراصل یہ بیوروکریسی ہی ہے جو کسی بھی قسم کے ترقیاتی کاموں کی منصوبہ بندی کرتی ہے اور ان پر عملدرآمد کرانے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے سرخ فیتہ اور افسر شاہی کی رکاوٹیں بھی منصوبوں کے نفاذ اور سہولیات کی فراہمی میں تاخیر کا باعث ہیں۔
نوبت تو یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ عوام بھوک سے مر رہے ہیں اور اگر اس صورتحال میں بھی حکومت کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تو انتہائی افسوس ہے کہ ملک کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اب صرف تابڑ توڑ ٹیکس لگا کر گزارا نہیں ہو گا جیسے بھی ہو عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف تو دینا ہی ہوگا۔

اگر ٹیکس وصولی پر ہی دارومدار ہے تو کم از کم حکومتی سطح پر کی جانے والی شاہ خرچیوں میں کمی اور کرپشن کنٹرول جیسے معاملات میں کچھ نہ کچھ کر کے دکھانا ہوگا، شفافیت میں خاطر خواہ اضافہ کرنا ہو گا اور عوامی فلاح و بہبود کے عزم کا اعادہ کرنا ہو گا، تب ہی وہ عوام بالخصوص تاجر طبقہ کو کسی مزاحمت کے بغیر ٹیکس نیٹ میں لانے کی بات کر سکتے ہیں ورنہ وہی ہو گا جو اب تک ہوتا رہا ہے یعنی قانون بھی بنتے رہیں گے اور ان کی خلاف ورزی کے لیے راستے بھی نکلتے رہیں گے اور مسلہ وہیں کا وہیں کھڑا ر ہے گا۔