بھاری ٹیکسوں سے مزین بجٹ منظور

قومی اسمبلی میں ٹیکسوں کی بھرمار والا بجٹ منظور ہو گیا ہے۔ اپوزیشن  نے بجٹ کو آئی ایم ایف کا تیار کردہ اورعوام دشمن قرار دیتے ہوئے، عوام کے ساتھ معاشی دہشت گردی قرار دیا ہے۔ پیٹرولیم لیوی میں 10 روپے لٹر اضافہ کر دیا گیا ہے۔ جائیدادوں کی فروخت پر پہلی مرتبہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی گئی ہے، بلڈرز اور ڈویلپرز کی کسی بھی لانچ کردہ پراڈکٹ پر 3 سے 10 فیصد ایف ای ڈی عائد ہو گی، فارم ہاؤسز اور بڑے گھروں پر کیپیٹل ویلو ٹیکس عائد ہو گا جو کہ 5 لاکھ سے 10 لاکھ تک ہو گا۔ تمام اشیائے ضروریہ پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا گیا ہے جس سے عام آدمی کے لئے رہائش اور اشیائے ضروریہ کے اخراجات کا بوجھ ناقابلِ برداشت صورت اختیار کر جائے گا اور عام آدمی کے لئے مہنگائی کے اثرات سے بچنا ناممکن ہو جائے گا۔ پاکستان میں غربت کی شرح جو پہلے 40 فیصد کو پہنچ چکی ہے اس بجٹ کے نتیجے میں غربت کی شرح میں اضافہ مزید بڑھ جائے گا۔

اراکینِ اسمبلی کی مراعات اور وزیرِ اعظم ہاؤس و ایوان صدر کے سالانہ اخراجات کی مد میں خطیر اضافے سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ حکمران طبقہ خود کوئی قربانی دینے کو تیار نہیں اور معاشی بدحالی کا تمام بوجھ تنخواہ دار طبقے اور عام آدمی پر ڈالنا چاہتا ہے جو پہلے ہی ٹیکسوں کی بھرمار کی زد میں ہیں۔ کرپشن کے خاتمے کے لئے آئی ایم ایف نے وزراء، ارکان اسمبلی اور سرکاری افسران کے اثاثے پبلک کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

مہنگائی کا طوفان گزشتہ دو سالوں میں تسلسل کے ساتھ برپا ہوتا رہا ہے۔ صورتحال اتنی سنگین ہو چکی ہے اب مزید معاشی قتل کی قوم متحمل نہیں ہو سکتی۔ جس بے رحمی کے ساتھ عوام کی معاشی زندگی اور ان کے معصوم سے مستقبل کے خواب چکنا چور ہوئے ہیں اس کا حکمرانوں نے اگر جلد ادراک نہ کیا تو عوام کے صبر کے پیمانے کو چھلکنے میں شائد دیر نہ لگے۔ وہ ابھی بھی ”آرزو صبر طلب اور تمنا بے تاب“ جیسی نفسیاتی کشمکش میں مبتلا ہیں اور اگر پہاڑ جیسی غلطی ہوئی تو انجام کار وہی کچھ ہو گا جسے آج کل ہر کس و ناکس انقلاب کے نام سے تعبیر کرتا ہے، بجلی گیس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے یا مجموعی طور پر مہنگائی، بے یقینی، بداعتمادی، امن و امان کی صورتحال اور طاقتور حلقوں کی دھونس دھاندلی کے خلاف بھی احتجاج کو اہلِ غربت کے اسی عالمی اضطراب اور تبدیلی کی خواہش کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔

حکومت کو چاہئے کہ ملک کو خود مختاری اور داخلی استحکام کی منزل تک لانے کے لئے معاشی اہداف عوامی مفاد پر مبنی اور جمہوری ثمرات کی عام آدمی تک پہنچ کو یقینی بنائے اور ساتھ ساتھ ان خطرات اور ممکنہ بحرانوں کا ادراک و سدِ باب کرے جن کی نشاندہی ماہرین کرتے رہتے ہیں۔ اس کے لئے معاشی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے اور ایسی اقتصادی حکمتِ عملی وضع کی جائے جو مہنگائی کے بوجھ تلے عوام کو ہمہ جہتی معاشی آسودگی دے۔ ضرورت درست معاشی حکمت عملی، تدبر اور ٹھوس فیصلوں پر مبنی ہمہ جہت سوچ بچار کی ہے تاکہ یہ الزام حکومت پر نہ لگ جائے کہ اس نے اپنی آمدن میں اضافے کا واحد ذریعہ روزمرہ کی اشیاء کی قیمتوں پر ٹیکس بنا لیا ہے، خوف اور عوام سے کمٹمنٹ میں کوتاہی کی ریت اسٹیبلشمنٹ اور اشرافیہ کی آنکھوں میں سماجائے تو اس کے فیصلے دیر پا نہیں ہوا کرتے۔ مہنگائی اور عزتِ نفس کی ستائی ہوئی خلقِ خدا دو وقت کی روٹی کو ترس رہی ہے۔

بانیانِ پاکستان نے اس ملک کو فلاحی ریاست کے مقصد کے تحت بنایا تھا، اسے مفاد پرست اور کرپٹ سیاست دانوں، اشرافیہ اورا سٹیبلشمنٹ کی چراہ گاہ بنانے کے لئے نہیں حاصل کیا تھا۔ آج ملک کو ضرورت ہے تو عوام شریف فیملی اور زرداری فیملی سے توقع کرتے ہیں وطنِ عزیز کی خاطر اپنے بیرونِ ملک اثاثے فروخت کر دیں۔ اسی جذبے کی اہلِ وطن اصل میں تمام اشرافیہ سے بھی توقع رکھتے ہیں۔ یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ حکومت اٹھتے طوفان کا پیشگی ادراک کرے اور پالیسیوں کو قومی اور عوامی امنگوں سے ہم آہنگ کرنے میں دیر نہ لگائے، حکومت بروٹسوں سے خبردار رہے اور قوم کو دلدل سے نکالے، کرپٹ معاشرے میں آزادی کی بقاء بھی ممکن نہیں ہوتی۔