ایک نئے وار کی تیاری

دو ہفتوں تک ہنگاموں اور مار دھاڑ کے بعد بنگلہ دیش کی سانسیں اسی طرح بحال ہونا شروع ہوئی ہیں جس طرح چیل کے پنجوں سے آزاد ہونے میں کامیابی کے بعد زخمی چوزے کو ہلدی اور سرسوں کے تیل کا آمیزہ لگانے سے اسے قرار آنے لگتا ہے، کم زخمی گھروں کو لوٹنے لگے ہیں، شدید زخمیوں کے علاج پر اب توجہ شروع ہوئی ہے۔ سرکاری اہلکاروں نے نیم دلی سے معاملات میں دلچسپی لینا شروع کی ہے وہ اعلیٰ عدالت کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ گھر کی مرغی ہاتھ سے نکل گئی ہے جس سے وہ اپنی پسند کی نوکریوں کے انڈے حاصل کیا کرتے تھے۔

بنگلہ دیش کے آرمی چیف وقار الزماں نے اعلان کیا ہے کہ فوج شہروں میں اپنی پوزیشنز پر موجود رہے گی اور حالات مکمل طور پر نارمل ہونے کے بعد واپس اپنی بیرکوں میں جائے گی۔ بنگلہ دیش کے ستاون ڈسٹرکٹ میں ستائیس ہزار فوجی امن قائم کرنے کے لیے تعینات کئے گئے تھے۔ پولیس کی نفری پچاس ہزار کے قریب تھی، سب ملکر حکومتی احکامات کی پابندی کرتے رہے اور سیکڑوں نوجوانوں کو ملک عدم بھیجنے کے مشن پر گامزن رہے۔ آرمی چیف نے مختلف شہروں میں صورتحال کا خود پہنچ کر جائزہ لیا۔ وہ اپنے سٹاف کے ساتھ جس ہیلی کاپٹر میں دورے کرتے نظر آئے اس کی حالت پاکستان کے مختلف شہروں میں سڑکوں پر دندناتی چنگ چی سے زیادہ خراب نظر آئی۔ بعض اوقات تو محسوس ہوتا تھا کہ ان کا ہیلی کاپٹر شاید ٹیک آف بھی نہ کر سکے۔ وہ ہانپتا کانپتا ٹیک آف کرتا اور لڑکھڑاتے ہوئے زمین پر اترتا دیکھا، اگر وہ مستقبل میں اس ہیلی کاپٹر پر سفر جاری رکھتے ہیں تو کسی بھی وقت حادثے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ہیلی کاپٹر اڑانے والے پائلٹ کی کارکردگی بھی ہمارے چنگ چی اڑانے والے پائلٹوں جیسی ہی تھی۔ بنگلہ دیشی فوجی افسروں کے زیراستعمال جیپیں تو نئی تھیں لیکن دیگر سامان اور گاڑیاں دیکھ کر یوں لگا جیسے یہ سب کچھ 1971ء کا مال غنیمت ہی ہے جس پر گزارا کیا جا رہا ہے۔

بنگلہ دیش میں حالات خراب سے خراب تر ہوئے تو انہیں بھارت کی طرف سے مدد کی پیشکش میں بتایا گیا کہ ان کا ہاتھ بٹانے کیلئے بھارت ان کی مدد کیلئے اپنی تجربہ کار افرادی قوت بھیج سکتا ہے۔ بھارت مخدوش تر حالات میں گھری حسینہ حکومت کو ہر صورت بچانا چاہتا ہے کیونکہ وہ حسینہ کے ساتھ ایک پیج پر ہے۔ دوسری طرف بنگلہ دیش آرمی اور سول حکومت کے درمیان ایک پیج تو دور کی بات وہ کتاب ہی موجود نہیں جس کے ایک پیج پر ہونے کے قصے ہم اپنے یہاں ہر دور حکومت میں سنتے ہیں پھر اچانک وہ ایک پیج والی کتاب گم ہو جاتی ہے اور ایک پیج کے ہونے کے دعویدار تلواریں سونت کر ایک دوسرے کے مقابل آن کھڑے ہوتے ہیں۔ بنگلہ دیشی حکومت کے پیچھے بھارت اور بھارت کے پیچھے امریکہ کھڑا ہے۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم کا آخری دورہ چین بہت اہم قرار دیا جا رہا تھا۔ حسینہ نے اپنے اس دورے میں حکومت چین سے پانچ ارب ڈالر کی درخواست کی لیکن چین نے بھارت کی ہمدردیاں امریکہ کے ساتھ دیکھ کر اس کے حلیف بنگلہ دیش کو پانچ ارب ڈالر دینے کے بجائے مناسب سمجھا کہ انہیں پانچ ارب ڈالر تو نہیں لیکن کچھ نہ کچھ ان کے ہاتھ پر رکھ کر میدان کو بالکل خالی نہ چھوڑا جائے۔ پس انہوں نے بنگلہ دیش کو دو ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا۔ حسینہ شیخ نے اس بات کو اپنی اور بنگلہ دیش کی بے عزتی سمجھا۔ انہوں نے چینیوں کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ وہ خطے کی سب سے زیادہ تیزرفتاری سے ترقی کرنے والی معیشت ہیں اور اپنے حریف پاکستان کو بہت پیچھے چھوڑ چکے ہیں جبکہ پاکستان قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اس کے پاس تو قرضوں کا سود ادا کرنے کیلئے پیسے نہیں ہیں وہاں تو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں۔ پس اس صورتحال میں پاکستان کی نسبت بنگلہ دیش ان کا بہتر کاروباری پارٹنر ثابت ہو سکتا ہے۔ چینیوں نے ان کی بات کو غور سے سنا لیکن ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا اور انہیں بتایا کہ بنگلہ دیش کی اقتصادی حالت بہتر ضرور ہے لیکن بنگلہ دیش اور پاکستان کا کوئی مقابلہ نہیں۔ پاکستان کا اپنا ایک مقام ہے ہم پاکستان کے ساتھ دوستی نبھاتے ہوئے بنگلہ دیش کے ساتھ بھی اچھے مراسم کے قائل ہیں لیکن فی الوقت آپ کو دو ارب ڈالر سے زیادہ نہیں دے سکتے۔ اس جواب سے حسینہ شیخ آگ بگولا ہو گئیں۔ انہوں نے چین کا دورہ مکمل کئے بغیر واپسی کا سفر اختیار کیا۔ حسینہ کے ناکام دورہ چین پر سب سے زیادہ امریکہ کو خوشی ہوئی کیونکہ امریکہ اگر کسی ملک کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے خائف ہے تو وہ صرف اور صرف چین ہے۔ ناکام دورہ چین سے واپسی پر امریکیوں نے سکھ کا سانس لیا اور بھارت کو اشارہ کیا کہ وہ بنگلہ دیشی وزیراعظم کی دل جوئی کرے اور امریکہ کے خیرسگالی کے جذبات ان تک پہنچائے۔ جس کے بعد امریکی اور بھارتی فرمائش پر حسینہ شیخ نے کچھ ایسے اقدامات کئے جن سے چین کے مفادات کو زک پہنچتی ہے۔ بنگلہ دیش کرونا زمانے میں معاشی اعتبار سے قدرے مستحکم ہوا۔ دنیا کے کارخانے بند ہو گئے انہوں نے شٹر ڈاؤن نہ کیا۔ دنیا بھر کے ٹیکسٹائل آرڈر وہاں شفٹ ہو گئے اور جب سے اب تک وہیں ہیں۔ بنگلہ دیش میں کپاس کاشت نہیں ہوتی وہ دنیا بھر سے کپاس خریدتا ہے پھر ویلیو ایشن کے بعد گارمنٹس دنیا بھر کو سپلائی کرتا ہے۔ ان میں امریکہ و یورپ میں کام کرنے والے کھیت مزدور کیلئے تیار کی جانے والی ٹی شرٹ اور جینز سستے داموں دنیا کے بیشتر ممالک کو ایکسپورٹ کی جاتی ہے جبکہ ان کی پراڈکٹ رینج بہت وسیع ہے۔ بنگلہ دیش میں موجود اپوزیشن جماعتیں حسینہ شیخ کی بھارت اور امریکہ نواز پالیسیوں کو پسند نہیں کرتیں وہ اپنا مستقبل ایشیا میں دیکھتی ہیں، امریکہ میں نہیں۔ بنگلہ دیشی سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوا تو حسینہ حکومت کے پاؤں اکھڑ جائیں گے۔ آئندہ انتخابات میں ان کا پتہ صاف ہو جائے گا لیکن اس سے قبل بھی بنگلہ دیش میں بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔ بنگلہ دیش کی عقل کل وزیراعظم کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں۔ اپوزیشن ایک اور وار کی تیاری میں ہے، بالکل ایسے جیسے پاکستان میں ہے۔