مکمل سناٹے کے بعد

ادارے مٹی کا مادھو نہیں ہوتے، یہ اینٹوں اور سیمنٹ سے بنی دیواریں بھی نہیں ہوتے، نہ ہی بانسوں کے سہارے کھڑے چھپڑ کو ادارہ کہا جاتا ہے۔ کچھ باشعور افراد کچھ ذمہ داریاں سنبھالنے پر مامور کئے جاتے ہیں۔ یہ ملتے ہیں تو ادارہ کہلاتے ہیں۔ ان میں سیاہ، سفید، نیلے خاکی نوری ناری سبھی شامل ہیں۔ کسی کو اس دائرے سے باہر نہیں رکھا جا سکتا۔ ہر ایک کے لئے ایک دائرہ بھی بنا دیا گیا ہے۔ سب کو اپنے اپنے دائروں میں رہنا ضروری ہے اور اجرام فلکی کی طرح اپنے اپنے مدار میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں انجام دینا ہیں۔ جس روز اجرام فلکی میں سے کوئی ایک اپنے مدار سے نکلے گا دیگر تمام آپس میں ٹکرا جائیں گے پھر قیامت برپا ہو جائیگی، یوم حساب آ جائے گا۔ ہمارے ملکی و زمینی ادارے جب تک مدار میں رہ کر اپنا اپنا کام کرتے رہتے ہیں، سب ٹھیک رہتا ہے جوں ہی کوئی ایک ستون اپنی جگہ چھوڑ کر کسی اور کی جگہ لینے کی کوششیں کرتا ہے، وہ کامیاب ہو یا ناکام اس ملک میں اس نظام میں قیامت برپا ہو جاتی ہے لیکن اس کا احساس ہر ایک کو نہیں ہوتا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ننھی منی قیامتیں تو ہر دو چار برس بعد آ جاتی ہیں۔ یوم حساب صرف عوام کا ہوتا ہے، خواص کا نہیں۔ ادارے عام آدمی کی زندگی آسان بنانے کیلئے بنائے جاتے ہیں۔ زندگی اجیرن کرنے کیلئے نہیں لیکن پہلا کام چھوڑ کر سب دوسرے کام کو فرض اولین سمجھے بیٹھے ہیں۔ سندھ کے وژن کے مطابق تین سو یونٹ اور پنجاب کے وژن کے مطابق دو سو یونٹ فری بجلی حاصل کرنے کے منتظر عوام پر ہر ماہ ایک نئی بجلی گر رہی ہے، کبھی بجلی کی شکل میں، کبھی پٹرول کی شکل میں، سستی بجلی اسی صورت ممکن ہے جب ان کے ٹھیکے اور ان کی شرائط کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور اسے خالصتاً کاروباری انداز میں آگے بڑھایا جائے، انہیں جائز منافع ضرور دیا جائے لیکن اس میں سے پاکستان اور اہل پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والی شرائط نکال دی جائیں۔ اس شرط کے مطابق ان پاور پروڈیوسر کو حق دیا گیا ہے کہ وہ جو بجلی بنائیں گے اس کی حکومت ادائیگی کرے گی، بجلی خریدی جائے یا نہ خریدی جائے، انہیں اس حوالے سے ”کیپیسٹی پے منٹ“ دی جاتی رہے گی۔ ان پاور پروڈیوسر کو تیل بھی حکومت خرید کر مہیا کرتی ہے لہٰذا انٹرنیشنل مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھیں تو فرق حکومت کو پڑتا ہے، انہیں کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ حکومت پاکستان کو ادائیگیاں ڈالر میں کرنا ہوتی ہیں۔ حکومت کے پاس اگر زرمبادلہ کی کمی ہو تو ڈالر پرائیویٹ بینکوں یا اوپن مارکیٹ سے خریدنا پڑتے ہیں، اس کے لیے وہی ریٹ دیا جاتا ہے جو مارکیٹ کا ریٹ ہوتا ہے۔ یوں ہر اعتبار سے بوجھ حکومت پر پڑتا ہے جبکہ بے تحاشا منافع صرف ان پرائیویٹ اداروں کا حق ہوتا ہے جو بجلی پیدا کرتے ہیں اور حکومت کو فروخت کرتے ہیں۔ سب سے بڑا ڈاکہ وہی ہے یعنی بجلی خریدی جائے یا نہ خریدی جائے، ادائیگی کی جاتی ہے۔

عام آدمی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی استعمال شدہ بجلی کے بل میں درجن بھر سے زائد ٹیکس ادا کرتا ہے، اس کے بعد جو بجلی چوری ہوتی ہے اس کی بھی انہی صارفین کو ادائیگی کرنا پڑتی ہے اور جو بجلی بنا خریدے ادائیگی کی جاتی ہے وہ بھی انہی صارفین سے وصول کی جاتی ہے۔ یوں سات یا آٹھ روپے میں بننے والا یونٹ صارفین تک پہنچتے پہنچتے اب ستر روپے تک پہنچ چکا ہے۔ پاکستان خطے کا وہ ملک ہے جو مہنگی ترین بجلی فروخت کرتا ہے جس کے نتیجے میں ملک میں تیار کی جانے والی کوئی چیز عالمی مارکیٹ میں بھارت، بنگلہ دیش اور چین کی مصنوعات کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ اس دوڑ سے ہم آؤٹ ہو چکے ہیں لیکن ادراک کسی کو نہیں۔ یہ مسئلہ بھی اب ہمیں پرندوں سے پوچھنا پڑے گا، انسانوں کے بس کی بات نظر نہیں آتی۔ پرندے خوب جانتے ہیں تعمیر آشیاں کرنا۔

حکومت نے بجلی چوری روکنے کیلئے ایک نیا طریقہ ایجاد کیا ہے۔ وہ یہ کہ جس علاقے میں بجلی چوری ہو رہی ہو وہاں چوبیس گھنٹے میں اٹھارہ گھنٹے یا کم از کم بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کر دی جاتی ہے۔ سو صارفین میں سے اگر ستر صارفین اپنی استعمال شدہ بجلی کا بل بروقت ادا کر رہے ہیں تو ضروری سمجھا گیا ہے کہ انہیں بھی وہی سزا دی جائے جو بجلی چوروں کو دی جاتی ہے۔ بادی النظر میں لگتا ہے حکومت کا نظریہ ہے کہ علاقے کے مکین اپنے اپنے علاقے میں پولیس کے فرائض بھی انجام دیں۔ وہ چوروں کو پکڑیں اور ان کے حوالے کر دیں تاکہ وہ چور پکڑنے کی کوفت سے بچ جائیں لیکن چوروں سے نئی شرائط پر بجلی چوری کرائیں۔

ایک دوسری ترکیب کے مطابق فیصلہ کیا گیا ہے کہ جہاں کرپشن ہوگی وہ ادارہ بند کر دیا جائیگا۔ کرپشن روکنے میں ناکامی کے حوالے سے یہ حکومت کا اعتراف ہے۔

پی ڈبلیو ڈی نامی ادارہ بند کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ اب اس ادارے کے ترقیاتی کام پرائیویٹ اداروں سے لیے جائیں گے جہاں کرپشن بالکل نہیں ہوگی۔ ہر ٹھیکہ دینے سے قبل انڈر ہینڈ معاملات طے ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ باقی رہا قصہ کرپشن کی نشان دہی کا تو اس کے لیے قانون بن چکا ہے جو شخص کرپشن کی نشاندہی کرے گا اسے ہی یہ کرپشن ثابت کرنا ہوگی جو ایسا نہیں کرے گا پھر تمام عمر بھرے گا۔ اس قسم کی پالیسی کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ آئندہ چند ماہ میں پاکستان کرپشن فری ملک بن جائیگا۔ اس کا کریڈٹ حکومت کو جائیگا۔ اہل پاکستان سر اٹھا کر جی سکیں گے لیکن اس کے باوجود پاسپورٹ رسوائی کی لائن میں ہماری عدلیہ اپنے آخری نمبروں پر قائم رہے گی۔ ہماری ایکسپورٹ اتنی بھی نہ ہو سکے گی جتنی ہالینڈ صرف پھولوں کی ایکسپورٹ کرتا ہے اور پاکستان کی ٹوٹل ایکسپورٹ سے زیادہ زرمبادلہ کماتا ہے۔ کرپٹ اداروں کو بند کرنے کی پالیسی پر اگر میرٹ کے مطابق عمل کر دیا جائے تو شاید تمام ادارے بند کرنا پڑیں گے یعنی ملک میں مکمل شٹرڈاؤن، مکمل سناٹا۔ جس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔