قلم گُذشِت

روزنامہ نوائے وقت ملتان کے دفتر میں بڑی تمکنت سے براجمان شخصیت سے پہلا تعارف تب ہوا جب راقم نے کالم Logo کی درخواست دی، تحریر فرماکر حکم دیا میگزین ایڈیٹر برادر سلیم ناز کے حوالہ کردیں، پھرا پنی کتاب ”نوائے سروش“ کا مسودہ لے کررائے لینے حاضر خدمت ہوا۔

صحافتی دنیا میں بڑانام رکھتے ہیں، زمانہ طالب علمی ہی سے تحریر اور تقریر کا جذبہ موجزن رہا جس میدان میں بھی قدم رکھا اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، انکی پہلی کتاب ”قلم گُذشِت“ زیر مطالعہ رہی، یہ رائے قائم کرنا مشکل کہ وہ بہترین ادیب ہیں یا اعلیٰ پائے کے صحافی، اعلیٰ اسلوب میں رقم خود نوشت ہے، بقول سجاد جہانیہ یہ آپ بیتی لگتی ہے کبھی محسوس ہوتا ہے کہ شخصی خاکہ پڑھ رہے ہیں، کہیں تاریخ کی کتاب لگتی ہے کمال یہ کسی بھی جگہ مصنف آپ سے جدا نہیں ہوتا۔

محترم جبار مفتی نے حالات زندگی لکھنے کے لئے امریکی صدر رچرڈ نکسن کا ماڈل اپنایا ہے جنہوں نے اپنی کتاب ”دی لیڈر“ میں ان ممتاز شخصیات کا تذکرہ کیا، بطور نائب صدر جن سے واسطہ رہا، عبدالجبار مفتی نے بھی مذکورہ کتاب میں سات شخصیات کا ذکر خیر کیا، اپنی حیاتی اور صحافتی زندگی میں جن سے روابط رہے، سید ابو اعلیٰ مودودیؒ، ذوالفقار علی بھٹو، میاں نوازشریف، عمران احمد خان نیازی، سید یوسف رضا گیلانی، محمد حیات خان کوثر نیازی اور ملک ظہیر الدین بابر اعوان شامل ہیں۔

بقول مصنف سید مودودیؒ سے تعارف کی وجہ انکے والد عبدالستار مفتی تھے جو جماعت اسلامی سے وابستہ رہے، تاہم سید مودودی کی پہلی زیارت تب ہوئی جب وہ سکول میں مشاہرہ سننے آئے، والد کے حکم پر جماعت کے اُس جلسہ میں گئے جس پر دور ایوبی میں گولی چلا دی تومولانا نے شہرہ آفاق جملہ کہا کہ ”میں بیٹھ گیا تو کھڑا کون رہے گا“ کتاب میں 70 کے انتخابات کا تذکرہ ہے کہ میڈیا کے سروے جماعت کے حق میں تھے نتائج اس کے برعکس برآمد ہوئے، مصنف کو مولانا کی عصری مجالس میں بھی شرکت کا موقع ملا، آخری دیدار کی سعادت جنرل ضیاء الحق کے لئے بنائی گئی بغلی گلی کی بدولت ہوئی انکے انتقال کو ایک ہفتہ ہو چکا تھا مگر محسوس ہوتا کہ مولانا سوئے ہیں ابھی جاگ جائیں گے۔

معاہدہ تاشقند کے بعد عوامی تاثر تھا کہ جیتی جنگ مذاکرات کی میز پر ہار دی ہے، اس کے بعد ذوالفقار بھٹو ہیرو اور ایوب ولن نظر آئے، پتہ چلا کہ وہ لاہور ائر پورٹ پر آرہے ہیں، ملنے کے شوق سے دوست کے سائیکل پر روانہ ہوئے چند افراد بھٹو کا استقبال کرنے آئے مسٹر بھٹو نے سب سے ہاتھ ملایا، مصنف کو یوں لگا جیسے نرم ملائم چیز ہاتھ میں آگئی، دوسری ملاقات امریکہ سفارت خانہ میں بحیثیت طالب علم راہنماء ہوئی، اگرچہ بھٹو ووٹوں سے برسراقتدار آئے مگر ان کا امیج یہ بناکہ وہ مخالفت ہی نہیں مخالف کو بھی برداشت نہیں کرتے، انکے جمہوری عہد میں جماعت اسلامی کے ڈاکٹر نذیر شہید ہوئے، نیپ کے عبدالصمد، خواجہ رفیق، احمد خان قصوری قتل ہوئے، جماعت اسلامی کے میاں

طفیل محمد پر جیل بہیمانہ تشدد ہوا، پی پی پی کے بانی ممبرجے اے رحیم کسی گستاخی کی پاداش میں بھٹو کے عتاب کا شکار ہوئے۔ بھٹو  نے سوشلزم ہماری معیشت کانعرہ لگایا تودائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے راستے جدا کر لئے، جماعت اسلامی خم ٹھونک کر میدان میں آگئی، جبار مفتی نے بھی کنستر کٹوا کر پینٹر سے نعرہ سوشلزم کا مطلب کیا؟ ”خون خرابہ اور انکار خد ا“ لکھوا کر دیواروں پر پینٹ کردیا۔

مصنف کی رائے کوثر نیازی سے متعلق اچھی نہیں، وہ بے وفا قسم کے سیاستدان تھے، پہلے جماعت اسلامی پھر ایوب خاں کی چمچہ گیری کی، اور جماعت اسلامی کی دشمنی پر اتر آئے، پھر لادین پیپلز پارٹی کے ہو گئے، مولوی ”وہسکی“ کے نام سے مشہور ہوئے۔ عمران نیازی سے پہلی ملاقات پریس کلب میں تب ہوئی شوکت خانم ہسپتال کی چندہ مہم پر جب وہ ملتان آئے، دوسری 28 سال بعد لیہ میں کالم نگاروں کے وفود سے ساتھ روبرو ہوئی، عثمان بزدار اس لئے خوش تھے کسی کالم نگار  نے صوبائی کارکردگی پر سوال نہیں اٹھایا۔

مفتی جی کا پاک یوتھ موومنٹ سے بھی تعلق رہا، انتخابی عمل میں اس نے جماعت اسلامی کا ساتھ دیا، ربوہ میں نشتر میڈیکل ملتان کے طلباء پرتشدد ہوا اور ملکی سطح پراینٹی قادیانی تحریک چلی تو جبار مفتی رفیق جمعیت تھے تحریک کا حصہ ہی نہ بنے”اسیران ختم نبوت“ کی سعادت پائی، راولپنڈی جیل کے سپرنٹنڈنٹ حافظ محمد قاسم تھے ایک روز خط بنام جبار مفتی لائے، جو انکے والد گرامی نے برطانیہ سے لکھا تھا، جس میں گرفتاری پر تحسین اور ڈٹے رہنے کا مشورہ تھا، منتظم جیل کہنے لگے اربع صدی میں یہ پہلا خط ہے جس میں گرفتاری پر شاباش دی ہے، اتنا پھڈے باز باپ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

بطور صدر پریس کلب ملتان انتہائی متحرک رہے انکے دور صدارت میں فاروق لغاری، یوسف رضاگیلانی، بلخ شیر مزاری، سردار عبدالقیوم، مولانا کوثر نیازی ،عبدالستار نیازی،  نے ”پروگرام گفتگو“ میں اظہار خیال کے لئے شرکت کی، میاں نوازشریف نے بطور وزیر اعظم پریس کلب کو 25 لاکھ دینے کا اعلان کیا، دھوم پڑ گئی، کلب انتظامیہ چیک کی منتظر تھی کہ انکی حکومت ختم کردی گئی۔

نوازشریف جب زیر عتاب اور لندن تھے انکا انٹرویو کیا وہ فر فر انگریزی بول رہے تھے، مدیر”میڈ ان پاکستان“ لیڈر کو حیرت سے دیکھتے رہے، میاں صاحب نے کہا کہ ”لوٹے بازی“ سے ملک کو نقصان پہنچا اس سے نظریہ ضرورت ایجاد ہوا، کتاب میں مسلم ڈی 8 ملائشیاء کا نفرنس میں شرکت کا ذکر ہے جو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کیساتھ بطور صحافی انھوں نے کی، بقول مدیر اس کا فائدہ امہ یا ملک کو ہوا یا نہیں مگر صحافیو ں کو مالی فائدہ ضرور ہوا، کیونکہ اس ”نمانی کانفرنس“ کو عالمی میڈیا نے لفٹ نہ کروائی۔

بابر اعوان کے متعلق رائے ہے کہ چالیس سالہ صحافتی زندگی میں ایسا فرد نہیں دیکھا جس میں بہادری، ذہانت، محنت سب کچھ یک جا ہو، بقول خالد مسعود شیخ رشید، بابر اعوان طلباء سیاست کے دو کردار تاحال متحرک ہیں، انکی سیاسی اٹھان اور ڈرامہ بازیاں تفصیل سے صرف اسی کتاب میں ہیں۔

مخدوم رشید ملتان میں اوقاف کی ستر ایکٹر اراضی کا تذکرہ بھی ہے جو میڈیکل کالج کے لئے مختص کروائی،جاوید ہاشمی نے میاں نوازشریف سے اعلان بھی کروا دیا، جب عبدالوحید آرائیں وزیر بنے کم دام میں عزیزوں کو لیز پر دلوادی۔ مسٹر ہاشمی نے اسوقت احتجاج کیا جب وہ مسلم لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف میں گئے۔