کیا جارحانہ سیاست کا آغاز ہونے جا رہا ہے؟

کسی بھی ملک میں جمہوری نظام نافذ ہو، صدارتی نظام ہو، ڈکٹیٹر شپ یا پھر بادشاہت ہو، ایک بنیادی فارمولا یعنی سیاسی اور معاشی استحکام ہر جگہ لاگو ہوتا ہے۔اور اگر کوئی حکومت ایک طرف تو مہنگائی بالخصوص کھانے پینے کی اشیا اور پیٹرول کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہو اور دوسری طرف اس کا دماغ اپوزیشن کے نٹ بولٹ ٹائٹ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے میں لگا ہو تو ایسی صورتحال میں عوام کو اپنے لیے خطرے کی گھنٹی بجتی ہوئی محسوس کر لینی چاہیے۔

ماضی میں بھی ہم نے دیکھا کہ عمران خان حکومت اپنے وعدوں اور دعووں کو پس پشت ڈال کر نفرت، انتقام اور نااہلی کی ڈگر پر چلتے ہوئے اپنے آپ کو غیر مقبولیت کی انتہا پر لے گئی (اگرچہ بعد ازاں انہوں نے کوئی جھوٹا سچا بیانیہ بنا کر عوام میں ایک مرتبہ پھر سے اپنی جڑیں مضبوط کر لیں) اوربات اس حد تک بڑھ گئی کہ اس کے خلاف ایک کامیاب تحریک عدم اعتماد پر جا کر ختم ہوئی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کی ناقص پالیسیوں اور ایک یقینی تحریک عدم اعتماد کی وجہ بچھائی گئی ’بارودی سرنگوں‘ کی وجہ سے بننے والی صورتحال کے نتیجہ میں ریاستی امور آج تک مشکلات کا شکار ہیں۔

اسے کوئی سیاسی پلاننگ کہیں یا محض اتفاق کہ حکومت (وزیر اطلاعات چونکہ حکومتی ترجمان بھی ہوتے ہیں لہذا ان کے کسی بھی بیان کو حکومتی موقف ہی تصور کیا جانا چاہیے) کی جانب سے اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے اور اس کے بعض راہنماؤں کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرنے کے ارادے کا اظہار اور عوام پر پیڑول بم گرانے کا اعلان ایک ہی دن چند گھنٹوں کے وقفہ سے کیا گیا۔ کچھ لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ عین ممکن ہے کہ ایک دوسرے کا اثر زائل کرنے کے لیے یہ دونوں اعلانات ایک ہی دن کئے گئے ہوں۔

اگرچہ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کو پی ٹی آئی کی جانب سے سالہا سال سے شدید قسم کی تنقید اور جارحانہ رویوں کا سامنا ہے لیکن انہوں نے اب تک ہر قسم کا گالی گلوچ، دھمکیاں، دھرنے، اپنی رہائشگاہوں کے باہر مظاہرے حتیٰ کہ اپنی خواتین کے بارے میں بدزبانی کو بہت صبر سے برداشت کیا ہے۔ گزشتہ روز تو جیسے اچانک سے کوئی لاوا پھٹ گیا ہو۔ وزیر اطلاعات صاحب ٹی وی پر آئے اور بطور ایک سیاسی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے کردار پر بھر پور بمباری کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر پابندی لگانے اور اس کی ٹاپ قیادت کے خلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی کے عزم کا بھی اعلان کر ڈالا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مین حکومتی جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز) میں بھی ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو کسی بھی قسم کی بدتمیزی اور جارحانہ رویہ کا بھر پور انداز میں جواب دینے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔ خود میاں نواز شریف کے بارے میں مشہور ہے کہ اگرچہ وہ فوری ردعمل تو نہیں دیتے لیکن وہ کسی بھی قسم کی زیادتی کے معاملہ کو معاف کرنے میں خاصے کنجوس واقع ہوئے ہیں۔

کچھ سیاستدان اور تجزیہ کار وزیر اطلاعات کی پریس کانفرنس سے یہ تاثربھی لے رہے ہیں کہ شائد یہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بنچ کے اس آرڈر کا ردعمل ہے کہ جس میں بغیر کوئی درخواست دیئے اور مذکورہ کیس کی کارروائی کا حصہ بنے پاکستان تحریک انصاف کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ناصرف خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کا کوٹہ دے دیا گیا بلکہ اسمبلیوں میں ان کی حیثیت کو بھی ڈرامائی انداز میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی کشیدگی کے ماحول میں ہمارے وزیراعظم شہباز شریف صاحب کا کردار اور رویہ کسی ہومیوپیتھک ڈاکٹر سے کم نہیں ہوتا۔ یعنی کوئی چھوٹا بڑا آپریشن کرنا تو دور کی بات یہ تو کوئی ٹیکہ لگانے سے بھی گریز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جانے یہ وزیراعظم صاحب کی سوچ کا عکس تھا یا اتحادی جماعتوں اور سیاسی تجزیہ کاروں کی تنقید کا اثر کہ وزیر اطلاعات کی پریس کانفرنس کے عین دوسرے ہی دن ایک نظر ثانی شدہ حکومتی لائحہ عمل بیان کرتے ہوئے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کو یہ کہنا پڑ گیا کہ، ’پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا کسی بھی قسم کا کوئی فیصلہ ابھی نہیں کیا گیا، اور اگر ایسا کچھ کرنا مقصود بھی ہوا تو یہ کام اتحادی جماعتوں سے مشاورت کے بعد ہی کیا جائے گا‘۔

اب یہ حکومتی جماعت کے اہم ترین وزرا کا حال ہے کہ آپس میں کوآرڈینیشن نام کو نہیں ہے۔کوئی حکمت عملی اپنانے کی یہ صورتحال ہے کہ اپنا ہی تماشا بنوانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ان کو تو اتنی معمولی سی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر کسی ساتھی وزیر کے بیان سے ہٹ کر بھی کوئی موقف اپنانا ہے تو دوچار دن انتظار ہی کر لیا جائے۔ اب بات بھی سمجھ سے بالکل ہی باہر ہے کہ وزیر اطلاعات کی پریس کانفرنس میں اپنائے گئے موقف سے ہٹ کر کوئی بیان داغ دینے کی ایسی بھی کیا جلدی تھی۔
اسحاق ڈار جو بھی کہتے رہیں لیکن عطا تارڑ نے جو پریس کانفرنس کر دی ہے موجودہ سیاسی صورتحال اسی کی متقاضی ہے اور حکومت کو اسی کے مطابق اگے بڑھنا چاہیے کیونکہ ان کا بیان کردہ موقف ایک کمزور سیاسی حکومت کا ایک فطری ردعمل ہے۔ انتہائی کمزور معاشی صورتحال، غیر ملکی قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ، اپوزیشن پارٹی کا نامعقول حد تک جارحانہ رویہ، حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کی طرف سے بے یقینی کی کیفیت اور اوپر سے اسٹیبلشمنٹ کا ناقابل بھروسہ رویہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی قیادت کو ان لائنوں پر سوچنا چاہیے کہ وہ اب کریز سے نکل کر کھیلیں اور چوکے چھکے لگانے کی کوشش کریں۔ اگر تو یہ حکمت عملی کامیاب ہو گئی تو واہ بھلا نہیں تو اس قسم کی حکومت سے تو اگر ہاتھ بھی دھونا پڑ جائیں تو کوئی افسوس نہیں بلکہ شائد پارٹی کی بچی کھچی ساکھ بچانے کے لیے اس سے بہتر کوئی اورحکمت عملی نہیں ہو سکتی۔