امریکہ: وہ چاہتا ہے کہ بس ایک شخص کی خاطر

علامہ عنایت اللہ المشرقی مرحوم  نے کہا تھا کہ جس دن تم کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں لے گئے یہ قیامت تک حل نہیں ہو گا۔ انہوں نے تو یہ بھی کہا تھا کہ اگر یو این او کا دفتر کسی بڑی عالمی ریاست کے جغرافیے میں بنایا گیا تو یہ اُس کا ذیلی اداراہ بن جائے گا۔ وقت نے مشرقی کی دونوں باتیں سچ ثابت کردیں۔امریکہ کو دنیا کے کسی ملک پر حملہ کرنے کیلئے یو۔این۔او کی کسی اجازت کی ضرورت نہیں بلکہ وہ تو یو این او کے منع کرنے پر بھی عراق پر حملہ آور ہو گیا تھا۔ اس صدی کے آغاز میں امریکی دہشتگردی نے لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا اور کروڑوں انسانوں کو بے گھر! لیکن یو این اوکے کان پر جوں نہیں رینگی۔ گوکہ گزشتہ صدی بھی امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی خون ریزیوں کی داستانوں اور سازشوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ نائن الیون کے بعد افغانستان سے شروع ہونے والی یک طرفہ جنگ نے مشرقِ وسطی سے لے کر افریقا تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے عالمی قوانین اور اخلاقیات کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں لیکن امریکیوں کو اِس پر شرمندگی کا احساس بھی نہیں ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے انتخابات میں نہ صرف دھاندلی کا الزام لگایا بلکہ اُس کے ورکروں نے امریکی ریاست کے اداروں پرحملے بھی کیے لیکن امریکہ نے نہ صرف اُن کے خلاف مقدمہ چلائے بلکہ انہیں سخت سزائیں بھی سنائیں۔ غزہ کے حوالے سے امریکہ کا مجرمانہ کردار دنیا کے سامنے ہے او ر غزہ سے شروع ہونے والی جنگ امریکی پشت پناہی کے بل بوتے پر اپنے ”گریٹر اسرائیل“ کے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے پھیلتی چلی جا رہی ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس جنگ کے خاتمے پر، اسرائیل اپنی من مرضی کے علاقے اپنے پاس رکھ کر اپنی ریاست کو مزید وسعت دے چکا ہو گا۔ حوثیوں پر امریکی حملوں کا اعتراف دراصل اسرائیل کی کھلی حمایت کا اعتراف ہے لیکن بے شرمی اوربے غیرتی کی انتہاء ہے کہ امریکہ اور امریکی عوام اپنی ریاست کی اس قتل و غارت گری پر خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ خاموش تو ہم بھی ہیں اور صرف ہم ہی کیوں ایران جس کی حمایت سے حماس نے یہ جنگ شروع کی اُس نے بھی اہلِ غزہ کی مدد سے یہ کہتے ہوئے ہاتھ اٹھا لیے ہیں کہ ”ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں“ اب ایرانیوں سے کوئی پوچھے اگر آپ کے ہاتھ بندھے تھے تو آپ کو یہ پنگا لینے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔ آپ نے فلسطنیوں کی ایک نسل ختم کروادی، غزہ اور گرد نواح کے علاقو ں کو ملبے کا ڈھیر بنوا دیا اور اب بھیگی بلی بنے بیٹھے ہیں۔
امریکی کانگرس کو دنیا بھر کی جیلوں میں بند قیدیوں میں سے صرف عمران نیازی ہی واحد مظلوم نظر آیا ہے جب کہ اُسے بھارت کی جیلوں میں بند کشمیری رہنماؤں کا کوئی خیال کبھی نہیں آیا جو سالہا سال سے ظلم کی چکی تلے پسے ہیں اور اُن کے عزیز و اقارب یہ بھی نہیں جانتے کہ اُن پر کیا گزر رہی ہے۔ وہ زندہ بھی ہیں یا بھارتیوں  نے انہیں شہید کرکے کسی نامعلوم مقا م پر دفن کردیا ہے۔ یواین او کسی کو نامعلوم ورکنگ گروپ اور امریکی کانگرس کو عمران نیازی کی سب سے زیادہ فکر ہے لیکن کیا امریکیوں کو ایسی قرارداد پیش کرتے شرم نہیں آئی کہ ایک ایسا مجرم جس نے ہمارے قومی سلامتی کے اداروں پرحملے کیے، جو پاکستان کو کسی بڑے انسانی المیے سے دوچار کرنے کے در پے ہے، جس نے عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو تارتار کیا، جس نے ساڑھے تین سال سی پیک جیسا عوام دوست منصوبہ بند رکھ کر اور آٹھ ماہ تک آئی ایم ایف سے مذاکرات میں تاخیر کرکے پاکستان کو بدترین معاشی بحران کا شکا ر کردیا، جو پاکستانی عوام کا مجرم ہے اُسے رہا کروانے کیلئے زور لگایا جا رہا ہے تاکہ وہ باہر آ کر پھر وہی تماشے لگا ئے جو اِس سے پہلے وہ لگا چکا ہے اور پاکستان کی رسوائی کاسبب بن چکا ہے۔ عمران نیازی ٹھیک کہتا تھا کہ “امریکہ ہوتا کون ہے“ بات آج بھی یہی ہے کہ امریکہ ہوتا کون ہے لیکن آج عمران نیازی یہ نہیں کہہ رہا کہ امریکہ ہوتا کون ہے کہ ہماری ریاستی اور عدالتی معاملات میں مداخلت کرے۔ ٹرمپ کے جیتنے کے امکانات پھر امریکہ میں روشن ہوتے جا رہے ہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ ٹرمپ کے ساتھ بھی وہ سب کچھ نہ ہو جو اِس سے پہلے کینڈی کے ساتھ ہو چکا ہے کیونکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کو ٹرمپ کا اندازِ سیاست ہرگز پسند نہیں او ر جو امریکی اسٹیبلشمنٹ کو ناقابل ِ قبول ہو وہ امریکہ میں تو چل نہیں سکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ میں بھی دو حکومتیں بیک وقت چل رہی ہے۔ اول وہ حکومت جو ہم اپنی سیاسیات کے کتابوں میں پڑھتے ہیں جس کے مطابق وہاں ایک صدارتی طرزِ حکومت ہے جو تواتر اور تسلسل کے ساتھ ہر چار سال بعد طے شدہ وقت پر انتخابات کے ذریعے امریکی تحت پر بیٹھ جاتا ہے اور دوسرا امریکہ کی وہ نظر نہ آنے والی حکومت جسے سی آئی اے اور اُس کے ماتحت ادارے چلا رہے ہیں اور حقیقت میں تو یہی اصل حکومت اور طاقت کا منبع ہے۔ یہی سی آئی اے امریکی عوام کے ووٹوں کی طاقت کو استعمال کرتی اور دنیا بھر میں حکمرانوں کی تبدیلی اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی سربراہ ہے اور سی آئی اے میں 60 فیصد سے زیادہ ملازمین یہودی ہونے کی وجہ سے امریکہ کبھی بھی مسلم دوست پالیسی نہیں بنا پایا اور آئندہ بھی نہیں بنا سکے گا۔ اس کے علاوہ امریکی مصنفہ لی او برائن کی مشہور زمانہ کتاب ”امریکہ میں یہودی تنظیمیں“ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ویسے تو John Perkins کی شہرۂ آفاق کتاب The New Confessions Of Economic Hit Man بھی اس حوالے سے ایک ایسی کتاب ہے جس میں ایک ایسی امریکی کے جرائم کا اعتراف ہے جو اُس نے ریاستِ امریکہ کے ایجنٹ کی حیثیت سے کیے۔ اِن جرائم میں دنیا میں اپنا معاشی ایجنڈا نافذ کرنے اور مختلف ریاستوں سے اُن کے وسائل لوٹنے کے نت نئے طریقے جن میں اُن ریاستوں اورحکومتوں کے سربراہان اور وزراکے قتل سے لے کر ریاست میں ہنگامہ آرائی کروانے کیلئے لا محدود بجٹ رکھے جانے کا اعتراف کیا گیا ہے۔ دنیا بھر  میں جرائم اور جرائم پیشہ کی سر پرستی کرنے والے امریکہ کو ہمارے اندرونی معاملات میں مداخل کرنے سے پہلے یہ تو سوچ لینا چاہیے تھا کہ پاکستان عراق یا لیبیا نہیں جہاں وہ چند دہشتگردوں کے ذریعے کمزور ریاستی ڈھانچے کو فتح کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ صرف ایک شخص کی خاطر صرف ایک شخص! امریکہ اور یواین او اس حد تک جا سکتے ہیں یہ سمجھے سے باہر ہے۔برادرم عامر حفیظ نے برسوں پہلے ایک غزل سنائی تھی جس کے ایک شعر نے مجھے اُس وقت بھی اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا آپ بھی ملاحظہ فرمائیں

وہ چاہتا ہے کہ بس ایک شخص کی خاطر
تمام شہر کو بے آبرو کیا جائے

حفیظ عامر کا یہ شعر آج ہمارے سیاسی حالات کی مکمل تفسیر بنا ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ یقینا شاعر کا وجدان چشم تصور سے نہ صر ف مستقبل کو دیکھ لیتا ہے بلکہ دنیا بھر کو آگاہ بھی کردیتا ہے کہ آنے والے وقت میں یہ بھی ممکن ہے۔ پاکستان اس وقت امریکی اورچینی مفادات کے رکھوالوں کے درمیان وجہ عناد بنا ہوا ہے لیکن افسوس کے پاکستان کے 25 کروڑ رکھوالے ابھی بھی خواب غفلت سے بیدار نہیں ہو رہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک بُری گھڑی ہمارے سر پر کھڑی ہے۔ مجھے عمران نیازی کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں کہ وہ کیا چاہتا ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ کیا کرے گا اور اپنے مفادات کے حصول کیلئے کس حد تک جائے گا لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ریاست پاکستان چلانے والے اس بات کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔ ہم امریکی دشمنی سے نمٹ لیں گے اور اسرائیل سے بھی لڑ لیں گے لیکن سب سے بڑا خطرہ اُس نفرت سے ہے جوعمران نیازی پاکستانیوں کے ذہن میں ریاست پاکستان کے خلاف پھیلانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔