گزشتہ سے پیوستہ
اس پر میں نے انہیں سمجھایا: بھائی، جب زندگی ایک خاص مقصد کے حصول کے لیے گزاری جاتی ہے تو پھر یہ گرمی سردی یا جیل کی کوٹھڑی جیسی منزلیں بالکل ثانوی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں۔ میں نے یہ راستہ خوب سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے۔ برتر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی، کے مصداق ذاتی آرام اور تکلیف سے میں بے نیاز ہو چکا ہوں۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب پھر کہنے لگے: آخر آپ اپنے آٹھ بچوں کو کس بات کی سزا دے رہے ہیں، ان کے بارے میں بھی تو کچھ سوچیے۔ میں نے جواب دیا: بچوں کو تو میں اللہ تعالیٰ کے سپرد کر آیا ہوں۔ اب وہ جانے اور بچے جانیں، ان کی طرف سے میں بالکل فکر مند نہیں ہوں۔
کارساز ما بفکر کار ما
فکر ما در کار ما آزار ما
(ہمارا کارساز دن رات ہمارے کام بنانے میں لگا ہوا ہے جب ہم اپنی فکر خود کرتے ہیں تو یہ ہماری جان کا آزار ہوتا ہے)
یہ سن کر سپرنٹنڈنٹ صاحب مایوس ہو کر چلے گئے۔ معافی نامے پر دستخط کرانے کی کوششیں ناکام ہوگئیں۔
کچھ عرصے بعد بقرعید آ گئی۔ اتفاق سے جو راشن جیل سے دیا جاتا تھا وہ ختم ہوچکا تھا اور مزید راشن ابھی پہنچا نہیں تھا کہ عید کی چھٹیاں شروع ہو گئیں۔ یہاں تک کہ عید کی صبح کو راشن بالکل ختم ہو چکا تھا۔ وہ سخت پریشان تھا کہ راشن پہنچا نہیں، اب آپ کو ناشتہ کیسے دوں؟ یہاں تک بات کرتے کرتے اس کے منہ سے جیل انتظامیہ کے لیے ایک دو مغلظات نکل چکی تھیں۔ میں نے اس سے کہا: رات کو جو چنے کی دال اور روٹی بچی تھی وہی گرم کر کے لے آؤ۔ وہ کہنے لگا وہ تو میں آپ کو کبھی نہیں دوں گا۔ بھلا عید کے دن بھی کوئی رات کی باسی دال روٹی کھاتا ہے؟ میں نے اسے سمجھایا: بھائی، میری فکر نہ کرو، میں بڑی خوشی سے دال روٹی کھا لوں گا (چونکہ ابا جان صبح آٹھ بجے ناشتہ کرنے کے عادی تھے اور اپنے معمولات میں وقت کے سخت پابند تھے اس لئے انہوں نے آرام سے دال روٹی کا ناشتہ کر لیا۔ یہاں پر دادی اماں کی تربیت رنگ لا رہی تھی جو انہیں کبھی سونے کا نوالہ کھلاتی تھیں اور کبھی چٹنی روٹی)……… جس وقت میں ناشتہ کر رہا تھا تو کسی کے سسکیاں بھر کر رونے کی آواز آئی، پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہی مشقتی بیٹھا رو رہا تھا۔ پوچھا: کیا بال بچے یاد آرہے ہیں؟ کہنے لگا میں تو آپ کو دال روٹی کھاتے دیکھ کر رو رہا ہوں، میں سوچ رہا ہوں کہ عید کے دن رات کی باسی دال روٹی تو ہم غریبوں نے بھی کبھی نہیں کھائی، آپ تو بڑے آدمی ہیں آپ نے کہاں کھائی ہوگی؟……
میں نے اسے شفقت سے سمجھایا: دیکھو بھائی، میں نے یہ راستہ سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے اور میں بڑی خوشی سے اس راہ پر چل رہا ہوں۔ اگر کبھی بالکل بھوکا بھی رہنا پڑا تو ان شاء اللہ آرام سے رہ لوں گا۔ میری وجہ سے رنجیدہ نہ ہوا کرو۔ اباجان نے مزید بتایا: میں تو ناشتہ کر کے تفہیم القرآن لکھنے بیٹھ گیا لیکن اس بیچارے مشقتی نے احتجاجاً ناشتہ نہ کیا (اگرچہ اس کے لئے دال روٹی بچی ہوئی رکھی تھی) … اتنے میں کوارٹر کا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹایا گیا۔ مشقتی نے دروازہ کھولا تو ایک سنتری کئی ناشتے دان، بڑے بڑے پیکٹ اور گٹھڑیاں اٹھائے کھڑا کہہ رہا تھا: مولانا صاحب آپ کے چاہنے والے تو فجر کے وقت ہی یہ چیزیں لے آئے تھے اور جیل کے دروازے پر کھڑے تھے لیکن سپرنٹنڈنٹ صاحب کا دفتر عید کے بعد کھلا۔ اس کے بعد ان چیزوں کی تلاشی اور جانچ پڑتال ہوئی اس لئے دیر لگ گئی۔ اب قیدی ملازم نے وہ پیکٹ، ناشتے دان اور گٹھڑیاں کھولیں تو ان میں انواع و اقسام کی نعمتیں تھیں۔ میں نے اپنے جیل کے مشقتی ساتھی سے کہا: دیکھو، یہ سب تمہارے لئے آیا ہے کیونکہ تم ہی اداسی میں بھوکے بیٹھے رو رہے تھے، اب خوب جی بھر کر کھاؤ اور باقی چیزیں دوسرے قیدیوں میں بانٹ آؤ۔ آخر یہ پراٹھے، شامی کباب، حلوہ پوری، شیرخورمہ اور مٹھائیاں ان کو بھی تو اچھی لگیں گی۔
میں یہ کہہ رہا تھا مگر میرا مشقتی ساتھی کف افسوس مل رہا تھا: کاش وہ دال روٹی میں نے آپ کو دینے کے بجائے کووں کھلا دی ہوتی۔ میرے بہت کہنے پر اس نے ناشتہ کیا اور باقی ساری چیزیں دوسرے قیدیوں میں بانٹ آیا اور ساتھ ہی ساتھ ان سے کہتا: میرے میاں جی کے لیے یہ سب چیزیں آئی تھیں انہوں نے تمہیں بھجوائی ہیں!…۔
پھر ابا جان نے کہا: عید کے روز دوپہر ہوئی تو اسی طرح دروازہ کھٹکھٹایا گیا اور پھر اسی طرح ناشتے دان اور ہانڈیاں کپڑے میں بندھی ہوئی آگئیں۔ ایسے ایسے کھانے آئے کہ مشقتی ساتھی تو حیران رہ گیا۔ اس نے مجھے کھانا کھلایا اور باقی قیدیوں میں بانٹ آیا۔ رات کو پھر اتنا ہی کھانا آ گیا۔ غرض یہ کہ عید کے تین دن ہمارے رفقا نے ملتان جیل میں اتنا زیادہ اور ایسی ایسی انواع و اقسام کا کھانا پہنچایا کہ سارے جیل والے عش عش کر اٹھے۔ (ختم شد)