حکومت اور گھروالی بھی ایک پیج پر

جب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں محبتیں پروان چڑھتی ہیں تو وہاں سے ایک آواز آتی ہے کہ دونوں ایک پیج پر ہیں۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ حکومت اور بیوی دونوں ایک پیج پر ہیں۔ دونوں کے مقاصد ایک ہیں، دونوں کا مشن ایک ہے، دونوں کے مطالبات ایک ہیں، دونوں کے نظریات ایک ہیں۔ اب آپ سوچیں گے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بیوی اور حکومت اکٹھے ہیں۔ دیکھیں حکومت عوام پر ٹیکس کے بوجھ لاد کر اس کا خون پیتی ہے اور اس کی پیاس ہے کہ بجھتی نہیں اور بیوی ہے کہ صبح سے رات گئے آئی ایم ایف بن کر شوہر پر مطالبوں کے اوپر اس قدر مطالبے کرتی ہے کہ بندہ دونوں کو کوستا ہے اور اگر بیوی سے ہٹ کر دیکھا جائے تو پھر ہماری ملکی معیشت کا حال اس عورت کی طرح کا ہے جب وہ حسین تھی، جوان تھی تو ہر کوئی اسے ہی دیکھتا، اسے ہی چاہتا اور اسی ہی کے خواب دیکھا کرتا ہے اور پھر جب وہ اپنی جوانی کی دہلیز سے نکل کر بڑھاپے کے گھر قدم رکھتی ہے تو وقت کے ساتھ ساتھ اس کے چاہنے والے کسی اور کی طرف اپنی ناکام محبتوں کے رخ موڑ لیتے ہیں اور پھر وہ بوڑھی حسینہ سسکتی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

یہی کیفیت ہماری معاشی عورت کی ہے کہ جب یہ جوان تھی جب وہ جہاں سے گزرتی سب کے دل ٹھنڈے کرتی، اچھلتی ناچتی، گنگناتی سب کو مطمئن کرتی یعنی سب خوش تھے۔ غربت ابھی اس پر سوار نہیں تھی بس اچھا گزارا ہو رہا تھا۔ ایوب خان پھر قدرے ضیاء الحق پھر قدرے مشرف پھر قدرے میاں نوازشریف پر قدر بے نظیر کے ادوار میں تباہی ہمارے اداروں کے کھاتوں میں ڈال دی گئی اور بہت سے ناکردہ گناہ بھی ہمارے اوپر لاد دیئے گئے شاید ہی کوئی اچھا دور گزرا ہو جب ہم نے ترقی، خوشحالی اور خوشگوار زندگی کا منہ دیکھا ہو۔ پہلے ہم کماتے تھے کہ روٹی مل جائے، اب کماتے ہیں کہ ”بجلی، گیس اور پانی“ کے بل جمع کرانے ہیں۔ آج ہر طرف سے ایک ہی آواز ہے ہائے بجلی، ہائے بجلی…… بجلی…… بجلی اور یہ بجلی کب تک ہم پر بھاری بلوں کی صورت میں گرتی رہے گی۔ پتہ نہیں آج صبح سے شام تک کبھی آئی ایم ایف کبھی حکومت تو کبھی دوسرے ادارے ہم پر بجلیاں گراتے ہیں۔ دوسری طرف شوہر تمام دن کام کرنے کے بعد گھر لوٹتا ہے تو بیوی ایک نہیں کئی بجلیاں گرا دیتی ہے کہ دودھ نہیں، سودا سلف نہیں، سبزیاں نہیں، آٹا نہیں، چینی نہیں، گھی نہیں، روٹی پکاؤ تو گیس نہیں، بچوں کی فیس نہیں، گھر کا کرایہ نہیں یعنی اب حکومت اور بیوی دونوں میں کوئی فرق نہیں رہ گیا اور دونوں یوں بجلی کراتے ہیں جیسے اس کو گرانے کا حق ہوتا ہے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ اب ہم اپنے اوپر بجلی گرانے کے عادی سے ہو گئے ہیں۔ حکومت کی نظریں آئی ایم ایف پر تو بیوی کی نظر شوہر نامدار کی ماہانہ تنخواہ پر اور تنخواہ اتنی کم پڑ گئی ہے کہ مہنگائی پہلے ہی نوالے میں اس کو ڈکار جاتی ہے رہ جا کے باقی جو بچتا ہے وہ پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں جو ہم پورا مہینہ بھگتے ہیں۔ آج کہیں حکومت تو کہیں بیوی دونوں منہ پھاڑے ہوئے ہیں۔ اب دیکھا جائے تو بیوی کا تو کوئی قصور نہیں ہے اور قصور ہے تو حکمرانوں کا جو حکومتیں کرنے آتے ہیں اپنے مفادات پورے کرتے ہیں اور پھر دوبارہ آنے کے لیے چلے جاتے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ اب نہ وہ زمانے رہے اور نہ وہ حکمران آ رہے ہیں جو اپنی قوم اپنے ملک اور اس دھرتی کا سوچتے یہاں ایک تاریخی واقعہ لکھتا چلوں باقی آپ مجھ سے زیادہ سمجھ دار ہیں شاید سمجھ جائیں۔

سومنات کا مندر اتنا بڑا تھا کہ ہندوستان کے سب راجے اس کے لیے جاگیریں وقف کرتے، اپنی بیٹیوں کو خدمت کے لیے وقف کرتے جو کہ ساری عمر کنواری رہتیں اور انہیں دیوداسیاں کہا جاتا۔ ہر وقت دو ہزار کے قریب برہمن پوجاپاٹ کرنے کے لیے حاضر ہوتے، ان میں 500 گانے بجانے والی خوبصورت عورتیں اور 300 قوال ملازم تھے۔ سومنات کے بت کی چھت 56 ستونوں پہ قائم تھی وہاں مصنوعی یا سورج کی روشنی کا بندوبست بالکل بھی نہیں تھا بلکہ ہال کے قندیلوں میں جڑے اعلیٰ درجے کے جواہرات روشنی مہیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں مغلیہ بادشاہ سلطان محمود غزنوی بت شکن ایک روز سونے و چاندی کے چھوٹے چھوٹے بتوں کو روندنے کے بعد بادشاہ بت کے سامنے جا کھڑے ہوئے، یہ بت 6فٹ زمین کے اندر اور 9فٹ زمین سے بلند تھا۔ اسی دوران شہر کے معزز ہندوؤں نے منہ مانگی مال و دولت کی پیش کش کی کہ مومنات کے بادشاہ اس بت کو کچھ نہ کہیں، تو سلطان محمود غزنوی کے دیسی دانشوروں نے مشورہ دیا کہ پتھر کو توڑنے کا کیا فائدہ جبکہ مال و دولت مسلمانوں کے کام آئے گا۔ سلطان محمود غزنوی نے دیسی دانشوروں کی بات سن کر کہا کہ ”اگر میں نے تمہاری بات مان لی تو دنیا اور تاریخ مجھے بت فروش کہے گی جبکہ میری چاہت یہ ہے کہ دنیاو آخرت میں مجھے محمود بت شکن کے نام سے پکارا جائے“۔ یہ کہتے ہی محمود بت شکن کی توحیدی غیرت جوش میں آئی اور ہاتھ میں پکڑا ہوا گرز سومنات کے دے مارا، جس سے اس کا منہ ٹوٹ کر دور جا گرا، پھر سلطان کے حکم پہ اس کے دو ٹکڑے کیے گئے تو اس کے پیٹ سے اس قدر بیش بہا قیمتی ہیرے، جواہرات اور موتی نکلے کہ جو ہندو معززین اور راجوں کی پیش کردہ رقم سے 100گنا زیادہ تھے۔ یاد رکھیں غیرت مند مسلمان بت شکن ہے …… بت فروش نہیں۔بت شکن سلطان محمود غزنوی وہ ہستی ہے، جب ظاہر شاہ کی حکومت میں 1974ء کو جو زلزلہ آیا تو اس میں محمود غزنوی کی قبر پھٹ گئی۔ منتظمین نے قبر کو ٹھیک کرنے کیلئے پوری قبر کھودی تو اس کو مرے ہوئے 1000سال ہو گئے تھے۔ کہتے ہیں کہ اس کی قبر میں عجیب منظر تھا، اس کا کفن تک میلا نہیں ہوا یعنی 1000سال بعد بھی اس کا کفن ویسے کا ویسا ہی تھا اور اس کا ہاتھ سینے پر اور کفن سینے سے کھلا ہوا تھا۔ ایسا لگا کہ جیسے اسے آ ج ہی کوئی قبر میں اتار کر گیا ہے۔ اس کے ہاتھ کو ہاتھ لگایا گیا تو وہ زم و نازک تھا۔ ساری دنیا میں اس بات کی خبر پھیل گئی۔

اور آخری بات ……!

اللہ کے دین، ملک وملت کی حفاظت کرنے والوں کو اللہ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بلند مقام عطا کرتا ہے۔

اللہ پاک ہم سب کو عمل نیک کرنے کی توفیق دے۔آمین!