نفرتوں کی سیاست

جب تک نفرت کی سیاست محبت میں نہیں بدلے گی تب تک پاکستان میں نہ معاشی نہ سیاسی اور نہ معاشرتی ٹھہراؤ آئے گا۔ ہم نے 76سال میں کیا کیا ہے۔ یہ ملک کیا انہی مقاصد کے تحت قائداعظمؒ نے حاصل کیا تھا کہ نہ یہاں ہیرو ازم نہ لیڈرشپ نہ اقدار اور نہ ایک دوسرے کو برداشت کیا جائے۔ میرے نزدیک اصل خرابی کہاں سے شروع ہوئی اور ہمارے ہاں بجائے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر متحد ہونیکی طرف بڑھتے ہاتھ دست و گریبان کی طرف بڑھتے بڑھتے لڑائی جھگڑوں کی طرف لے گئے جب ہمارے سیاستدانوں نے کرسی اقتدار کے لیے پاکستان کے مفاد سے ہٹ کر اپنے مفاد کی جنگ شروع کر دی اور یہی جنگ آج بھی سات عشرے گزر گئے ہمارے گلے پڑی ہوئی ہے۔ دوسرا ہم میں عدم برداشت کا فقدان بڑھتے بڑھتے اس حد تک لے آیا کہ اس کے اثرات اب ہمارے گھروں تک ہو گئے ہیں اور سیاسی نظریات اور ذہن سازی نے نئی نسلوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور نوجوان ایسی بے راہ روی کا شکار ہو گیا کہ اس کی راہنمائی کے لیے ہمارے سامنے کوئی ایک لیڈر نہ آیا جو اس کو سیدھے راستے پر لے کر چلتا۔ اس کے بارے سوچتا، اس کے مستقبل کے بارے کوئی لائحہ عمل تیار کرتا اس کے ایجوکیشن سسٹم سے لے کر اس کی ملازمت کے حصول کے پروگرام بناتا مگر بدقسمتی کہ ایسا نہ ہو سکا۔

تباہ کن سیاست، تباہ کن نفرت، تباہ کن اخلاقیات کے جنازے ہم روزانہ اٹھا رہے ہیں ہم نے امن و انصاف کے راستوں کو بند کرکے تباہی کے راستوں پر چلنا شروع کر دیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ جو بو گے وہی کاٹو گے تو ہم گزشتہ 76برس سے نفرتوں کے بیج اس قدر بو چکے ہیں کہ شاید دھرتی نے بھی نفرتوں کو اگلنا شروع کر دیا ہے ہم تو تباہی میں اس قدر اگر گئے ہیں کہ اس دور میں باپ بیٹے کی بیٹا باپ کی ماں بیٹی کی بیٹی ماں کی بات سننے کو تیار نہیں۔ میرے سامنے روزانہ اخبارات کی فائل روزانہ کا حساب کتاب کھول دیتی ہے کہ ہر طرف قتل، ہر طرف شور شرابہ، خودکشیاں، کمرانوں کے بیانات میں نفرتوں کا اظہار، نہ قانون، نہ عدالت، نہ قاضی، نہ وکیل نہ کسی ادارے کا سربراہ کسی کی بھی شنوائی نہیں ہو رہی، کوئی کسی کو تسلیم ہی نہیں کر رہا۔ معاشی، سیاسی مسائل اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ ان کے سمجھنے کے لیے آگے کئی عشرے ہی گزر جائیں ان کو نہیں سمیٹا جا سکے گا۔ انسان نے انسان کی اس حد تک بے توقیری کر دی ہے کہ اب وہ وحشت پر اتر آیا ہے وہ ایک دوسرے کو کاٹنے کو دوڑ رہے ہیں کہ ہمارا ماحول اب گھٹن زدہ سے بھی بہت اندھیروں میں اتر چکا ہے۔ اب اس کی ایک نہیں کئی اور وجوہات ہیں کہ حکومتی نااہلیوں نے ہمارا جینا ہی حرام کر دیا ہے۔ حالات اس قدر خراب ہو گئے ہیں کہ پہلے دو تو اب ایک وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل نظر آنے لگا ہے۔ آئی ایم ایف کے تیار کردہ بجٹ نے تمام طبقوں کو پریشان کرکے رکھ دیا۔ ذرا سوچئے کہ جب ایک غریب آدمی کے گھر صرف ایک پنکھا چل رہا ہو اور اس کا بل پچاس ہزار آ جائے اور اس کی کمائی نہ ہونے کے برابر ہو وہ کیا خاک جئے گا اور اس کے آنسو بھی کسی کو نظر نہ آئیں۔

جن معاشروں میں حکومتیں بے بس ہو جائیں حکمرانوں کی چابی کسی اور کے پاس ہو، ان کے پاس فیصلے کرنے کی قوت نہ ہو اور اسمبلیوں کے اندر جب فارم 47 اور فارم 45کے نام پر گالی گلوچ، مار کٹائی، گھٹیا باتیں، بدتہذیبی کی فضا ہو جائے، قنون بنانے والے جب خود قانون کو توڑیں گے جب ابھی اسمبلیوں کو نہیں چلنے دیا جائے گا اپنی اسمبلیوں سے جب نفرتوں کی صدائیں آئیں گی جو نہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں تو پھر ان حالات کو کون درست کرے گا۔ جب اس کر درست کرنے والے بھی حالات کی تباہی کا ذمہ دار ہوں گے صوبائی اور قومی حکومتیں ان حالات میں کیا کام کریں گی جہاں زبان بے قابو ہو چکی ہے، کروڑوں روپے روزانہ کے حساب سے لگنے والے ان اسمبلیوں کے اندر اگر صرف نفرتوں میں جنم لینا ہے تو پھر ان اسمبلیوں کے دروازوں کو بند کر دیں۔ نہ یہاں چراغ جل رہے ہیں نہ یہاں کوئی امید کی کرن نظر آ رہی ہے۔ سوائے عدم برداشت اور عدم محبت کے کہ ہم نے جب خود ہی گھر کو تباہ کرنے کا عزم کر لیا ہے تو پھر شریکوں سے کیا گلہ کریں جب ہم نے خود ہی تباہی کے راستوں پر چلنے کا عزم کر رکھا ہے تو پھر اچھے راستوں نے بند تو ہونا ہی تھا جو اب بند ہو چکے ہیں۔

ہم تو محتاج ہو گئے ہیں۔ اچھی زبان کے اچھے لہجوں کے، اچھی باتوں کے، قہقہوں کے، خوبصورت محفلوں کے، اچھی حکومتوں کے اچھے لیڈروں کے، اچھے دوستوں کے، اچھے رشتوں کے، اچھے بھائیوں سے اچھی بہنوں سے، اچھی روایات سے، اچھی دوستوں سے اچھے ماحول سے سب کچھ ہم سے چھین لیا گیا ہے ہمیں اس قدر ذلیل و خوار کر دیا گیا ہے کہ ہم عزت کی طلب بھی نہیں کر سکتے۔ پرتشدد معاشرے میں اب ہمارے لیے وہ ہی کیا گیا ہے یوں لگتا ہے کہ خداتعالیٰ نے زندگی دی تھی جیسے کے لیے اور ہمارے حکمرانوں نے زندگی کو سونے کے راستوں پر ڈال دیا ہے۔ گلیوں سے بازاروں تک ہر چہرہ افسردہ ہر چہرہ پر بہتان لگتا ہے کہ خوشیاں دینے والوں نے ہم سے خوشیاں چھین لی ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں ایک افریقی ملک میں صرف ایک ٹیکس لگانے پر عوام نے حکومت کو گھر کا راستہ دکھا دیا یہاں بھی اس طرح کے سوال اٹھتے ہیں کہ عوام کیوں گھروں سے باہر نہیں آتے اب تک ان گھروں میں فاقے ہیں نہ روٹی ہے نہ بجلی ہے نہ گیس ہے وہ پھر بھی سہہ سہہ کر سو رہے ہیں مگر وہ نہ بولتے ہیں نہ احتجاج کرتے ہیں، نہ حکومتوں کو گھر روانہ کرنے کی حرکات کرتے ہیں اس لیے کہ ان کے پاس لیڈرشپ نہیں ہے اس لیے کہ ان کے پاس اس انقلابی ویژن دینے والے نہیں ہیں انقلاب کیا ہوتا ہے انقلاب سے قومیں دوبارہ کس طرح اٹھتی ہیں حکمرانوں کو گھر کیسے روانہ کرتی ہیں ایسے ویژن دینے والے لیڈر ہم نے پیدا ہی نہیں ہونے دیئے۔ یہ جاپان، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور مصر جیسی قوم نہیں جنہوں نے انقلاب کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کئے اور آج وہ خوشحال تو ہم بے حال قوم کے طور پر جی رہے ہیں جس ملک میں مونگ کی دال 300روپے، ماش کی دال 520 روپے، ٹماٹر 400روپے، ادرک 800 روپے، الیچی 500روپے، آم 300روپے سے 500 روپے، پیاز 300روپے اور گھی کا پیکٹ 800 روپے ہو جہاں عوام کی قوت خرید سے بھی محروم کر دیا گیا ہو وہ قوم کیا انقلاب لائے گی وہ تو شاید لفظ انقلاب کے معنی سے بھی ناآشنا ہے اس کو تو آج یہ بھی علم نہیں کہ کیا پتہ کب، کہاں، کیا آخری ہو۔

خدا تعالیٰ نے تو آسانیاں پیدا کرنا ہوتی ہیں مگر حکومت نے مشکلات پیدا کرنے کا عزم کر رکھا ہے اور جس عوام پر قیادتیں ایسی مسلط کر دی جائیں تو پھر……

کیہ حال سناواں دل دا کوئی محرم یار نہ ملدا

حکومت تو بہت دور کی بات بلکہ بہت ہی دور کی بات اب تو اپنوں نے فون اٹھانا بھی بند کر دیئے ہیں کہ یہ فون کرنے والا کہیں بجلی کے بل کی ادائیگی کے لیے قرض ہی نہ مانگ لے۔ قرض کے اوپر قرض دینے والا بھی پہلے یہ سوچتا ہوگا کہ یہ قرض کے اوپر لیا جانے والا قرض وہ کیسے اتارے گا اب تک واسا نے بھی واپڈا کی طرح عوام کو نچوڑنے کا عہد کر لیا ہے اور پہلے جو بل دو تین سو روپے آتا ہے وہ بھی ہزاروں میں آنے لگا ہے۔ یہی کمال فن سوئی گیس دینے والوں کا ہے کہ وہ عام چھوٹے گھروں میں پانچ پانچ ہزار کے بل دینے لگ گئے ہیں۔

اور آخری بات……!

آپ نے مہدی حسن کا یہ گیت ضرور سنا ہوگا ”ہمیں کوئی غم نہیں تھا غم عاشقی سے پہلے، نہ تھی دشمنی کسی سے تیری دوستی سے پہلے“ اور اگر وہ زندہ ہوتے تو وہ یوں گاتے ”ہمیں کوئی غم نہیں تھا تیری مہنگائی سے پہلے، نہ تھی دشمنی کسی سے تیرے بلوں سے پہلے“ اس وقت ایک ہی مسئلہ درپیش ہے اور وہ ہے بجلی کے بل…… ہر طرف سے ایک ہی آواز سنائی دے رہی ہے…… ہائے بل…… ہائے بل…… ہائے، بجلی اور ہائے اس کے بل۔