مصائب و آلام اور لکشمی دیوی

وطنِ عزیز کی سیاسی دنیا میں بھونچال سی کیفیت ہے، افراتفری کا عالم ہے۔ ہمارے حکمران سیاست دان سخت گھبراہٹ سے دوچار ہیں، ان کی سیاست کا بہت مندا ہے بلکہ یہ داؤ پر لگ چکی ہے۔ عوام کی حالت یہ ہے کہ روزگار ہے نہ روٹی ہے اور نہ زندگی کا کوئی سہارا، باقی جو رہ گیا ہے مکمل اندھیرا ہے۔ روز بروز مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خدا کی پناہ ہر چیز کا ریٹ روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہا ہے۔ غرض زندگی کا ہر سامان کئی گنا زیادہ قیمت پر بھی آسانی سے میسر نہیں۔ عوام بری طرح پس رہے ہیں۔ جو چیز ایک سال پہلے سو روپے کی تھی آج دو سو روپے تک پہنچ چکی ہے۔ بیرونی چھوڑیں مقامی سرمایہ کاری میں بھی بے حد کمی آ چکی ہے۔ ہمارے ہاں اربابِ اختیار کو فیکٹریاں، ملیں، فلیٹس اور بے انتہا دولت جب کہ عوام کو بھوک، غربت، بے روزگاری، مصائب اور قرضے ملتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب سے پاکستان بنا ہے تب سے قومی خزانے کی جس طرح بندر بانٹ چلی وہ ضرب المثل بن چکی ہے۔ کرپشن کرنے والوں نے پوری قوم کو مفلس اور اپاہج بنا دیا ہے۔ ملک سے دولت کے وسائل چھین کر عام پاکستانیوں کو بھی محنت کے مواقع سے محروم کر دیا ہے۔ آج ہم ایک بکھری ہوئی قوم بن چکے ہیں جس کا زندگی کے شعبے میں کوئی رہنما نہیں۔ حکمران عمر بن عبدالعزیزؒ جس نے آنحضرتﷺ کی صحبت اور براہِ راست تربیت نہیں پائی تھی، جیسے حضرت ابو بکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور علی ؓ نے۔ زمین ظلم اور چھینا جھپٹی سے بھر چکی تھی جس میں عمرؓ کا شاہی خاندان سرِ فہرست تھا۔ اس نے حکمرانی میں جو غیر معمولی انقلاب پیدا کیا اس کو کتابوں کے حوالے کر کے میں ایک ایسا واقعہ بیان کرتا ہوں جو اس کی زندگی کا تو عام واقعہ ہے مگر ہمارے لئے حیران کن۔ نماز کے بعد جب ایک بار ان پر غیر معمولی رقت طاری ہو گئی تو بیوی نے گھبرا کر پوچھا کیا بات ہوئی ہے جواب دیا جب مجھ سے پوچھا جائے گا کہ تمھیں غریبوں، بوڑھوں، بچوں، مظلوموں اور افتادگانِ خاک کا ذمہ دار بنایا گیا تھا تو تم نے ان کے لئے کیا کیا اور دیکھو میرے خلاف ان عوام کے وکیل حضورﷺ ہوں گے جو اپنی امت کی وکالت کر رہے ہوں گے، اب بتاؤ میں روؤں پیٹوں نہیں تو کیا کروں۔ جناب وزیرِ اعظم ہوں یا ہمارے دوسرے دولت کی فراوانی سے مدہوش سیاست دان اور اونچے لوگ سب کی خدمت میں عرض ہے کہ ان کی دولت صرف اس صورت میں ان کے کام کی رہے گی جب ان کا ملک اور ان کا کوئی زمینی حوالہ باقی رہے گا۔ ہمارے بے حس معاشرے میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو دوسروں کی مصیبتوں اور تکلیفوں کی بنیاد پر لکشمی دیوی کے قرب سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ آج پاکستان غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے،لیکن ننگا بھوکا مصیبت کا مارا، ظلم و بربریت کا شکار، لاوارث پاکستان چند لوگوں کے لئے عیش اور لوازمات فراہم کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ ایسے ہی افراد اور اربابِ اختیار کی بے حسی کو دیکھتے ہوئے کرپشن بڑی تیزی سے اس عظیم ملک اور قوم کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے۔ جب آئین اور قانون کو ملک کی سالمیت، بقا اور ترقی کے تحفظ کا ذریعہ بنانے کے بجائے انہیں محض اشرافیہ کے مخصوص ٹولوں کے مفادات کا ترجمان بنا کر رات دن اس کی شکل مسخ کی جائے اور اس کی غلط سلط تعبیریں اور تشریحات کر کے ناپاک مقاصد حاصل کئے جائیں تو پھر لازمی طور پر معاشرے میں انارکی کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ریاستی ادارے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے لگام ہوتے چلے جاتے ہیں، عوام سے ان کا کوئی رشتہ باقی نہیں رہتا۔ پھر اقتدار کے حصول اور اقتدار کے طول کے لئے طرح طرح کی سازشیں اور خفیہ کارروائیاں وجود میں آتی ہیں۔ بے یقینی اور شکوک و شبہات کی فضا پیدا ہوتی ہے، ایک دوسرے پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے اور اس طرح جنم لینے والا اور فروغ پانے والا عدم استحکام ملک کو سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی طور پر کنگال کر کے رکھ دیتا ہے۔ آئین ایک تماشا بن جاتا ہے اور بے لگام اربابِ اختیار اپنی اپنی ذاتی اور گروہی بالادستی کے لئے آئین کی دھجیوں کو گلی کوچوں میں گھسیٹتے پھرتے ہیں۔ چونکہ ملک میں کبھی آئین کی حقیقی حکمرانی نہیں رہی اور کسی بھی قسم کی آئینی اور جمہوری روایات پاکستان کے سیاسی کلچر کا حصہ نہیں بن سکیں۔ اس لئے ہر شخص اور گروہ اپنے اپنے مفادات کی عینک لگا کر آئین کی تشریح و تعبیر کرتا رہا اور آئین کے نام پر ہونے والی اس بے فیض دھما چوکڑی میں خود آئین تو جیسے معدوم ہو کر رہ گیا۔ عوام اس ساری ہنگامہ آرائی کو بے زاری اور تاسف کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ اس ساری کھینچا تانی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ اسی طرح مہنگائی، بھوک اور افلاس کے کوڑے کھا رہے ہیں جیسا کہ پہلے کھاتے رہے تھے اور کسی بھی آنے والی تبدیلی کے بعد ان کا مقدر یہی رہے گا کیونکہ پاکستان کی ا شرافیہ کے تمام گروہوں میں سے جو طرح طرح کی سیاسی پارٹیوں کی وابستگی کی شکل میں موجود ہیں، کسی کے پاس بھی عوام کے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔

ہم 77 سال میں فیصلہ نہیں کر پائے کہ آنے والی نسل کو زندگی کی کس راہ پہ ڈالنا ہے؟ ہمیں اگر دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو اپنی آنکھیں کھولنا ہوں گی اور معاشرے میں عدل و انصاف کو سختی سے قائم کرنا ہو گا۔ اگر واقعی ہمیں ترقی کرنا ہے تو اپنی قومی ترجیحات کے تعین کے نظام کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہو گا۔ کیونکہ موجودہ ترجیحات کا نظام ذاتی اور کاروباری مفادات کے باعث اپنی افادیت کھو چکا ہے، اس کا نتیجہ سوائے محرومی کی سیاست کے اور کچھ نہیں ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حکمرانوں کے طرزِ عمل نے ملک کے ادارہ جاتی نظام کو جس برے انداز سے بگاڑ کر اسے قانون کے مقابلے میں ذاتی و سیاسی ادارے بنا کر ان کا سیاسی و قانونی استحصال کیا ہے، وہ غیر جانبدارانہ قومی ترجیحات کا تعین کیونکر کر سکیں گے۔