ملکی قذاق اور غریب عوام

شیخ صاحب منبر پر چڑھے، مائیک تھاما، اور سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے صبر و استقامت کی تلقین اور اسراف نہ کرنے کے متعلق وعظ کرنے لگے۔ حاضرین میں ایک خاکروب بھی تھا، وہ اپنی جگہ پر کھڑا ہوا اور کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ حاضرینِ مجلس نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا، دوران خطبہ اپنی حاجت نہیں پیش کی جاتی، صبر کرو، وعظ مکمل ہو لینے دو! خاکروب کہنے لگا کہ وہ عرصہ دراز سے شیخِ مکرم کی اقتدا کر رہا ہے، اسے بولنے دیا جائے، کیوں کہ اس سے بہتر موقع میسر ہونا مشکل ہے۔ خاکروب نے اجازت کا اشارہ پاتے ہی کہنا شروع کردیا:

جناب شیخ: آپ ابھی ابھی لگژری گاڑی سے اترے، عمدہ ترین لباس زیب تن کیے، اور پوری مجلس کو معطر کردینے والی خوشبو میں رچے بسے یہاں تشریف لائے۔ آپ کے ہاتھ میں چار انگوٹھیاں ہیں، ہر انگوٹھی کی قیمت میری تنخواہ کے برابر ہے، اور آپ کا فون آئی فون ہے۔ ہر سال آپ عمرے کی ادائیگی کیلئے سفر کرتے ہیں۔شیخ صاحب! ایک دن میرے ساتھ میرے کمرے میں چلیں جس کی چھت لوہے کی چادروں سے بنی ہوئی ہے، میری خواہش ہے کہ آپ وہاں ایک رات میرے ساتھ قیام کریں، اور ایئر کنڈیشنر کے بغیر سوئیں۔۔۔ پھر آپ تہجد کے وقت اٹھ کر بھوکے پیٹ میرے ساتھ کام کیلئے نکلیں، میرے ساتھ اس شدید گرمی میں شاہراہوں کو صاف کرنے کیلئے جھاڑو لگائیں، تاکہ آپ کو صبر اور روزے کا حقیقی مطلب معلوم ہو۔۔۔ میں یہی کام روزانہ بلا ناغہ کرتا ہوں، تاکہ مہینے کے آخر میں تھوڑی سی رقم مل جائے جو آپ کی خریدی ہوئی عطر کی شیشی کی قیمت کے برابر بھی نہیں ہوتی۔۔۔!

معاف کیجیے جناب! ہمیں صبر سیکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ تو ہمارا روزِ اول سے اوڑھنا بچھونا ہے۔

اس کے بجائے اس منبر کا تقاضا ہے کہ آپ، سفید لبادوں میں ملبوس کاروباری حضرات کے ظلم و ستم اور اہل علم و دانش کی منافقت کے بارے میں کھل کر بیان کریں۔ بے روزگاری اور بھوک کے بارے میں بتائیں، جو معاشرے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ مظلوم لوگوں کے استحصال اور غریب کی فاقہ کشی کی بارے میں بتائیں کہ ان کی فلاح و بہبود کیلئے اہلِ ثروت کے پاس کیا پالیسی ہے۔ کرپشن اور عوام کے پیسے کی لوٹ مار کے بارے میں بتائیں۔ ہمیں طبقاتی تقسیم اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم میں انصاف کی عدم موجودگی کے بارے میں بتائیں۔ ہمیں اقربا پروری، موروثیت، اور اپنے کرم فرماؤں کو نوازنے کے بارے میں بتائیں۔ ورنہ ہمیں آپ کے عمل سے خالی وعظ کی مزید ضرورت نہیں ہے۔یہی ہمارے وزیراعظم الیکشن سے پہلے فرماتے تھے کہ کشکول توڑ دیں گے۔ محنت کریں۔اچھے دن آئیں گے؟ جو کام پچھلے ستتر سال سے نہ ہو سکا وہ اب کیسے ہوگا؟جب تک انکی اپنی عیاشیاں،اپنے اللے تلے ختم نہ ہونگے تو خوشحالی کیسے ممکن ہوگی؟جب بیوروکریٹس اور اسٹیبلشمنٹ کی موجیں ختم نہ ہونگی تو خوشحالی کیسے ممکن ہوگی۔ ڈپٹی کمشنرز کو نئی ”فارچونر“ گاڑیاں دی گئی ہیں۔ایک ”فارچونر“ گاڑی کی قیمت اڑھائی دو کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ایک اسسٹنٹ کمشنر کو ایک ویگو ڈالہ گاڑی دی گئی ہے۔جس کی قیمت سوا کروڑ کے لگ بھگ ہے جبکہ ایک ضلع میں چار سے چھ اسسٹنٹ کمشنر ہوتے ہیں۔اسی طرح ایک کمشنر کے پاس گورنمنٹ کی دس سے گیارہ گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں اور اس کے علاوہ بے بہا مراعات الگ ہوتی ہیں۔ ان فرعون نما لوگوں نے زندگی بھر ڈھنگ کا کوئی عمل سر انجام نہیں دیا ہوگا۔یہ ملک کے پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں اور عمل کے اعتبار سے خستہ حالی ان کا مقدر ہوتی ہے۔یہ ایک محکمہ ہے جس کی حالت زار نوحہ زنی پر مجبور کرتی ہے۔جس ملک کے سربراہان عیش و عشرت میں مبتلا ہو جائیں یا کر دئیے تو بھوک، بیماری، لاقانونیت، مذہب سے بے زاری، من مانی اور بے دردی اس قوم کا مقدر بن جاتی ہے؟ جس قوم کے اساتذہ اور ملازمین روٹی کی خاطر تپتی سٹرکوں پر دن رات گزارنے پر مجبور ہو جائیں تو اس قوم کے سربراہان کی عقل و دانش، شعور، ویژن اور فکر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔یہ حکمران اور اداروں کے سربراہان بحری قذاق ہیں۔

جب بحری قذاق کسی بحری جہاز پر قبضہ کر لیتے تھے تو انھیں اس بات کی ذرہ برابر پروا نہیں ہوتی تھی کہ لوگ بھوک سے، بیماری سے، اور خود ان قذاقوں کے مظالم کی وجہ سے مر رہے ہیں اور جہاز روز بروز تباہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔جب تک ان کا قبضہ برقرار رہتا تھا اور عیاشیاں جاری رہتی تھیں تب تک وہ قابض رہتے تھے۔ جب جہاز ڈوبنے لگتا ہے تب اپنی کشتیوں پر بیٹھ کر اپنے اصل ٹھکانوں کا رخ کرتے تھے۔ ان کی بلا سے کہ جہاز پر موجود لوگ، خاندان کے خاندان عورتوں اور بچوں سمیت موت کے گھاٹ اتر جائیں یا بچ جائیں۔ایسی ذہنیت رکھنے والے جانوروں کو انسانیت کا کیا درد؟ان کے اپنے خزانے لبا لب جو ہو جاتے تھے۔ حیرت تو ان پر ہوتی ہے جو مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں سے عقل، ہمدردی یا انسانیت کی امید رکھتے ہیں اور انہیں اپنا مسیحا گردانتے ہیں۔ ان بحری قزاقوں سے چھٹکارا ہی اس قوم کا مقدر بدل سکتا ہے۔ ورنہ یہ غلامی انگریزوں کی غلامی سے زیادہ بدتر ثابت ہوگی۔ بقول مرزا سکندر بیگ

خالی ہاتھ دعا اور میں
پاک کلام خدا اور میں
دیر تلک ہم ساتھ رہے
رات چراغ ہوا اور میں
لاکھوں ناگ مقابل ہیں
میرا ایک عصا اور میں
کیسے تم سے آن ملوں
میلوں بیچ خلا اور میں
دور کہیں دم توڑ گئے
زخمی کونج صدا اور میں