فیصل آباد صنعتی مرکز اور آبادی کے لحاظ سے پنجاب کا دوسرا بڑا شہر ہے جس کی آبادی تقریباً 7.87 ملین ہے۔ فیصل آباد میں تقریباً328 ٹیکسٹائل صنعتیں کام کر رہی ہیں۔ زراعت فیصل آباد کی معیشت کااہم عنصر ہے۔ فیصل آباد پاکستان کی معیشت میں تقریباً 20 بلین روپے کا اضافہ کر رہا ہے۔
پانی کی قلت عالمی سطح پر سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ فیصل آباد کی زیادہ تر آبادی زیر زمین پانی پر انحصار کرتی ہے لیکن اس کا غیر مستحکم اور بے دریغ استعمال پانی کی سطح میں کمی کا باعث بن رہا ہے۔ایک سروے کے مطابق نہری پانی بھی کافی مقدار میں دستیاب نہیں ہےجس کی وجہ سے زراعت اور دیگر ضروریات پوری کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
فیصل آباد میں تقریباً 280 ملین گیلن یومیہ سیوریج کا پانی اکٹھا ہو رہا ہے۔ واسا فیصل آباد نے 1 لاکھ 27 ہزار 972 گھریلو جبکہ 19 ہزار 808 کاروباری کنکشن کو رجسٹرڈ کیا ہے۔ پانی کے معیار میں کمی کی سب سے بڑی وجہ ٹیکسٹائل اور سیوریج کا ناقص نظام ہے۔ یہی پانی دریاؤں اور جھیلوں میں براہ راست خارج کر دیا جاتا ہے،جو جانداروں اور ماحول پر سنگین اثرات مرتب کر رہا ہے۔
پاکستان میں پانی کی کمی نے ملکی زراعت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن حالیہ مطالعات سے ایک تشویشناک رجحان ظاہر ہوا ہے کہ تقریباً 2139 ایکڑ رقبہ گندے پانی سے آبپاش ہو رہا ہے۔یہ صورتحال انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے کیونکہ گندے پانی سے اگائی جانے والی سبزیاں زہریلے مادے جذب کر سکتی ہیں جو خوراک کے ذریعے انسانوں تک پہنچتے ہیں۔ ان مادوں میں بھاری دھاتیں، کیمیکلز اور دیگر مضر صحت عناصر شامل ہیں جو مختلف بیماریوں کا باعث بن سکتے ہیں ۔
فیصل آباد میں ، چکیرا اور یونیورسٹی آف ایگریکلچر فارم ایریا میں سفید مولی کی گندے پانی میں کاشتکاری پرتحقیق کی گئی ہے۔ چکیرا ایک گاؤں ہے جس کے رہائشیوں کی تعداد 5488 ہے اور اس کا رقبہ 8.8 کلومیٹر ہے، جو فیصل آباد شہر کے شمال مغربی کنارے پر واقع ہے ۔ چکیرا کی زیادہ تر زرعی زمین (90 فیصد) گندے پانی سے سیراب ہوتی ہے، صرف 1.8%زمین کو نہری پانی ملتا ہے۔ نہری پانی کی نسبت چکیرا کے گندے پانی میں زیادہ تعداد میں انسانی صحت کو نقصان پہنچانے والےعناصرموجود ہیں ۔چکیرا گاؤں میں گندے پانی نے بڑوں اور بچوں کے لیے بیکٹیریاکے انفیکشن کا سنگین خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ گندے پانی کا تعلق ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور جلدی امراض کی وبا ءسے ہے۔ بیماری کے پھیلاؤ کی واضح علامات کی عدم موجودگی سے کھیتوں میں کام کرنے والےمزدوروں کو ہک ورم کے انفیکشن کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ گندے پانی کو ٹریٹ کرنے کے بعد بھی، بالغوں اور بچوں دونوں کے لیے انفیکشن کا ایک بڑاخطرہ اب بھی موجود ہے جو بغیر ٹریٹ کیے گندے پانی کے ساتھ آتے ہیں۔مولی کے تجربہ کیے گے نمونوں کے لئے MLR کے معیار سے تجاوز کرنے والے Cd اور Pb کا فیصد بالترتیب 27% اور 50% ہے۔ بھاری دھاتوں کے انسانی جسم میں داخل ہونےسے دائمی صحت کے مسائل جنم لیتے ہیں جس میں پھیپھڑوں کا کینسر، ہڈیوں کی بیماریاں، تولیدی نظام کو پہنچنے والے نقصان، گردوں کی خرابی، اور عصابی عوارض شامل ہیں۔
چکیرا کے بہت سے کسانوں نے کئی دہائیوں سے اپنے کھیتوں کو گندے پانی سے سیراب کیا ہے-سروے کردہ کسانوں نے آگاہ کیا کہ گندے پانی کی آبپاشی کے فوائد اور نقصانات دونوں ہیں۔ تاہم سروے کےشرکاء کی واضح اکثریت کا خیال تھا کہ گندے پانی کی آبپاشی کے فوائد مجموعی طور پر خطرات سے کہیں زیادہ ہیں۔ ہر کسان اس بات پر متفق ہے کہ بغیر ٹریٹ شدہ گندا پانی ٹریٹ کیے جانے والے گندے پانی سے بہتر ہے ۔تاہم مولی پرمیتھیونین کی سپرےاورزرعی زمین میں بائیوچار کے استعما ل سےبھاری دھاتوں کی مقدار کافی حد تک کم کی گئ ہے- فیصل آباد کے زرعی شعبے میں گندے پانی کی آلودگی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پانی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں اور گندے پانی کے استعمال کو کم کیا جائے تاکہ زراعت اور انسانی صحت کو محفوظ رکھا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے حکومت، صنعتوں اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ پانی کے وسائل کو محفوظ اور صاف بنایا جا سکے۔
سب سے بڑھ کر، صنعتی اور گھریلو آلودگیوں کو آبی ذخائر میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے سخت قانون کے نفاذ اور کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔ گندے پانی کی صفائی کے لیے بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری بھی ضروری ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ماحول میں خارج ہونے سے پہلے گندے پانی کو مناسب طریقے سے ٹریٹ کیا جائے۔ کاشتکاروں کو محفوظ آبپاشی کے طریقوں کو اپنانے کے لیے درکار معلومات اور وسائل کی ضرورت ہے، جیسے ڈرپ اریگیشن اور گندے پانی کو دوبارہ استعمال کرنا، تاکہ گندے پانی کے ذرائع پر ان کا انحصار کم ہو سکے۔ اسی جذبے کے تحت، لوگوں کو ماحول دوست کاشتکاری کے طریقوں کو اپنانے کی ترغیب دینے اور آلودہ پانی میں اگائی جانے والی سبزیوں کے استعمال سے ہونے والے خطرات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ فیصل آباد کا زرعی شعبہ گندے پانی سے آلودہ ہے۔ ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ فیصل آباد کا زرعی تشخص برقرار رہے اور اس کی سبزیاں آلودگی کی بنیادی وجوہات کو دور کر کے، پائیدار کاشتکاری کے طریقوں کو فروغ دے کر اور کسانوں اور صارفین کو یکساں طور پر قابل بنا کر آنے والی نسلوں کے لیے اپنا موروثی ذائقہ اور حفاظت برقرار رکھیں۔
رائٹر:عائشہ یوسف، ڈاکٹر فہد رسول
نوٹ: ادارے کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں