ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی محنتِ پیہم، سرکارِ دو عالمؐ کے پیغامِ انسانیت پر منتج ہوتی ہے۔ قرآن سب کتبِ سماوی کی معراج ہے۔ صاحبِ قرآن سب انبیاء کے امام ہیں۔ محسنِ انسانیتؐ کے بعد اب کوئی نبی مبعوث نہیں ہو گا۔ اس لیے تصوّر کیا جا سکتا ہے کہ اِس پیغام کی حفاظت اس ذات کو کس حد تک مطلوب ہو سکتی ہے جس نے کائنات و مافیہا کی تخلیق کی، اس کے ذرّے ذرّے کی تقدیر مقرر کی، اس کائنات کے عین قلب میں کرہِ ارض کو مستانہ وار رقص کرنے کے حکم دیا، پھر اس گہوارہِ ارضی میں انسان کو لابسایا، اسے ارادے اور عمل سے متصف کیا اور …… پھر اس کی ہدایت کے لیے اپنے پیغمبروں کو پے در پے مبعوث کیا۔ وہ رب العالمین ہے …… انسان کی ظاہری اور باطنی وجود کی ربوبیت کا سامان کرتا ہے۔ ظاہری وجود کی نشو نما کے لیے اس نے متعدد واسطوں اور وسیلوں سے ظاہری رزق بہم پہنچایا ہے۔ باطنی وجود کی پرورش کے لیے اس نے پیغمبروں کے وسیلے سے جو سامانِ رزق پہنچایا ہے، اسے وحیِ ہدایت کہتے ہیں۔ اس نے پیغامِ رسالت مآبؐ کی تحفیظ و تفسیر کے لیے جس ہستی کا انتخاب کیا گیا، اس کی قدر و منزلت کا اندازہ محدود شعور رکھنے والی مخلوق کو آخر کیونکر ہو سکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس ہستی کی کما حقہ قدر وہی ذات جان سکتی ہے جس نے جنابِ آدمؑ سے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰؐ تک انبیاء و رُسل کی صورت میں رشد و ہدایت کا سلسلہ قائم کیا۔
پیغامِ رشد و ہدایت کی حفاظت بھی رب العالمین کے ذمے ہے۔ قانون ِ فطرت کے مطابق وہ رزق پہنچاتا ہے، اور اسے محفوظ بھی کرتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ بے شک ہم نے یہ ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ یہ عالمِ رنگ و بُو دراصل عالمِ اسباب بھی ہے۔ یہاں اُس کا ہر اَمر اپنے اسباب اور وسیلوں کے ذریعے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ وہ الہادی ہے، اور ہدایت کے ہادی ذات مبعوث کرتی ہے۔ وہ رب العالمین ہے اور بچے کی ربوبیت اس کے والدین کے ذریعے کرتی ہے۔ اسی طرح اپنے ازلی پیغامِ رشد و ہدایت کی ترسیل اور پھر حفاظت کے لیے اس نے اپنے چنیدہ اور عظیم الفطرت انسانوں کا انتخاب کیا ہے۔
کربلا محض ایک ظاہری واقعہ نہیں، کہ اسے ظالم کے ظلم کی داستان سمجھ کر بتلا دیا جائے۔ اس محیر العقول واقعے کی عظمت اور اس میں کام آنے والی ہستیوں کی عزیمت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ اسے روحانی سطح پر بھی سمجھا جائے۔ اگر صرف مادّی سطح پر دیکھیں گے تو یہی بات نکلے گی کہ ایک طاقتور اور سرکش گروہ نے اپنے اقتدار کے لیے ظلم کا بازار گرم کیا اور اپنے تئیں اقتدار کو محفوظ کر لیا۔ اس میں عرفانیات اور اخلاقیات کے پہلو تب ہی منکشف ہوں گے، اگر ہم اس کا مطالعہ روحانی سطح پر کریں گے۔
روحانی سطح پر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ کربلا کے میدان میں جملہ انسانی اقدار کا تحفظ کیا گیا …… وہ تمام اقدار جو انبیاء کے طرزِ فکر سے جنم لیتی ہیں، تاقیامت اُن کی تحفیظ کا بندوبست کیا گیا۔ بلا تخصیصِ مذہب و ملت اگر اہلِ کربلا کے مقابلے اور مقاتلے پر اترنے والے لشکرِ شقاوت کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان میں کوئی ایسی قدر باقی نہ رہی تھی جسے انسانی قدر کہا جا سکے۔ وہ جس حکمران کے اقتدار کی حفاظت کے لیے خانوادہِ رسولؐ کے قتلِ ناحق پر آمادہ تھا، اس کے محلِ اقتدار میں ہر انسانی اور اسلامی قدر کا خون جائز تھا۔ شراب نوشی سے لے کر محرمات کی حرمت کی پامالی تک اور دینی شعائر کی بے حرمتی سے لے کر توحید و رسالت کی بابت کفریہ اشعار تلک، سب کچھ تاریخ کا حصہ ہے۔ تاریخ سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں۔ حق اور باطل کو باہم گڈمڈ نہیں کیا جا سکتا۔ قاتل اور مقتول کو ایک ہی درجے میں درج نہیں کیا جا سکتا۔ علوی اور سفلی کردار ایک ہی جگہ اکٹھے نہیں کیے جا سکتے۔
اسلامی تاریخ کے اوائل میں قصرِ اقتدار سے جاری ہونے احکامات کو عین دینی حکم سمجھ کر قبول کر لیا جاتا۔ خلافتِ راشدہ کے اَدوار میں مسجد ہی عبادت، قیادت اور سیاست کی جگہ تھی۔ ایک عام آدمی اور خلیفہِ وقت کی معاشی حالت میں کچھ خاص فرق نہ ہوتا۔ ایک عام آدمی سرِ محفل خلیفہ کا احتساب کر سکتا تھا۔ حضرت عمرؓ سے ایک بدو پوچھتا ہے کہ سب کو ایک چادر ملی تھی اور ایک چادر سے قمیص نہیں سل سکتی، تمہاری یہ قمیص کیسے سل گئی؟ حضرت علیؓ کو خلیفہ ہوتے ہوئے قاضی کے کٹہرے میں ایک یہودی کے مقابلے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے اور خلیفہِ وقت کے حق میں بیٹے کی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔ عدل و انصاف اور سادگی کا یہ کلچر جو خلافت راشدہ کا خاصا تھا، رفتہ رفتہ ماند پڑنے لگا۔ ابھی نصف صدی مکمل نہ ہوئی تھی کہ دیارِ شام میں محلات کی تعمیر ہونے لگی، اعتراض کرنے والے صحابہ کو جلاوطن کیا جانے لگا اور موروثی بادشاہت کے طور طریقے رواج پانے لگے۔ یہاں تک کہ وہ وقت بھی آ گیا جب منھجِ خلافت کے برعکس اعلانیہ فسق وفجور میں لت پت ایک شخص کو مسندِ اقتدار پر بٹھا دیا گیا۔ خلافت سے ملوکیت تک کا سفر مکمل ہو چکا۔ اب اِس بات کا قوی اندیشہ پیدا ہو گیا تھا کہ دینی اقدار اور شعائر سرکاری سطح پر مسخ کر دئیے جائیں گے۔ تاریخ نے دیکھا کہ یہ اندیشہ بے جا نہ تھا۔
آج سے قریباً چالیس برس قبل لاہور میں یومِ حسینؓ کی مناسبت سے ایک جلسے میں مختلف مکاتبِ فکر کے علماء جمع تھے۔ عنوان تھا: ”اگر کربلا برپا نہ ہوتی۔۔۔“ سنانے والے سناتے ہیں کہ آخر میں جب ایک سکالر کو مدعو کیا گیا تو مغرب کی آذان کا وقت ہوا چاہتا تھا، تقریب ختم ہونے میں صرف پانچ منٹ باقی تھے۔ سامعین حیران تھے کہ یہ صاحب چند منٹ میں اپنا خطاب کیسے مکمل کریں گے۔ مقرر سٹیج پرآئے اور فرمانے لگے: ”حضرات! آپ فکر نہ کریں، میں اپنا موضوع صرف ایک جملے میں مکمل کرتے ہوئے جا رہا ہوں …… اگر کربلا برپا نہ ہوتی تو ہم جمعہ کی نماز بدھ کے روز پڑھ رہے ہوتے“۔ اتنا کہہ کر وہ سٹیج سے اُتر گئے۔ بنو اُمیّہ کی تاریخ سے آگاہ سامعین کے لیے اس ایک جملے میں مکمل مضمون موجود تھا۔ تاریخ کے اوراق میں رقم ہے کہ ایک مرتبہ کسی اموی حکمران نے شراب کے نشے میں بدھ کے روز جمعہ کا خطبہ دے کر نمازِ جمعہ پڑھا دی تھی۔ اسی طرح کسی اور حکمران نے نشے میں فجر کی تین رکعتیں پڑھا دیں اور اعلان کیا کہ آج کے بعد تین رکعتیں ہوں گی۔
اسلام اور اہلِ اسلام تا قیامت مقروض ہیں اہلِ کربلا کے …… کربلا کے بعد عوام نے دین کی راہنمائی کے لیے اپنے حکمرانوں کی طرف دیکھنا چھوڑ دیا۔ وہ کھانا تو بادشاہوں کے دستر خوان پر کھاتے رہے، ان سے تنخواہیں وصول کرتے رہے لیکن اُن سے دین لینا گوارا نہ کیا۔ دین کے طلبگاروں کی راہیں قصرِ اقتدار سے ہمیشہ کے لیے منقطع ہو گئیں۔ آج بھی عام مسلمان اپنے حکمران سے دینی راہنمائی نہیں لیتا، بلکہ وہ اپنے امام، پیش امام، مفتی، مجتہد اور مرشد سے دین لیتا ہے۔ اب دینی فتویٰ بادشاہ کے دربار سے نہیں، بلکہ کسی مفتی کی درسگاہ سے آتا ہے۔ ایک عام مسلمان اب اسلام کی روشنی میں اپنے حکمرانوں کے اقوال و افعال کا جائزہ لیتا ہے، وہ حکمرانوں کے اقوال سے اسلام کی تشریح نہیں کرتا۔ یہ ایک احسانِ عظیم ہے، جو سالارِ کربلا نے اسلام اور اہلِ اسلام پر کیا ہے۔
یوں ہی تو دینِ محمدؐ کا کام جاری ہے
حسین ابنِ علیؓ پر سلام جاری ہے